The news is by your side.

اسلامی معاشرے میں برکت کا تصور

مسلمانوں کو آپس میں باہمی روابط بڑھانے اور تعلقات قائم کرنے کے لیے دینی تعلیمات میں جو بہترین دعائیہ کلمہ سکھایا گیا ہے، وہ ہے السلامُ علیکم. یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملاقات کرے توسب سے پہلے سلام کرے. اس کا مفہوم خیر و برکت اور بھلائی و سلامتی ہے. اس کے علاوہ ہم اکثر بڑے بزرگوں کو کسی موقع پر یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ اللہ برکت دے.یہ بھی خیرو بھلائی چاہنے کے لیے ادا کیا جاتا ہے . یہ سلام کی طرح ہی مسلم معاشرے کا شعار اور ایک عام دعائیہ کلمہ ہے جو اکثر خوشی و شادمانی کے اظہارکے لیے ادا کیاجاتا ہے۔

برکت کی دعا یا اس کلمے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر نمازی دو رکعت کی نماز میں اسے کم از کم چار مرتبہ ادا کرتا ہے۔ ثنا پڑھتے ہوئے اور درود ابراہیمی میں مسلمان اسے دو مرتبہ کہتا ہے۔

مسلم معاشرت میں ایسے خوب صورت جملوں یا کلمات کی ادائیگی عام ہے. کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو مخاطب بارک اللہ، یا اللہ برکت دے کہہ کر ما فی الضمیربیان کردیتا ہے۔ کسی کام یابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئےبرکت کی دعا دی جاتی ہے، رزق میں برکت اور پہلی تنخواہ ملتی ہے تووالدین اور بڑے بوڑھے خاص طور اللہ برکت دے کہتے ہیں۔ الغرض مسلم معاشرے میں عموماً بہت سے دعائیہ کلمات کہے جاتے ہیں اور برکت کا کلمہ بھی بولا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج ہم سب یہ شکوہ کرتے ہیں کہ پہلے زمانے میں تھوڑے میں برکت ہوتی تھی، اب ہمارے ہاں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ حٰیرت انگیزطورپر یہ بات وہ لوگ بھی کہتےہیں جو بہت سے اسباب و وسائل اور مال و متاع بھی رکھتے ہیں مگراپنے کام اور مال میں وہ برکت نہیں پاتے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا برکت کوئی مرئی شے ہے یا ایسی چیز جو کسی شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہو اور جب دکھائی نہ دےتو ہم کہہ سکیں کہ برکت اٹھ گئی ہے؟

اہلِ علم کے نزدیک یہ قلب کے اس اطمینان کا نام ہے جو تھوڑے یا بہت میں بھی اگر موجود ہو تو انسان مسرت و راحت محسوس کرتا ہے. ذہن پر بوجھ نہیں رہتا اور اللہ کاشکر زبان پر جاری ہوجاتا ہے. دوسری صورت میں مسلسل اضطراب، بے چینی ، شکوے شکایات پید ہوجاتے ہیں. شاید اسی کو برکت سے محرومی کہنا چاہیے.مگر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس ضمن میں ایک سیدھی اور عام سی بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ ہماری زبان سے دعائیہ اور برکت کے کلمات تو ادا ہورہے ہیں، مگر دل اس کی عظمت اور حقیقت سے آگاہ نہیں ہے. کلمہ برکت ادا تو کیا جائے مگر اس دعا کے اثرات کیسے ظاہر ہوں کہ اس دعائیہ کلمے کے نہ معنی معلوم ہیں اور نہ مفہوم ذہن میں آتا ہے بلکہ اسے ہم صرف رسماً اور عادتاً ادا کررہے ہیں. سلام اور برکت کے الفاظ ایک قسم کی دعا ہیں‌اور دعا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور و احساس کے غلبہ اور قلب کی گہرائی سے کی جائے۔

قرآن و حدیث میں برکت کی دعا اور اس کے ثمرات اور زندگی پر اثرات کی کئی منازل ہمیں غور و فکرکی دعوت دیتی ہیں۔ علمائے کرام کے وعظ اور خطبات کے علاوہ کئی دینی کتب میں آیا ہے کہ برکت کے کلمات یہ واضح کرتے ہیں کہ برکت عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہستی ایسی نہیں ہے کہ برکت عطا کرے۔ اس لیے اس دعائیہ کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہی کرنی چاہیے اور اسی سے برکت طلب کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ دل جمعی اور یقین کے ساتھ دعا دینا اور اس کا مفہوم ذہن میں‌رکھنا بھی ضروری ہے. ہم جانتے ہیں کہ رمضان وہ مہینہ ہے جسےبہت خیر و برکت والا قرار دیا گیا ہے. اسی طرح حدیث میں‌بھی اس دعا کا ذکر بارہا ملتا ہے. مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہما کی کھجوروں کے کھلیان میں برکت کے لیے دعا کی تو ان میں اتنی برکت (خیروکثرت) آئی کہ اس سے ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھانے کے لیے اتنی بچ گئیں جتنی ہر سال بچتی تھیں جب کہ درخت وہی تھے اور پیداوار بھی ہرسال جتنی ہی تھی۔ایسے سیکڑوں واقعات مروی ہیں کہ ہمارےرسول نے کسی کے مال،جان، صحت اور اولاد کے لیے برکت کی دعا دی اور اس سے ان میں معنوی و حسی اورمادی برکات شامل ہوگئیں اور اشیاکی ظاہری و معنوی حیثیت بڑھ گئی۔ حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجارت میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے پہلے تو کامیابی ہوتی ہے لیکن پھر بے برکتی ہوجاتی ہے (صحیح مسلم‘ نسائی اور ابن ماجہ)۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں برکت کی دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔برکت کا کلمہ کوئی دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے دعا کر رہا ہو یا خود اپنے لیے ہر حالت میں دعا کے شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

آج عام تصور اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے اعمال اور اشیا سے برکت اٹھ گئی ہے اور بے برکتی ہورہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ برکت کا حقیقی تصور ہم سے اوجھل ہوگیا ہے اور یہ کلمہ صرف رسمی اور لفظی بول کے طور پر ہی بولا جاتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ اس کلمے کی روح معدوم و مفقود ہے۔یہ سمجھنا ہوگاکہ ہم جس کام کے لیے دعا کر رہے ہیں، جس مسلمان کے لیے دعا مانگ رہے ہیں اس میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔ ایسا نہ ہو تو دعا کے بے اثر ہونے کا احتمال رہتا ہے.

اگر ہم برکت کے اس تصور کو سامنے رکھیں اور یہ یقین ہو کہ برکت عطا کرنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے تو بلاشبہ اللہ کی جانب سے برکات کے نزول کو محسوس کیا جا سکے گا اورہر شے میں برکت ظاہر ہوگی.

عبدالرحمن
+ posts
شاید آپ یہ بھی پسند کریں