جھینگا سمندری اور میٹھے پانی کی غذاؤں میں سب سے زیادہ مقبول اور زیادہ کھائی جانے والی غذا ہے۔ پانی میں رہنے والے یہ چھوٹے چھوٹے جانور فوڈ چین سسٹم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انسانوں کے ساتھ ساتھ، پرندوں اور پانی میں رہنے والے دیگر جانوروں کو بھی غذا فراہم کرتے ہیں۔
جھینگے بیش بہا فوائد سے مالا مال ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ جھینگا جاپان میں کھایا جاتا ہے، اور جھینگے کے علاوہ مچھلیاں، اور دوسری سمندری غذائیں زیادہ سے زیادہ کھانے میں بھی جاپانی آگے آگے ہیں۔ یورپی طبی جریدے نیچر کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق جاپانیوں کی لمبی عمر کے پیچھے موجود اسباب میں ایک اہم اور بنیادی سبب مچھلیوں کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔
جھینگے دنیا بھر کے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں پائے جاتے ہیں۔ گرم سمندروں میں ان کا تناسب زیادہ ہے۔ یہ زیادہ تر مینگروز کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں یا ریتیلی زمین پر، کیچڑ میں، مرجان کی چٹانوں کی دراڑوں میں، گھاس پھوس میں، جب کہ کھلے سمندر میں زیادہ تر ان کی بڑی نسلیں پائی جاتی ہیں۔
جھینگے زیادہ تر Protandrous Hermaphrodite ہوتے ہیں، یعنی کہ جھینگا ایک نر کی حثیت سے پیدا ہوتا ہے اور بعد میں جنس تبدیل کر کے مادہ بن جاتا ہے، لیکن یہ کب جنس تبدیل کرتے ہیں اور ان میں نر اور مادہ کا تناسب کیا ہے یہ بتانا مشکل ہے۔ جھینگے تیراکی کے ساتھ ساتھ سمندر کے فرش پر ’پیدل‘ بھی چلتے ہیں اور اس کی دنیا بھر میں دو ہزار کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔
جھینگوں کی بات ہو اور دو لڑاکا شکاری جھینگوں Mantis Shrimp اور Pistol Shrimp کو نظر انداز کر دیا جائے، تو یہ ان دو انتہائی شان دار اور باکمال جاں بازوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوگی۔
مینٹیس جھینگا
پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ایک ریسرچ اسٹڈی کے مطابق مینٹیس جھینگے کے پاس دو بہت ہی خطرناک ہتھیار ہوتے ہیں، جو اس کے منھ کے نیچے مڑی ہوئے اس کے سینے سے لگے ہوتے ہیں۔ یہ اس کے دو چھوٹے لیکن مضبوط پنجے یا بازو ہوتے ہیں، جن کے آخری سرے موٹے اور باکسنگ کے دستانے سے مشابہ ہوتے ہیں۔ مینٹیس اس سے مخالفین پر اتنی زور دار ضرب لگاتا ہے کہ انھیں مار ہی ڈالتا ہے۔ مینٹیس کا یہ مکا جانوروں کی دنیا میں رسید کیا جانے والا سب سے تیز ترین اور زوردار مکا ہے۔ گولی کی رفتار سے لگنے والے اس مکے سے یہ گھونگھے کے مضبوط خول کو بھی توڑ دیتا ہے، جب کہ خود سے بہت ہی بڑے آکٹوپس کو بھی آنکھوں اور ماتھے پر مکے مار مار کر بھاگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ سائز میں بڑے کالے ٹائیگر جھینگے کے جتنا ہوتا ہے۔
پستول جھینگا
