The news is by your side.

تحریکِ انصاف کی حکومت کی پہلی مشکل

پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہے اور تحریک انصاف سب سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی ہے ، پھر بھی ان کی حاصل کردہ نشستیں اتنی نہیں کہ وہ تنہا حکومنت تشکیل دے سکیں ، حکومت سازی کے پہلے مرحلے میں جب وزیراعظم کا انتخاب شروع ہو گا تو حلف اٹھانے کے لیے عمران خان صاحب کو 172 نشستوں کی ضرورت ہے، مطلوبہ تعداد نہ ملنے پر سپیکر قومی اسمبلی دوبارہ وزیراعظم کا انتخاب آئین کے آرٹیکل 91/4 کے تحت کرائیں گے اور اکثریت حاصل کرنے والی جماعت اپنا وزیراعظم نامزد کردے گی۔ صورتحال اس وقت یہ ہے کہ تقریبا 60 نشستوں پر ضمنی انتحابات ہونے باقی ہیں، الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے۔

تحریک انصاف ۔ 116
مسلم لیگ ن ۔ 64
پیپلز پارٹی ۔ 43
آزاد ۔ 13
متحدہ مجلس عمل ۔ 12
ایم کیو ایم پاکستان ۔ 6
ق لیگ ۔ 4
بلوچستان عوامی پارٹی ۔ 4

تحریک انصاف کے لیے ایک امتحان یہ بھی ہے کہ ان کی جیتی ہوئی 116 نشستوں میں سے 8 ووٹ مزید کم ہو جائیں گی کیوں کہ ان کے کئی ارکان 2 یا اس سے زائد نشستوں پر بیک وقت جیت چکے ہیں۔ اور وزیراعظم کے انتخاب کے مرحلے پر ان ارکان کا صرف ایک ایک ووٹ گنا جائے گا۔ اگر 13 آزاد امیدواروں میں سے 10 تحریک انصاف کو ووٹ دیں، مسلم لیگ ق کے 4 ایم این اے بھی عمران خان کو ووٹ دے دیں اور جام کمال کی بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ووٹ، شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کا اکلوتا ووٹ، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے دو ووٹ اور بلوچستان کی جمہوری وطن پارٹی کا بھی ایک رکن عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے ووٹ کاسٹ کر دے تو تحریک انصاف کی حمایت 139 تک تو چلی جائے گی ہے لیکن 172 کی مطلوبہ اکثریت کو نہیں پہنچتی۔اور خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی حمایت کے بعد بھی ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے

ایم کیو ایم فی الحال تو کہہ رہی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی مگر ان کا ماضی بتاتا ہے کہ یہ پارٹی پارلیمانی سیاست میں عموما سرپرائز دینے کی عادی ہےاگر آپ میرا اشارہ سمجھ ہی گئے ہیں تو بھی مسئلہ ہنوز برقرار ہے کہ ایم کیو ایم کی حمایت کے باوجود بھی عمران خان سادہ اکثریت کے حصول میں کامیاب نہیں ہوں گے۔،

تو پھر اس کا حل کیا ہے؟

بتا تو دیتا ہوں لیکن وعدہ کیجئے کہ آپ مسکرائیں گے نہیں۔ اس مسئلے کا حل پیپلز پارٹی کے جیالوں کی نظر میں ’سب سے بھاری، ایک زرداریکی جیب میں پڑا ہوا ہے۔ جو پچھلے کچھ دن سے منظر عام سے غائب ہیں۔ آپ کے خیال میں بھلا کیا کررہے ہوں گے؟ ارے آپ پھر مسکرا دیئے؟۔

زمینی حقائق اس وقت جناب عمران خان کو پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملانے کی جانب مجبور کررہے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر 172 سیٹوں کا حصول ناممکن ہو گا اور حکومت سازی کے پہلے مرحلے میں ہی تحریک انصاف مشکلات کا شکار ہوجائے گی اور پھر قومی اسمبلی کے سپیکر دوبارہ آرٹیکل 91/4 کے تحت وزیراعظم کا انتخاب دوبارہ کرانے پر مجبور ہوں گے۔ عمران خان واضع کرچکے ہیں کہ اگر نون لیگ یا پی پی سے ہاتھ ملانا پڑا تو اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کروں گا، ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان آصف زرداری سے ہاتھ ملالیں گے؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں