گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں بڑی پلاننگ کے ساتھ آگ اورخون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے جس میں طالبان اور مذہبی دہشت گرد تنظیمیں شریک عمل ہیں۔ وہ دن مجھے نہیں بھولتا جب 06جنوری 2014 کو ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والا اعتزاز حسین اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ اسکول جا رہا تھا کہ اسے راستے میں ایک اجنبی شخص اپنی اسکول کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا جو دہشتگرد تھا، اعتزاز نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے قابو کرلیا تھا اور اپنی قربانی دے کر 2014طالب علموں کی جان بچائی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں پشاورکا واقعہ سب سے بڑا واقعہ ہے لیکن ہم اگر ہنگو والے اسکول کا واقعہ کو اپنے لئے سبق بناتے تو ہمیں آج پشاور والا واقعہ نہ دیکھنا پڑتا۔
مجھے یہ بات کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ جب میرے شہر کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے بچوں کو نشانہ بنایاجاتا تھا تو اس وقت ان کیلئے سوائے سول سوسائٹی کے کسی نے بھی آواز بلند نہیں کی اوربلوچستان کے مسئلے پر بھی کسی نے کوئی داد رسی نہیں کی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں طالبان اور مذہبی دہشت گرد تنظیموں حمایتی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر طالبان یا ان تنظیموں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے تو شاید شریعت کا نفاذ ہو جائے اور امریکہ اور سامراجی طاقتوں سے نجات حاصل ہوسکے اورانہیں لگتا ہے کہ یہ اسلام کی خدمت ہے۔
جب پشاور اسکول کا واقعہ ہوا تو مجھے دیکھ کرلگا کہ اب شاید ہماری قوم ایک ہو چکی ہے میں نے ہرجگہ مذمت اور یکجہتی کا مظاہرہ دیکھالیکن افسوس وہاں ہوا جب میں نے مولانا عبدالعزیز جو لال مسجد کے مولوی ہیں انہوں نے اس کی مذمت نہیں کی تومیرا ذہن اس سوچ کی طرف مبذول ہوا جو میں سمجھتا تھا کہ طالبان کے حمایتی موجود ہیں تو بات کنفرم ہوگئی کہ یہی لوگ ہیں جو پاکستان میں شاید امن نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اگرہمیں اس وقت حقیقت میں ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھ کربلاتفریق انکوانصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا جس میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں سے لیکر طالبان اور جرائم پیشہ سب سے حساب لینا پڑے گا اوران کو سخت سزائیں دی جائیں جن معاشروں میں قانون کی بالادستی ہوتی ہے وہاں پربڑے سے بڑے دہشت گرد کو بھی صفائی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے میرے خیال میں لوگوں کو مارنا انسان نے اپنے بچاؤ کیلئے ایک آسان طریقہ ڈھونڈا ہے کیونکہ ہزاروں لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے انہیں قانونی سزا دینا بہت محنت طلب کام ہے لیکن ان کا محاصرہ کرکے انہیں قتل کرنا آسان۔
میرے خیال میں اگر ہم نیک نیتی کے سا تھ اس دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہوں تو اس سے چھٹکارا ممکن ہے ان سورتوں میں:
۔ سرکاری اداروں، حکومت ، عدلیہ، فوج اور ملک کے خفیہ اداروں میں جہاں جہاں بھی طالبان اور دہشتگردوں کے مخبر، ان کے ہمدرد اور ان کے حمایتی موجود ہیں انکو ناقابل ضمانت وارنٹ پر پکڑا جائے اور ان کے اوپر غداری کے مقدمات چلائیں جائیں۔ جب تک ہمارے اداروں میں یہ دہشت گرد موجود رہیں گے تب تک ان کے خلاف ایمانداری اور نیک نیتی سے کاروائی کرنا ممکن نہیں کیونکہ کے یہ حمایتی اصل دہشتگردوں کو بچانے کے راستے دھونڈنتے رہیں گے۔
ہمیں اپنے نصاب تعلیم میں اور مدارس کے نصاب کی چھانٹی کرنا ہوگی جن میں ہمیں نفرتوں کی بجائے اپنے بچوں کو یہ سمجھانا ہو گا کے یہ دنیا سب کی ہے ہر کسی کو اپنی مرضی سے سوچنے کا، جینے کا اور سارے انسانوں اور مذاہب کے حقوق برابر ہیں کوئی انسان اپنے مذہب ، نسل یا رنگ کے باعث دوسروں سے افضل نہیں۔
لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہو سکے گی جب ہماری فوج اور حکومت ایمانداری کے ساتھ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ
چاہے۔ اس سے قبل کئے گئے آپریشنز سے پہلے ہی تقریبا سارے طالبان اوردہشتگرد فرارہو گئے یا پھرانہوں نے اپنے ٹھکانے تبدیل کردئیے جن کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں ابھی ہماری حکومت کو سنجیدگی دکھانی پڑے گی نہیں تو یہ وقت گزر جائے گااور ہم سب کا بہت نقصان ہوگا جس طرح ہم نے اعتزاز حسین کی قربانی کے بعد بھی کچھ نہیں سکیھا تھا۔