The news is by your side.

ایک تھا چلغوزہ۔۔۔۔

بچپن میں ہم سردی کے موسم کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ وجہ وہ خشک میوے ہوتے جنھیں ہڑپ کرنے کے لیے ہمارا پیٹ جیسے مرا جاتا تھا۔

سرما کی سوغاتوں کا تو مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ مونگ پھلی، پستے، بادام، اخروٹ، شکر قندی، تل کے لڈو، ریوڑیاں اور چلغوزے جو سردیوں کی شان اور ہم بچوں کی جان ہوتے تھے۔ اکتوبر کا مہینہ ختم ہوتا تو دل میں لڈو پھوٹنے لگتے کہ اب سردی شروع ہو گی اور ہمیں مزے مزے کی چیزیں کھانے کو ملیں گی۔ سردیوں میں لطف یہ بھی تھا کہ نانیاں دادایاں صحت و تن درستی اور موسم کے اثرات سے بچانے کے لیے ہم بچوں کے لیے میوے ڈال کر طرح طرح کی ٹکیاں اور دیسی گھی میں تل کے لڈو بنا کر دیتی تھیں۔

ہر گلی کے کونے پر سرِ شام مونگ پھلی والا ٹھیلا کھڑا کر دیتا اور شکر قندی والا بھی آوازیں لگاتا گلیوں میں پھرتا رہتا۔ شام کو بچے یہ سب کھاتے اور خوب لطف اٹھاتے۔ اصل مزہ تو رات کے کھانے کے بعد آتا تھا۔ لوگ سردی کے موسم میں سرِ شام ہی گھروں میں بند ہو جاتے تھے۔ ان دنوں ٹیلی ویژن کی نشریات رات گیارہ بجے تک جاری رہتی تھیں۔ اس وقت کی سب سے بڑی تفریح شاید یہی تھی کہ ایک چادر پر سب بچے حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور امی کی الماری سے وہ ڈبا برآمد ہوتا جس میں موجود میوہ گویا سب کا محبوب ہوتا تھا۔ امی ڈبے میں سے چلغوزے نکال کر درمیان میں ڈھیر لگا دیا کرتی تھیں اور پھر سب وہ چلغوزے اٹھاتے جاتے اور چھیل کر خوب مزے سے کھایا کرتے تھے۔

کیا وقت تھا وہ بھی۔ وہ لوگ جن کی عمریں اس وقت اٹھارہ، بیس سال کی ہیں شاید سوچیں کہ بھئی یہ چلغوزہ کس چڑیا کا نام ہے؟ جو سردیوں میں کھایا جاتا تھا اور وہ بھی چادر بچھا کر اس کے گرد دائرے کی شکل میں بیٹھ کر۔ ہم تو بس مونگ پھلی کو جانتے ہیں۔ ہاں چلغوزے کی تصاویر سردیوں میں فیس بک پر تو کثرت سے دکھاٸی دیتی ہیں لیکن اسے خریدنے کا تو سوچتے بھی نہیں۔

کیا بات تھی جناب، اس خوش ذاٸقہ میوے کی کہ آج بھی اس کا ذائقہ زبان پر محسوس ہوتا ہے۔ وہ دور بھی تھا جب چلغوزے کی فروانی اور ارزانی تھی۔ بچے چھیل چھیل کر تھک جاتے، ناخن ٹوٹ جاتے، انگوٹھے سیاہ پڑ جاتے تھے مگر چلغوزے سے ہاتھ نہ روکتے۔ کبھی کسی کو شرارت سوجھتی تو وہ نظر بچا کر اپنے آگے سے چھلکے سمیٹتا دوسرے بچے کے سامنے ڈال دیتا اور پھر سب اسے تنگ کرتے کہ بھئی سب سے زیادہ چلغوزے تم نے کھائے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہم چلغوزے چھیل چھیل کر تھک جاتے تو مٹھی بھر کے اٹھاتے اور کاپی سے صفحہ پھاڑ کر اس میں ڈالتے اور اس کی پڑیا بنا کر رکھ لیتے کہ کل اسکول میں کھاٸیں گے۔

اگلے دن وہ پڑیا جیب میں الٹ دی جاتی اور چھٹی تک چلغوزے نکال نکال کر کھائے جاتے۔ کچھ بے تکلف دوست دوسرے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چلغوزے نکال لیتے اور مزے کرتے، لیکن صاحب یہ باتیں تو اب خواب و خیال لگتی ہیں۔ آج کی نسل نے تو چلغوزہ صرف تصویروں میں دیکھا ہے۔ اللہ بھلا کرے اس سوشل میڈیا کا جو ہمیں بھی سردیوں میں اس چلغوزے کی یاد دلا دیتا ہے، جو گہرے رنگ یعنی بھورے اور سیاہی مائل بیضوی مگر لمبوترے ہوتے تھے۔ چھیلو تو ان میں سے بادامی رنگ کا بیج نکلتا۔ منھ میں رکھو اور چباٶ تو کیا دودھیا مزہ آتا تھا۔

چلغوزہ جس طرح ہماری پہنچ سے دور ہوا ہے، لگتا ہے آٸندہ چند سال بعد اُس وقت کے بچوں کو نصاب میں اس کے بارے میں معلومات دی جارہی ہوں گی۔ کیا عجب ہے کہ اردو کی کتاب میں ایک سبق کا اضافہ کرنا پڑے گا جس کا عنوان ہو‘‘ایک تھا چلغوزہ۔۔۔۔’’