پستول جھینگا سائز میں چھوٹا ہوتا ہے، اور اس کا دایاں پنجہ کسی آتشیں ہتھیار کے مشابہ ہوتا ہے۔ جوں ہی شکار اس کے رینج میں آتا ہے اس کا دایاں پنجہ ایک بلبلہ چھوڑتا ہے، یہ بلبلہ یا پانی کا گولہ تقریباً ساٹھ سے ستّر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے شکار کو گولی کی طرح لگتا ہے اور اسے مار ڈالتا ہے۔
کون سا جھینگا ذائقے میں اچھا ہے؟
ذائقے میں دنیا بھر میں palamós Shrimp, Royal red Shrimp, Red Dénia Shrimp, Pink Shrimp, Scarlet Shrimp, Kuruma-Ebi مشہور ہیں۔ پاکستان کے پانیوں میں جھینگے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں جہیرا یا جیرا، ٹائیگر، کلری، گڈانی پنکھ، گڈانی کڈی مشہور ہیں۔ سب سے ذائقے دار جیرا جھینگا ہوتا ہے۔ یہ بالکل نرم ملائم ہوتے ہیں۔ اس کی دو نسلیں ہیں۔ ایک سمندر کی تہ میں ہوتی ہے جو ہلکی گلابی مائل ہوتی ہے، اور یہ بہت ذائقے دار اور مہنگی ہے اس لیے لوکل مارکیٹوں میں نظر نہیں آتی بلکہ ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ دوسری نسل سفید والی ہے، جو سطحِ سمندر پر ملتی ہے اور جو جہیرا یا جیرا کے نام سے مشہور ہے۔
جیرا جب چھوٹا ہوتا ہے تو اسے کڈی کہتے ہیں، درمیانی سائز کو پٹاس، اور فل سائز کو جیرا۔ اس سے ملتے جلتے دوسری نسل کے جھینگے کو کلری جھینگا کہتے ہیں۔ کلری جھینگا جیرا جھینگا کے سفید رنگ کے مقابلے تھوڑا گرے رنگ میں ہوتا ہے۔ ان کا سر بڑا، کھال سخت اور موٹی ہوتی ہے، اس لیے ان میں Wastage کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور گوشت بھی جیرا کے مقابلے میں کچھ سخت ہوتا ہے۔ یہ جیرا سے کم ذائقے دار ہوتے ہیں۔
جیرا کے بعد ذائقے میں ٹائیگر جھینگا اچھا ہے۔ اصلی ٹائیگر کالا ٹائیگر ہوتا ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کالے ٹائیگر کے بعد ٹائیگر کی نسل میں بلی ٹائیگر اور فلاور ٹائیگر مشہور ہیں، ٹائیگر اسے اس کے بڑے سائز کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ بڑے سائز کے ٹائیگر کلو میں تین سے چار دانے آتے ہیں۔
تازہ جھینگے کی پہچان
تازہ جھینگے کی جلد پر چمک ہوتی ہے اور وہ اپنے اصل رنگ میں ہوتا ہے۔ جب جھینگا باسی ہونے لگتا ہے تو گرے رنگ کا یا ڈارک ہونے لگتا ہے۔ پھر اس کے سر اور باقی بدن پر کالے نشانات آنے لگتے ہیں، سرمئی یا سفید پیر اور دم بھی کالی ہونے لگتی ہے اور اس میں سے بدبو آنے لگتی ہے۔ جھینگے پر جتنے زیادہ کالے نشانات ہوں گے اتنا ہی پرانا ہوگا۔ آخر میں اس کا سر بھی اس کے دھڑ سے الگ ہو جاتا ہے اور جھینگے کی جلد مکمل کالی ہو جاتی ہے، اس لیے سر کٹے جھینگے اور کالے نشانات والے جھینگے لینے سے پرہیز کریں۔ ایسے جھینگے، جھینگا فروش چھیل کر بھی بیچتے ہیں تاکہ گاہک حضرات کو ان کی تازگی کا پتا نہ چلے۔
شرمپ اور پران میں فرق
جھینگے کو Prawn اور Shrimp دونوں ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن دونوں میں بہرحال فرق ہے۔
