The news is by your side.

برطانیہ میں یہ سیاسی ہلچل کیوں ہے ؟

برطانوی دارالعوام کو جمہوریت کی ماں بھی کہا ہے کیونکہ یہ نہایت بااختیار ہے۔ تاجِ برطانیہ بھی اس کے فیصلوں میں مداخلت کرنے کا قانونی جواز نہیں رکھتا۔ پھر پچھلے چند سال میں ایسا کیا ہوا کہ برطانیہ کی پارلیمان میں کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت نہیں پوری کر پا رہا جہاں سر ونسٹن چرچل نے برطانیہ کے برے اور جنگی حالات میں بھی دو مرتبہ، مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر جیسے لیڈروں نے دو دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی ذمے داری سنبھالی۔

یورپین یونین میں شمولیت اور اس سے انخلا کا عمل برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں 1832 کے ریفارم ایکٹ کے بعد شاید دوسرا ایسا قانون ہے جسے منظور کرتے کرتے متعدد وزرائے اعظم اپنے عہدے سے گئے۔ چاہے 90 کی دہائی میں ماسٹریچٹ معاہدے کی توثیق ہوتے ہوتے جان میجر کی قربانی ہو یا پھر بریگزٹ کے ہوتے ہوتے ڈیوڈ کیمرون سے لے کر تھریسا مے اور بورس جانسن کا وزارتِ عظمی کو خدا حافظ کہنا ہو، مگر یورپی یونین میں شمولیت اور علیحدگی کے معاملے ہر ایک وزیرِاعظم کو ناکوں چنے چبانے پڑے ہیں۔

سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے یورپی یونین سے متعلق ریفرنڈم کا اعلان اس نیت سے کیا تھا کہ برطانیہ کے عوام اس کے خلاف فیصلہ دیں گے، مگر نتیجہ ان کی خواہشات کے برعکس نکلا اور 51 فیصد برطانوی عوام کی رائے وہی رہی جو کنزرویٹو لیڈر سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کے دل و دماغ میں مہاجرین کے خلاف بھرتے رہے۔ لہذا اب انہیں اپنے ہی کیے کرائے پر پچھتانا پڑ گیا۔ چنانچہ ڈیوڈ کیمرون نے بجائے اس پر عمل کرنے کے گھر جانا مناسب سمجھا اور یہ مشکل ترین ذمے داری اپنی جانشین تھریسا مے کے کندھوں پر چھوڑ گئے۔

تھریسا مے نے قبل از وقت انتخابات کرائے اور کوشش کی کہ تازہ اکثریت اور سیاسی حمایت کے ساتھ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے عمل درآمد کروایا جائے مگر یہ یہ ایسا بھاری پتھر تھا کہ ایک بار پھر انہیں‌ بھی اپنے ہی ممبران کی مزاحمت برداشت کرنا پڑی جب علیحدگی کا مسودہ دارالعوام میں پیش کیا گیا۔ نتیجتاً تھریسا مے بھی بری طرح ناکام ہوئیں اور استعفی دے دیا۔ ان کے بعد برطانیہ کے اس مشکل ترین سیاسی مرحلے پر بورس جانسن سامنے آئے جو پہلے ہی اقلیتوں اور ملک کے دیگر طبقات کے لیے اپنے بیانات کی وجہ سے متنازع شہرت رکھتے تھے۔ ان کا وزراتِ عظمیٰ کے لیے انتخاب ہی دراصل ایک ایسا فیصلہ تھا جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ ٹوریز بریگزٹ ریفرنڈم کرائے جانے کے بعد خود کس قدر تذبذب کا شکار ہوچکے تھے۔ کیونکہ یہ واضح تھا کہ بورس جانسن کے آنے کے بعد تھمنے کے بجائے برطانوی سیاست میں مزید ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ ان کے وزیراعظم بننے کے بعد برطانیہ نے وہ دن بھی دیکھے جو ملک کی تاریخ میں‌ دیکھنے کو نہیں ملے۔

بورس جانسن کو بھی تھریسا مے کی طرح بریگزٹ کی تکمیل کے لیے پارلیمان سے شدید دباؤ کا خدشہ تھا لہذا ملکی آئین کو استعمال کرکے انہوں نے 2019 میں ملکہ برطانیہ کے ذریعے اس وقت تک کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس کو ملتوی کیا جب تک بریگزٹ کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ اگرچہ بعد میں عدالت نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیا مگر بورس جانسن نے اس دوران بریگزٹ کا عمل مکمل کرلیا تھا، تاہم یہ داغ ان پر رہے گا کہ انہوں‌ نے برطانیہ کی تاریخ میں ایک غیر آئینی فیصلہ کیا تھا۔

خدا خدا کرکے بریگزٹ کا مسئلہ حل ہوا تھا کہ دنیا کو کرونا وائرس کی صورت میں ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا اور جانی و مالی نقصانات کے ساتھ دنیا میں معاشی طور پر بھی کئی ممالک بدحالی کا شکار ہوگئے۔ بورس جانسن وہ پہلے عالمی لیڈر نکلے جن کا نہ صرف ملک کرونا وائرس کی لپیٹ میں تھا بلکہ وہ خود بھی اس وبا کا شکار ہوئے، تاہم اس سب کے باوجود وہ تنازعات سے باہر نہیں نکلے۔ اسی دوران پارٹی گیٹ کا معاملہ سامنے آیا جس میں الزام لگایا گیا کہ سخت لاک ڈاؤن کے باوجود حکومتی ارکان ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں پارٹی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ان پر اقربا پروری کے الزام بھی عائد کیے گئے اور اپنی ہی پارٹی کے 21 ایم پی ایز کو پارٹی سے بے دخل کرنے کی خبر بھی سامنے آئی جس سے پہلے ہی دیگر پارٹی ارکان کو یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ شاید بورس جانسن پارٹی پر اپنی مطلق العنانی قائم کرنا چاہتے تھے۔

UK Rishi Sunak

 

جب کہ شمالی اور جنوبی انگلینڈ میں لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ کے ہاتھوں پارٹی کی انتخابی شکست کے ساتھ ساتھ یوکرین روس جنگ کے باعث یورپ میں بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ بھی ایک وجہ تھی جس سے عوام کے ساتھ ساتھ بورس جانسن اپنے اراکین کا اعتماد بھی کھو بیٹھے اور بالآخر انہیں‌ مستعفی ہونا پڑا۔

برطانیہ میں مختلف وزرائے اعظم کے آنے جانے اور شدید سیاسی بحران کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ برطانیہ نے کبھی جمہوریت یا عوامی مینڈیٹ پر سمجھوتا نہیں کیا۔ اگر عوام نے فیصلہ کیا کہ انہیں یورپی یونین میں نہیں رہنا تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی حکومتوں نے اس سے متعلق فیصلے کیے اور اس پر عمل درآمد کیا۔ یہی وہ بات ہے جو برطانوی جمہوریت کو سب سے مختلف بناتی ہے اور دنیا کی باقی جمہوریتوں کے لیے ایک مثال ہے۔