آج میں آپ کو سیرکرارہا ہوں گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کے 800 سال قدیم بلتت فورٹ کی، بلتت لفظ بلتی سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے اس طرف جبکہ قلعہ بلتت سے کچھ ہی فاصلے پر التت فورٹ قائم ہے ، التت لفظ اخذ کیا گیا ہے التی سے جسکا مطلب ہے اس طرف ،مطلب ماضی میں ان قلعوں کو اس طرف کا قلعہ اور اس طرف کا قلعہ کہہ کہ پکارا جاتا تھا اور یہی نام آج بھی ان کی پہچان ہیں۔
کریم آباد کے مشہور بازار سے پہاڑی کی جانب سفر کرتے ہوئے آپ بلتت فورٹ تک پہنچ سکتے ہیں ،یہ ایک بہت ہی قدیم اور مسحورکن بازار ہے آپ کو یہاں سے کئی مقامی و روایتی ملبوسات، گھریلو استعمال کی اشیا ، شالز، مقامی جڑی بوٹیاں اور خشک میوہ جات آسانی سے مل جاتے ہیں۔ کریم آباد بازار سے فورٹ تک راستہ ایک تھکا دینے والا ٹریک ہے، اگر آپ کے گوڈے گٹے اجازت دیں تو پیدل قلعے کی طرف جائیں اگر نہیں تو آپ کو قلعے تک لے جانے کیلئے جیپ بھی بآسانی دستیاب ہوتی ہے لیکن میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ پیدل قلعے تک جائیں اور اس قدیم بازار کی پرانی دکانوں سے خریداری بھی ضرور کریں۔
کورونا کی وبا پھوٹنے سے قبل اس بازار میں چین سے لائی گئی متعدد ضروری استعمال کی اشیا اچھے داموں دستیاب ہوتی تھیں لیکن بارڈر پر آمدورفت بند ہونے کی وجہ سے اب چینی ساختہ سامان اس بازار میں دستیاب نہیں۔ راستے میں آپ کو دو یا تین مقامات پر ہنزہ کے روایتی کھانوں کے چھوٹے چھوٹے ریسٹورانٹ بھی ملیں گے۔ یہاں رک کر آپ مقامی پیزہ چھپ شورو جس یاک یا پہاڑی بکرے کے قیمے سے تیار کیا جاتا ہے لازمی کھائیں اس کے بعد آپ کو برگر ،شوارمے وغیرہ گھاس پھونس لگیں گے، چھپ شورو ہنزہ کی بہت ہی لذیز غذا ہے، دیکھنے میں یہ پنجاب کے المعروف قیمے والے نان جیسا ہی لیکن ذائقے میں اس کو قیمے والا نان مات نہیں دے سکتا ، ٹریک چڑھتے ہوئے اگر تھک جائیں تو راستے میں جوس باکس سے تازہ خوبانی کا جوس پئیں یہ سیکنڈوں میں آپ کی انرجی بحال کردے گا یہ بھی ایک لاجواب ذائقہ ہے جو آپ کو صرف ہنزہ میں ہی ملے گا
التت فورٹ کی تاریخ 1100 سال پرانی ہے جبکہ بلتت فورٹ 800 سال قبل تعمیر کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 400 سال قبل مسیح تبت سے آئے لوگوں جنہیں ہنزو کہا جاتا تھا نے اس علاقے میں آکر آبادکاری کی اور انہی کے حکمرانوں کے لئے یہ دو قلعے تعمیر کئے گئے ۔ یہ علاقہ کوہ ہندوکش پر ہونے کی وجہ سے دنیا کے چارانتہائی خطرناک علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اسلئے دونوں قلعوں کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اونچائی پر ہونے کے باوجود یہ 8.5 شدت کا زلزلہ بھی سہنے کی طاقت رکھتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ان صدیوں میں آنے والے ہولناک زلزلے بھی ان دو قلعوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ دونوں قلعوں میں باغیوں اور قیدیوں کیلئے قیدخانہ اور نگرانی کیلئے واچ ٹاورز بھی بنائے گئے ہیں۔ ان قلعوں سے نیچے گراکر اس باغی قیدیوں کو سزائے موت دیئے جانے کا رواج تھا۔ دونوں قلعوں میں پتھروں کو تراش بنائے گئے قریب تین صدیاں قدیم برتن بھی موجود ہیں جو حیران کن طور پر آج بھی قابل استعمال حالت میں ہیں۔
دونوں قلعوں کی خوبصورت بات یہ ہے کہ ان قلعوں کی دہلیز پر کھڑے ہو کر آپ راکاپوشی، ہنزہ پیک، پاسو کونز، ڈویکر گائوں اور لیڈی فنگر پیک کا نظارہ بآسانی کرسکتے ہیں ۔