پران میٹھے پانی کے جھینگوں کو اور شرمپ سمندری جھینگوں کو کہا جاتا ہے لیکن ایسا لازمی نہیں ہے، اکثر بڑے سائز کے شرمپ کو بھی دولت مشترکہ کے ممالک (Commonwealth Countries) میں پرانس پکارا جاتا ہے۔
پران، شرمپ سے جسمانی طور پر بڑے ہوتے ہیں اور ان کے اگلے دو پنجے بھی شرمپس سے بہت بڑے ہوتے ہیں اس لیے پران میں شرمپس کی بہ نسبت Wastage کی شرح زیادہ نکلتی ہے۔ پران ذائقے میں شرمپ سے میٹھے ہوتے ہیں۔ پران تقریباً سیدھے ہوتے ہیں اور پکنے کے بعد ہلکا سا خم دار ہو جاتے ہیں، جب کہ شرمپ خم دار ہوتے ہیں اور پکتے ہوئے بالکل گول ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں Decapod آرڈر ہوتے ہیں، ڈیکاپوڈ وہ جان دار ہوتے ہیں جن کے دس ہاتھ پیر ہوتے ہیں۔ شیل فش ایسوسی ایشن آف گریٹ بریٹین کے مطابق پرانس میں وٹامن ای زیادہ (71 فی صد) ہوتا ہے، جو کہ جلد کی صحت اور قوت مدافعت کے لیے اہم ہے، جب کہ شرمپ میں وٹامن بی 12 زیادہ (80 فی صد) ہوتا ہے، جو خون کے سرخ خلیات کی پیداوار اور اعصابی افعال کے لیے اہم ہے۔
عمر
جھینگے زیادہ لمبی عمر تک نہیں جیتے ہیں، ان کا عرصہ حیات ایک سے تین سال پر محیط ہوتا ہے۔ سب سے کم عمر Ghost Shrimp کی ایک سال تک عمر ہوتی ہے جب کہ ٹائیگر جھینگا تین سال تک جی سکتا ہے اور سب سے لمبے عرصے تک Caridean Shrimp چھ سال تک جی سکتے ہیں۔
خوراک
جھینگے ہمہ خور ہوتے ہیں، انھیں جو بھی ملتا ہے کھا لیتے ہیں، خواہ وہ نباتات ہوں یا دوسرے جان دار۔ اس لیے جھینگے کی خوراک Plankton پر مشتمل ہوتی ہے۔ پلانکٹن پانی میں بہتے یا تیرنے والے چھوٹے اور خوردبینی جان دار کو کہا جاتا ہے، جن میں بنیادی طور پر ڈائیٹمس، پروٹوزوئن، چھوٹے کرسٹیشینز، اور بڑے جانوروں کے انڈے اور لاروا ہوتے ہیں۔ پلانکٹن کی دو اہم اقسام ہیں: فائٹوپلانکٹن، جو پودے ہیں اور زوپلانکٹن، جو جانور ہوتے ہیں۔
انڈے دینے کا عمل
جھینگے مچھلیوں کے بر خلاف باقاعدہ جنسی تعلق قائم کر کے افزائش نسل کرتے ہیں۔ جب مادہ جھینگا افزائش کے لیے تیار ہوتی ہے تو وہ پانی میں ’Pheromone‘ نامی ایک جنسی ہارمون چھوڑتی ہے، نر اسے پا کر مادہ کے پاس جاتا ہے۔ مادہ جھینگا اس ملن کے تقریباً چھ سے بیس گھنٹے بعد حاملہ ہوتی ہے اور انڈے پیٹ کے نچلے حصے میں مارسوپیم نامی ایک تھیلی میں رکھتی ہے، مادہ جھینگا چند ہفتے تک حاملہ رہتی ہے اور پھر لاروا پانی میں چھوڑ دیتی ہے۔ مادہ جھینگا سائز میں نر سے بڑی ہوتی ہے اور اس کے سر کے بالکل پیچھے پیٹھ پر ایک سبز یا پیلا یا پھر جھینگے کے اپنے رنگ کا ایک دھبا ہوتا ہے جسے Saddle کہتے ہیں۔
جھینگا فروشوں کی دھوکا دہی
جب جھینگے کالے ہو کر باسی ہو جاتے ہیں تو جھینگا فروش انھیں پھینکنے کی بجائے چھیل کر بیچتے ہیں، اور ان کی بدبو چھپانے کے لیے ان میں میٹھا سوڈا یا پھر کیمیکل ملا دیتے ہیں۔ یہ کیمیکل یا سوڈا لگے جھینگے پکاتے وقت سخت ہو جاتے ہیں اور کھاتے وقت ذائقے میں سوڈے یا کیمیکل کی بو آتی ہے۔ باسی ہونے کی وجہ سے ان کی افادیت بھی بہت کم یا پھر ختم ہو جاتی ہے، اس لیے چھلے ہوئے جھینگے بالکل نہ خریدیں۔ اس کے علاوہ جھینگوں کا وزن بڑھانے کے لیے جھینگا فروش جھینگوں میں نمک ملا دیتے ہیں، جس سے جھینگے سخت اور ذائقے میں کم ذائقے دار ہو جاتے ہیں اس لیے جھینگے ہمیشہ کسی مستند ڈیلر سے ہی خریدیں۔
