The news is by your side.

امریکہ اور چین – ایک نئی سرد جنگ

نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے چلنے والی آبدوزیں سمندروں میں اپنی حاکمیت جمانے کے لیے انتہائی کارآمد اثاثہ ہیں۔ یہ نہایت خفیہ ٹیکنالوجی ہے۔برطانیہ یورپ میں امریکہ کا سب سے اہم اتحادی ہے اور امریکہ نے اب تک صرف برطانیہ کو ہی سرد جنگ کے آغاز میں یہ راز فراہم کیے تھے جو آج سے تقریباً چھ دہائیاں پرانی بات ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ صرف چار اور ممالک موجودہ دور میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے چلنے والی آبدوزیں رکھتے ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد جب امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نیٹو تشکیل دیا۔

تاریخ اکثر خود کو دہراتی رہتی ہے۔ کچھ دن پہلے پندرہ ستمبر کو امریکہ نے ایک نیا ملٹری معاہدہ کیا ہے۔ اس بار یہ ٹیکنالوجی امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو دے رہے ہیں۔ تین ملکی اتحاد ‘اوکس’ کہلایا ہے۔ یہ تینون ممالک ‘بگ فائیو’ کا حصہ ہیں۔

امریکہ اور چین - ایک نئی سرد جنگ

ہوا یوں کہ 2016 میں ‘بگ فائیو’ ہی میں سے ایک اور ملک فرانس نے آسٹریلیا کے ساتھ لگ بھگ پینسٹھ ارب ڈالر کا آبدوزوں کی خرید کا معاہدہ کیا تھا، لیکن وہ قدرے دیر سے تعمیل کو پہنچنا تھا۔ مزید یہ بھی مسئلہ تھا کہ وہ ڈیزل سے چلنے والی آبدوزیں تھیں جنہیں چوبیس گھنٹوں میں ایک بار پانی کی سطح پر آنا ضروری ہوتا ہے جبکہ نیوکلیئر انرجی سے چلنے والی آبدوزیں کئی کئی مہینے تک پانی کے اندر رہ سکتی ہیں جو ان کی حرکت کو دوسروں کی نظروں سے اوجھل رکھنے میں مدد گار ہے۔

چین نے جس تیزی سی اڑان پکڑی ہے، امریکہ کے لیے مزید صبر کرنا دشوار تھا۔ چنانچہ امریکہ نے ایک سہ ملکی نیا اتحاد شروع کیا ہے جس کا مقصد کاغذوں میں تو امن اور سکیورٹی کی بالادستی اور انڈو پیسفک ریجن کو تجارت کے لئے کھلا رکھنا ہے لیکن اس کی کڑیاں سرد جنگ کی کنٹینمنٹ پالیسی سے ملتی ہیں۔ جس طرح امریکہ نے سوویت یونین کو کنٹین یعنی محدود کیا، اسی طرح اب چین نشانے پر ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر مرتبہ جب ایک مسلمہ طاقت قائم ہوتی ہے اور دوسری ابھر رہی ہوتی ہے تو ان میں ٹکراؤ ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس تھیوری کو ‘تھوسی دیدس ٹریپ’ کہا جاتا ہے۔ تھوسی دیدس یونان کے ایک مورخ اور جرنیل تھے جنہوں نے جنگِ پیلوپونیشیہ کی تاریخ لکھی۔

اس جنگ میں دو فریق تھے، سپارٹا ایک مسلمہ طاقت تھی اور ایتھنز ایک ابھرتی ہوئی شہری ریاست۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ جنگ اس لیے ہوئی کہ ایتھنز عروج پا رہا تھا اور سپارٹا کو ایتھنز کی بڑھتی طاقت سے خطرہ محسوس ہونے لگ گیا تھا۔

گراہم ایلیسن نے ہارورڈ یونیورسٹی کے بیلفور سنٹر میں اسی تھیوری پر ریسرچ کرنے کے لیے آخری پانچ سو سالہ تاریخ کے ایسے ہی سولہ واقعات کو باریک بینی سے پرکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان میں سے بارہ خونی جنگ پر ختم ہوئے۔ سرد جنگ کو ان چار واقعات میں رکھا گیا ہے جب معاملہ خون ریز جنگ کے بغیر ختم ہو گیا۔ گو کہ سرد جنگ میں امریکہ اور سوویت کبھی یک مشت آمنے سامنے نہیں آئے لیکن پراکسی جنگوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ کوریہ میں جنگ ختم ہوئی تو ویتنام وار شروع ہو گئی۔

وہ ختم ہوئی تو افغانستان کا قصہ شروع۔ اس سب کے بیچ ایک موڑ ایسا بھی آیا کہ سرد جنگ دنیا کو نیوکلیئر ونٹر میں بدل سکتی تھی۔ کیوبن میزائل کرائسس کے دوران ذرا سی نوک جھوک بڑھ جاتی تو سرد جنگ نیوکلیئر وار کی شکل اختیار کر جاتی۔

اب جبکہ آبدوزوں کو چلانے کے لیے امریکی نیوکلیئر ٹیکنالوجی آسٹریلیا کو دی جائے گی تو اسی سمے چین کا ردِ عمل کابل غور ہے جو باضابط طور پر اسے سرد جنگ کی ذہنیت کا نام دے رہا ہے۔

خطے میں موجود دیگر ممالک بشمول ملیشیا، انڈونیشیا اور سنگاپور نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ شمالی کوریا کو یہ تشویش ہے کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی آسٹریلیا کے پاس بھی نہ پہنچ جائے۔ اسے جواز بنا کر شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر پروگرام کو مزید توسیع دے گا۔

امریکہ اور چین - ایک نئی سرد جنگ

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس وقت آسٹریلیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چین ہے۔ اس معاہدے سے آسٹریلیا شاید نئی سرد جنگ میں اپنی جانبداری کی وضاحت کھل کے کر رہا ہے۔ ‘کواڈ’ کے بعد اب ‘اوکس’ چین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ ایک نئی سرد جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن اوکس کسی اور جانب اشارہ کر رہا ہے۔

اگرچہ آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن نے عندیہ دیا یے کہ وہ نیوکلیئر پاور بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اور یہ درست بھی ہے کیونکہ آسٹریلیا نے ایسے معاہدے کر رکھے ہیں جو اسے نیوکلیئر طاقت بننے سے روکتے ہیں۔ مگر جنگ اور محبت میں سب جائز ہو جاتا ہے۔

دوسری سرد جنگ شروع ہونے کو ہے۔ کیا آسٹریلیا ایک کلائنٹ سٹیٹ بننے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اگر نیوکلئیر ہتھیاروں کی ریس ایک مرتبہ پھر شروع ہو گئی تو یہ دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔

Print Friendly, PDF & Email