اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں دنیا کو ایک ایسے بیانیے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس نے مشرقِ وسطیٰ کی تقدیر اور عالمی جغرافیائی سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا: یہ دعویٰ کیا گیا کہ صدام حسین کی قیادت میں عراق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMDs) چھپا رہا ہے اور عالمی سلامتی کے لیے ایک فوری خطرہ ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس دعوے کو 2003 میں عراق پر حملے کا بنیادی جواز بنایا۔ دو دہائیوں بعد، جب اسرائیل-ایران تنازعے میں کشیدگی عروج پر ہے، تو عراق جنگ پر ایک نظر ڈالنا ہمیں ناقص انٹیلی جنس، جغرافیائی سیاسی ایجنڈوں، اور فوجی مداخلت کے نتائج کے بارے میں اہم اسباق سکھاتا ہے۔
آج ہم اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ کس طرح دنیا کو WMDs کی رپورٹس کے ذریعے گمراہ کیا گیا، صدام حسین کا زوال کیسے ہوا، اور آج کے غیر مستحکم مشرقِ وسطیٰ میں ان واقعات کی کیا اہمیت ہے۔
WMDs کا بیانیہ: ریت پر بنی ایک عمارت
عراق پر حملے کا جواز اس دعوے پر مبنی تھا کہ صدام حسین کی حکومت کے پاس فعال کیمیائی، حیاتیاتی اور جوہری ہتھیاروں کے پروگرام موجود ہیں۔ جنوری 2002 میں اپنی “سٹیٹ آف دی یونین” تقریر کے دوران، صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق کو ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ “برائی کے محور” کا حصہ قرار دیا، جو WMDs حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور دہشت گردی کے حامی تھے۔ اگست 2002 میں نائب صدر ڈک چینی نے پختہ یقین سے دعویٰ کیا کہ “صدام حسین کے پاس اب بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں” اور وہ انہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ ان دعووں کو انٹیلی جنس رپورٹس نے تقویت دی، جیسے کہ 2002 کی ایک امریکی نیشنل انٹیلی جنس ایسٹیمیٹ جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عراق نائجر سے یورینیم حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، موبائل ہتھیاروں کی لیبز بنا رہا ہے، اور 500 ٹن تک کیمیائی ایجنٹ جمع کر چکا ہے۔
تاہم، یہ دعوے کمزور بنیادوں پر کھڑے تھے۔ زیادہ تر انٹیلی جنس پرانی معلومات، غیر تصدیق شدہ ذرائع، اور مشکوک ساکھ رکھنے والے منحرف افراد، جیسے کہ عراقی نیشنل کانگریس کے ارکان پر انحصار کرتی تھی۔ ایک قابل ذکر مثال عراق کے سابق WMD پروگرام ڈائریکٹر حسین کامل المجید کی گواہی تھی، جو 1995 میں منحرف ہوئے اور انکشاف کیا کہ عراق نے 1991 کی خلیجی جنگ کے بعد اپنے کیمیائی اور حیاتیاتی ذخائر کو تباہ کر دیا تھا—ایک حقیقت جس کی بعد میں تصدیق بھی ہوئی لیکن جنگ کی عجلت میں اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ نائجر سے یورینیم حاصل کرنے کی عراق کی کوششوں کی رپورٹس کو سابق سفارت کار جوزف ولسن نے مسترد کر دیا، جنہوں نے ایسی کسی بھی لین دین کا کوئی ثبوت نہیں پایا، اس کے باوجود یہ دعویٰ بش کی 2003 کی سٹیٹ آف دی یونین تقریر میں برقرار رہا۔
اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپکٹرز، جنہوں نے 2002 میں قرارداد 1441 کے تحت ہنس بلکس کی قیادت میں معائنہ کیا، فعال WMD پروگراموں یا ذخائر کا کوئی ثبوت نہیں پایا، اور صرف عراق کی طرف سے “فعال لیکن ہمیشہ فوری نہیں” تعاون کا ذکر کیا۔ اس کے باوجود، امریکہ اور برطانیہ نے ان نتائج کو مسترد کر دیا- میڈیا نے ان دعووں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جس میں ‘دی نیو یارک ٹائمز’ جیسے اداروں نے عراق کے مبینہ جوہری عزائم کے بارے میں کہانیاں شائع کیں—جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔ 9/11 کے حملوں کے بعد امریکی عوام، جو ابھی تک صدمے میں تھے، اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار تھے کہ عراق کا دہشت گردی سے تعلق ہے، حالانکہ صدام کا القاعدہ یا حملوں سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔
ایران اسرائیل جنگ- تمام خبریں
حملہ اور اس کے نتائج