قیمت
سب سے مہنگا کالا ٹائیگر ہوتا ہے، جس کی قیمت سائز کے حساب سے پندرہ سو سے چار ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ ٹائیگر کے بعد جیرا کی قیمت سائز کے حساب سے ہزار سے دو ہزار روپے، اور زیادہ بڑا سائز ہونے پر پچیس سو روپے تک بھی اس کی قیمت جاتی ہے۔
بلی ٹائیگر ہزار سے پندرہ سو روپے، کلری چھ سو سے تیرا سو روپے تک، گڈانی پنکھ ہزار اور گڈانی کڈی کی قیمت سات سو روپے تک ہوتی ہے۔ کڈی جھینگے کی چار سو سے پانچ سو، اور پٹاس کی قیمت پانچ سو سے چھ سو تک ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں جھینگے کی دستیابی، قلت اور سردیوں میں اس کی قمیتوں میں ردوبدل ممکن ہے۔
کون سا جھینگا صحت کے لیے مفید ہے، سمندری، دریائی یا فارمی؟
بلاشبہ سمندری جھینگا دریائی جھینگے سے زیادہ مفید ہے لیکن فارمی جھینگے صحت کے لیے باقاعدہ مضر ہو سکتے ہیں۔ فارمی جھینگے غیر قدرتی ماحول اور خوراک پر پلتے ہیں اور بیماریوں سے بچانے کے لیے انھیں اینٹی بائیوٹک ادویات بھی دی جاتی ہیں، اس لیے امریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) اینٹی بائیوٹک والے جھینگے کھانے کی سفارش نہیں کرتی اور ایسے جھینگوں کی امریکا درآمد پر پابندی لگاتی ہے۔
جھینگے کے صحت بخش فوائد
امریکی حکومتی ادارے ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق جھینگے پروٹین میں زیادہ اور کیلوریز میں کم ہوتے ہیں۔ یہ خاص طور زائد وزن والے افراد کے لیے بہت مفید ہیں یا وہ جو وزن بڑھانا نہیں چاہتے۔ پروٹین صحت مند اور مضبوط پٹھوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اومیگا تھری
امریکی حکومتی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ آفس آف ڈائیٹری سپلیمنٹس کے مطابق جھینگے اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کا اچھا ذریعہ ہیں، جو دل کی صحت برقرار رکھنے، سوزش کو کم کرنے، کولیسٹرول کی سطح کم کرنے، دماغی افعال بڑھانے، یادداشت بہتر کرنے، بینائی کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو معمول پر رکھتے ہیں۔
جھینگے میں کئی اینٹی آکسیڈنٹ بھی ہوتے ہیں، جن میں اینٹی آکسیڈینٹ کی بنیادی قسم کیروٹینائڈ ہے، اور سیلینیم بھی جھینگے میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں سیلز کو پہنچنے والے نقصان سے بچانے میں مدد دیتے ہیں اور کینسر اور دل کی بیماری جیسی دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ یہ دونوں خلیات کو نقصان پہنچانے والے اور کینسر کے ذمہ دار فری ریڈیکلز کو روک کر سوزش سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔ کئی