The news is by your side.

خیبر پختون خوا اور خواتین کا عالمی دن

ہر سال 8 مارچ کو دنیا خواتین کا عالمی دن مناتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس دن کی مناسبت سے حکومتی سطح پر اور حقوقِ نسواں کی علم بردار تنظیموں‌ کے تحت مختلف سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں‌ پچھلے چند سال کے دوران جہاں عورتوں‌ کے حقوق اور ہر شعبہ ہائے حیات میں‌ ان کی شمولیت یقینی بنانے ، اس ضمن میں اقدامات اور قوانین کےنفاذ کی بات کی جارہی ہے، وہیں مختلف شہروں‌ میں‌ نکنے والی ریلیوں اور عورت مارچ نے تنازع اور نئے مباحث کو بھی جنم دیا ہے۔

2018 میں کراچی میں عورت مارچ میں خواتین شرکا نے یکساں حقوق اوراجرت ، دفاتر میں ہراسانی اور گھروں میں تشدد کو روکنے کے لیے قانون سازی، اور اسی قسم کے دیگر مطالبات کے ساتھ مخصوص ذہنیت اور اپنے ساتھ امتیازی سلوک کی پُرزور مذمت کی تھی۔ یہ مارچ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور پھرسال 2019 میں عورت مارچ میں پلے کارڈوں اور بینروں پر جو نعرے درج تھے ان پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے حق میں اور اس کی مخالفت میں ٹرینڈ شروع ہوگئے اور ٹاک شوز میں اس پر گرما گرم بحث چھڑ گئی۔ اس عورت مارچ نے معاشرے کے مختلف طبقات کی رائے کو تقسیم کر دیا۔ خواتین نے عورت مارچ کو سپورٹ توکیا، لیکن بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو پلے کارڈ اور بینروں پر درج نعروں اور مختلف عبارتوں سے متفق نہیں‌ تھی۔

وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے وزیرِ اعظم کو اس سال عورت مارچ پر پابندی کا مشورہ دیا تھا۔ عورت مارچ کے منتظمین نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرنے کے لیے اجازت طلب کی تھی، لیکن ان کی درخواست پر اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

پچھلے سال بھی عورت مارچ مختلف فورموں پر زیر بحث رہا اور مختلف نسلی اور لسانی گروہوں اور ثقافت کے حامل اس ملک میں جہاں‌ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ عورتوں کے ساتھ ناانصافی، ظلم اور استحصال کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کے حقوق کی بات کی جاتی ہے، وہیں اکثریت اپنی اقدار اور ثقافت کو بھی اہم خیال کرتی ہے۔ اگر ہم ان علاقوں کی بات کریں جہاں‌ اکثریت اپنی مذہبی شناخت، روایات اور اقدار کو اہمیت دیتی ہے اور جہاں قبائلی نظام یا ایسا معاشرہ ہے جس میں مرد کو حاکم و مختار مانا جاتا ہے تو ہم دیکھیں‌ گے کہ وہاں‌ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور اس جیسے دیگر شہروں کی نسبت عورتوں کو سماجی اعتبار سے کئی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور وہ بھی اپنی تعلیم و صحّت اور خودمختاری کے لیے آواز اٹھاتی ہیں، لیکن یومِ‌ خواتین پر عورت مارچ یا کسی بھی احتجاجی مظاہرے اور تحریک پر ان کی رائے مختلف ہوسکتی ہے۔

سارہ علی خان جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور پشاور ہائیکورٹ میں پریکٹس کررہی ہیں، انھوں نے بتایا کہ بطور وکیل وہ خواتین کے حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھا رہی ہیں، لڑکیوں کی کم عمری میں‌ اور مرضی کے خلاف شادی، ونی، غگ جیسی فردسودہ روایات کے خلاف ہیں، اگر عورت مارچ اور ایسی کسی بھی تحریک میں اس طرف توجہ دلائی جائے اور حقوق کی بات کی جائے تو اسے ہم ضرور سپورٹ کریں‌ گے۔ سارہ کا کہنا تھا کہ جو کچھ گزشتہ چند سال میں‌ عورت مارچ کے نام پر ہم نے دیکھا ہے، ہم اس کی حمایت نہیں‌ کرسکتے، اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دیا، ماں، بہن، بیوی اور بیٹی جیسے رشتوں کے ذریعے اسلام نے عورت کو خاص مقام اور عزّت دی ہے، مردوں کے ساتھ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے، ہمارا دین لڑکی کی شادی پر اس کی مرضی پوچھنے کو کہتا ہے، معاشرے میں اگر خواتین کو حقوق نہیں مل رہے تو ہمیں اس کے لیے ضرور آواز اٹھانا چاہیے۔

سارہ علی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں خواتین تعلیم کے لیے مشکلات جھیلتی ہیں، اس کے لیے آواز اٹھانا چاہیے تاکہ عورتوں کو تعلیم یافتہ بنایا جاسکے، ایسی خواتین ہی معاشرے کو بہتر بناسکتی ہیں اور ہم حقوق کے لیے کیے گئے ایسے کسی مارچ اور احتجاجی مظاہرے کے خلاف نہیں ہیں۔

پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی میں بی ایس ریڈیالوجی کی طالبہ حرا ثابت اللہ نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عورتوں کے حقوق کا کوئی دن مخصوص نہیں بلکہ ہر دن مقصد اور حقوق کی جدوجہد کا دن ہونا چاہیے، خواتین کے حقوق کے لیے احتجاج ہونا چاہیے، لیکن یہ ایسا نہ ہو کہ معاشرے میں عورت کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے۔ حرا ثابت اللہ نے کہا کہ عورت مارچ میں پلے کارڈز اور بینرپر درج نعرے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ عورت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

حرا نے کہا کہ اسلام نے عورت کو جو مقام و مرتبہ اور حق دیا ہے، اگر معاشرہ اس کا خیال رکھے اور وہ حقوق عورت کو دے تو پھر کسی مارچ کی اور احتجاج کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ اسلام میں عورت کو وراثت میں حصہ دینے کا حکم ہے، اب اگر معاشرہ میں ان سے یہ حق چھینا جارہا ہے تو ہمیں اس کے لیے آواز اٹھانا چاہیے، دفاتر، کالجوں، یونیورسٹیوں میں اگر طالبات کو ہراسانی کا سامنا ہے تو اس کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھانا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے عورت مارچ میں ان ایشوز کے بجائے من چاہے مطالبات کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورتوں کی بڑی تعداد اسے سپورٹ نہیں کرتی۔

حکومت کی طرف سے عورت مارچ پر پابندی لگانے یا مظاہروں کی اجازت نہ دینے سے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے سارہ علی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر یہ مارچ خواتین کے حقوق کے لیے ہوں تو ان پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، آئینِ پاکستان ہر شہری کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے، لیکن اس حوالے سے کسی سرگرمی سے منفی اثر ہو رہا ہو اور معاشرتی سطح پر کسی بڑے طبقے میں بے چینی، اشتعال پھیلے، یا وہ مخصوص اقدار اور روایات کے برخلاف ہونے کے سبب بدمزگی اور انتشار پیدا کرے تو انتظامیہ اجازت دینے یا نہ دینے کا حق رکھتی ہے۔