20 مارچ 2003 کو، امریکہ کی قیادت میں ایک اتحادی فوج نے “آپریشن عراقی فریڈم” کا آغاز کیا، جس نے صدام کی حکومت کو ہفتوں کے اندر گرا دیا۔ حملے کو شروع میں سراہا گیا جس کی علامت بغداد کے فردوس چوک میں صدام کے مجسمے کو گرانا تھا۔ تاہم، WMDs کی عدم موجودگی نے عوامی حمایت کو تیزی سے کم کیا۔ 2005 تک، ایک امریکی صدارتی کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عراقی WMDs کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس “مکمل طور پر غلط” تھی، اور دعووں کی حمایت میں “ردی برابر” بھی ثبوت نہیں تھا۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات، بشمول 2004 کی ڈیوئلفر رپورٹ، نے اس بات کی تصدیق کی کہ عراق نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنے WMD پروگراموں کو ختم کر دیا تھا مگر صدام نے ایران جیسے علاقائی حریفوں کو روکنے کے لیے اس کا کھلم کھلا اظہار نہیں کیا۔
WMDs کی عدم موجودگی نے حملے کے کمزور جواز کو بے نقاب کیا، جس سے اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ آیا بش انتظامیہ نے انٹیلی جنس میں ہیر پھیر کی تھی یا خود گمراہ ہوئی تھی۔ ناقدین، بشمول سابق انٹیلی جنس عہدیداروں، نے دلیل دی کہ انتظامیہ نے حکومت کی تبدیلی کے پہلے سے طے شدہ ہدف کو جواز فراہم کرنے کے لیے ڈیٹا کو چن چن کر استعمال کیا، جبکہ دیگر ادارے، جیسے کہ ‘فارن افیئرز’، نے نوٹ کیا کہ بش عہدیداروں کو واقعی ایک گرتی ہوئی روک تھام کی پالیسی اور صدام کی WMD پروگراموں کو دوبارہ شروع کرنے کی صلاحیت کا خوف تھا۔
جنگ کے نقصانات حیران کن تھے: 4,700 سے زیادہ امریکی اور اتحادی فوجیوں کی اموات، 100,000 سے زیادہ عراقی شہریوں کی ہلاکتیں، اور اندازاً 2.9 ٹریلین ڈالر کے اخراجات۔ طاقت کے خلا نے فرقہ وارانہ تشدد، سنی بغاوت، اور داعش جیسے گروہوں کے عروج کو ہوا دی، جس نے برسوں تک عراق کو غیر مستحکم رکھا۔
صدام حسین کے ساتھ کیا گیا ظلم
صدام حسین، جنہوں نے 1979 سے عراق پر حکومت کی تھی، بغداد کے سقوط کے بعد مفرور ہو گئے۔ 13 دسمبر 2003 کو، امریکی خصوصی افواج نے انہیں تکریت کے قریب سے گرفتار کیا۔ ان کا مقدمہ، جو ایک عراقی عدالت نے چلایا، 2005 میں “انسانیت کے خلاف جرائم” کے الزامات کے ساتھ شروع ہوا۔
یہ مقدمہ تنازعات سے بھرا ہوا تھا، جس میں صدام کے امریکا اور عدلیہ پر فرقہ وارانہ تعصب کے الزامات نمایاں تھے۔ 5 نومبر 2006 کو، انہیں مجرم قرار دیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی۔ 30 دسمبر 2006 کو، صدام کو بغداد میں پھانسی دے دی گئی، ان کی پھانسی کی لیک ہونے والی فوٹیج میں ان کے دشمنوں کی طرف سے طعنے دکھائے گئے، سنیوں نے اسے دیکھ کر انتقام کا عزم کیا۔
اسرائیل-ایران تنازعے کے لیے اسباق
عراق جنگ کا ناقص WMD انٹیلی جنس پر انحصار موجودہ اسرائیل-ایران تنازعے کے لیے گہری اہمیت رکھتا ہے، جو 2025 میں ایرانی فوجی اور جوہری ٹھکانوں پر اسرائیلی حملوں کے ساتھ شدت اختیار کر گیا۔ 1980 میں عراق کے برعکس، جس نے صدام کی جارحانہ عزائم کے تحت ایران پر حملہ کیا تھا، اسرائیل کے اقدامات کو مغرب کی جانب سے دفاعی نوعیت کا قرار دیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام اور پاسداران انقلاب کی تنصیبات کو روکنا ہے۔ تاہم، عراق کی مثال غیر تصدیق شدہ انٹیلی جنس پر کارروائی کے خطرات سے خبردار کرتی ہے۔ ایران کے جوہری عزائم کی رپورٹس، جیسے کہ عراق کے WMDs کی، سیٹلائٹ امیجری، منحرفین، اور انٹیلی جنس تخمینوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں، جن کی غلط تشریح یا مبالغہ آرائی کی جا سکتی ہے۔
اسرائیل کا 1981 میں عراق کے اوسیراک ری ایکٹر پر حملہ، جس نے صدام کے جوہری عزائم کو تاخیر کا شکار کیا، کو اکثر ایک کامیاب پیشگی کارروائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس نے عراق کے خفیہ پروگراموں کو جاری رکھنے کے عزم کو بھی ہوا دی۔ آج، ایران کا جوہری پروگرام، جو مبینہ طور پر نطنز میں اسرائیلی حملوں سے متاثر ہوا ہے، ایک تنازعہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ عراق جنگ نے دکھایا کہ فوجی مداخلت، چاہے ابتدا میں کامیاب ہی کیوں نہ ہو، غیر ارادی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
عراق جنگ ایک سبق آموز کہانی تھی کہ کس طرح خوف، غلط انٹیلی جنس، اور جغرافیائی سیاسی مفادات تباہ کن فیصلوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ WMDs کی عدم موجودگی نے امریکی قیادت میں حملے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، بے شمار بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوا، اور مشرقِ وسطیٰ کو غیر مستحکم کیا جس کے نتائج آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ صدام حسین کے زوال نے ایک افراتفری کو جنم دیا جس سے نمٹنے کے لیے نہ عراق اور نہ ہی خطہ تیار تھا۔ آج جب اسرائیل-ایران جنگ جاری ہے، تو دنیا کو عراق جنگ سے سیکھنا چاہیے۔