دائمی بیماریوں کے خطرے کو بھی کم کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ کیروٹینائڈ یعنی Astaxanthin شریانوں کو مضبوط بناتا ہے، جس سے دل کے دورے کا خطرہ کم ہو سکتا ہے، اور یہ ہائی ڈینسٹی لیپو پروٹین (HDL) یا ’اچھے‘ کولیسٹرول کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ ایسٹاکسینتھین جلد کی لچک کو بہتر بنا کر اور جلد کو نمی دے کر جھریوں کو کم کرتی ہے اور جلد کے کینسر سے بچاتی ہے۔ انسانی جسم Astaxanthin خود نہیں بنا سکتا اس لیے اس اہم اینٹی آکسیڈنٹ کو حاصل کرنے کے لیے جھینگے کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔
معدنیات اور وٹامنز
امریکی حکومتی اداروں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، اور ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق جھینگے معدنیات اور وٹامںز کا اچھا ذریعہ ہیں۔ یہ زنک، فاسفورس، آیوڈین اور میگنیشیم جیسے معدنیات سے بھرپور ہوتے ہیں، جو ہڈیوں اور دانتوں کی صحت برقرار رکھنے، میٹابولزم منظم کرنے، اور بدن کے بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام کو سہارا دیتے ہیں۔
وٹامنز
جھینگے وٹامن بی 12، وٹامن ڈی اور فاسفورس کے بھی اچھے ذرائع ہیں۔ وٹامن بی 12 خون اور اعصابی افعال بڑھانے جب کہ وٹامن ڈی اور فاسفورس ہڈیوں کو مضبوط رکھتے ہیں۔ یہ بدن میں کیلشیئم کو اچھی طرح سے جذب کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہڈیوں کے ٹوٹنے اور ہڈیوں کی بیماری ’آسٹیوپوروسس‘ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
امریکن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق جھینگے سیر شدہ چکنائی Saturated fat میں کم ہوتے ہیں، جس کی زیادتی دل کے افعال کو کمزور کر سکتی ہے، جب کہ غیر سیر شدہ چکنائی میں زیادہ ہوتے ہیں جسے صحت مند چکنائی سمجھا جاتا ہے اور اچھے کولیسٹرول HDL کے لیول کو بڑھاتا ہے۔
کولیسٹرول لیول
جھینگے کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں کولیسٹرول کا لیول زیادہ ہوتا ہے، یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن مکمل طور پر نہیں۔ امریکی حکومتی ادارے ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ کے مطابق 100 گرام پکے ہوئے جھینگے میں 189 ملی گرام کولیسٹرول ہوتا ہے اور امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق اگر آپ کا کولیسٹرول لیول زیادہ ہے تو آپ روزانہ 200 گرام کولیسٹرول لے سکتے ہیں ورنہ 300 گرام روزانہ کے حساب سے محفوظ ہے۔
اب اس تناظر میں دیکھیں تو ایک کلو جھینگا چھلے جانے کے بعد 500 گرام رہ جاتا ہے اور پکنے کے بعد لگ بھگ 300 سے 350 گرام، تو اگر آپ ایک کلو جھینگا خرید کر دو دن میں کھاتے ہیں تو یہ آپ کے لیے بالکل محفوظ ہے۔ اگر کولیسٹرول کے مسائل ہیں تو روز 100 گرام پکا ہوا کھائیں۔
درحقیقت جھینگے کے بیش بہا صحت بخش فوائد خصوصاً اومیگا 3 اور اینٹی آکسیڈنٹس اس معمولی سی خامی کو ابھرنے ہی نہیں دیتے اور اس معمولی سے کولیسٹرول کے لیول کی وجہ سے جو اعتدال میں جھینگے استعمال کرنے سے بالکل بے ضرر ہو جاتی ہے، جھینگا نہ کھانا اپنے آپ کو نعمت خداوندی سے محروم کرنا ہے۔
پیورینز لیول
پیورینز جسم میں قدرتی طور پر پائے جانے والے کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جن کے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے ایک غیر ضروری عنصر، یورک ایسڈ بنتا ہے۔ یورک ایسڈ کی زیادتی سے ہڈیوں اور جوڑوں کی کئی بیماریاں بشمول Gout لاحق ہوتی ہیں۔ جھینگے Purines میں کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔
جاپان کے فارماسیوٹیکل سوسائٹی کے ادارے ’بائیو لوجیکل اینڈ فارماسیوٹیکل بلیٹن‘ کے مطابق 100 گرام جھینگے میں 273 گرام پیورین ہوتے ہیں اور Gout کے مریضوں کو روز 400 گرام پیورین سے کم لینے کے لیے تاکید کی جاتی ہے۔
اس طرح گاؤٹ کے مریض بھی روز 125 گرام یعنی کہ آدھا پاؤ پکا ہوا جھینگا روز لے سکتے ہیں۔ گاؤٹ سے غیر متاثرہ افراد کے لیے تو کوئی قید ہی نہیں ہے لیکن اگر آپ روز ہی جھینگا لے رہے ہیں تو روز پکا ہوا 175 گرام ( یعنی کہ ایک کلو جھینگا پکنے کے بعد اس کی آدھی خوراک) سے تجاوز نہ کریں کہ اعتدال اچھی ہے۔
یاد رہے کہ جھینگے میں کولیسٹرول اور یورک ایسڈ کی زیادتی صرف معلومات عامہ کے لیے دی جا رہی ہے اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے جو جھینگے سے کولیسٹرول اور یورک ایسڈ کی زیادتی کے متعلق مضر صحت ہونے پر جوڑی جاتی ہیں۔ ان بے بنیاد باتوں یا ناقص معلومات سے گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ اسے کولیسٹرول اور یورک ایسڈ سے متاثرہ افراد بھی روزانہ اعتدال کے ساتھ لے سکتے ہیں تو ان بیماریوں سے غیر متاثرہ افراد کے لیے تو فکر مند ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو پھر بھی کوئی شبہ ہے تو آپ روز کی بجائے وقفے سے جھینگا کھائیں تاکہ کوئی خدشہ ہی نہ رہے۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تمام پیمائشیں ایک کلو جھینگا پکنے کے بعد 300 گرام کے حساب سے نہیں بلکہ 350 گرام کے حساب کی گئی ہیں تاکہ مقرر کردہ خوراکوں میں شک کی بالکل بھی گنجائش نہ رہے۔ اور مقرر کردہ خوراکوں کی حد جھینگا روز کھانے کے حساب سے ہے کبھی کبھار کے حساب سے نہیں۔ اس لیے اگر آپ جھینگا روز لینے کی بجائے ایک دن چھوڑ کر یا پھر ہر ہفتے میں فقط ایک سے دو بار لیتے ہیں تو پھر تو اس کے کولیسٹرول اور پیورین کے لیول کو بالکل ہی بھول جائیں۔
مرکری لیول
امریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) اور امریکن انوائرومنٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) کے مطابق جھینگے میں 0.09 پی پی ایم مرکری ہوتا ہے، جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے جھینگے بلا جھجھک روز کھائے جا سکتے ہیں۔