The news is by your side.

سمندر کی چار زہریلی ترین مچھلیاں

بچپن سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہماری زمین کا تین فی صد حصہ پانی اور صرف ایک فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔ امریکی سرکاری ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق زمین کا 71 فی صد حصہ پانی اور 29 فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔ لیکن ہماری یہ معلومات عام طور سے یہیں تک محدود ہوتی ہے۔

امریکی سائنسی ایجنسی یو ایس جیولوجیکل سروے (USGS) کے مطابق زمین کے 71 فی صد پانی میں سے 97 فی صد کھارے پانی یعنی کہ سمندری پانی اور صرف 3 فی صد میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی 68 فی صد سے زیادہ برف اور گلیشیئرز میں بند ہے، جب کہ مزید 30 فی صد میٹھا پانی زمین میں ہے۔ سطح کے تازہ پانی کے ذرائع جیسا کہ دریا اور جھیلیں صرف 22,300 کیوبک میل (93,100 مکعب کلومیٹر) پر مشتمل ہیں، جو کہ کُل پانی کے ایک فی صد کا تقریباً 1/150 واں حصہ ہے۔ اس طرح تمام میٹھے پانی کا صرف 1.2 فی صد سے تھوڑا زیادہ سطح کا حصہ ہمیں میسر ہے، جو ہماری زندگی کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بھی سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔

نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق 91 فی صد سمندری انواع کی درجہ بندی ابھی ہونا باقی ہے اور یہ کہ سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ بغیر نقشے کے، غیر مشاہدہ شدہ اور غیر دریافت شدہ ہے۔ بیلجیم کے ادارے ورلڈ رجسٹر آف میرین اسپیسیز (WoRMS) کے مطابق اب تک تقریباً 242,500 سمندری انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس رجسٹر میں ان ناموں کا یہ اندراج دنیا بھر سے سائنس دانوں نے کیا ہے اور ہر سال تقریباً دو ہزار نئی سمندری انواع کا اندارج اس رجسٹر میں ہوتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کرنے کے باوجود آخر اب تک سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ غیر دریافت شدہ کیوں ہے؟

اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر بحریات ڈاکٹر جین کارل فیلڈمین سمندروں کے تحفظ کی سب بڑی بین الاقوامی تنظیم اوشیانا کو بتاتے ہیں: ’’سمندر کی گہرائیوں میں پانی کا شدید دباؤ اور سرد درجہ حرارت تلاش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘ فیلڈ مین نے اوشیانا کو مزید بتایا کہ سمندر کی تہہ تک جانے کے مقابلے میں خلا میں جانا بہت آسان ہے۔ سمندر کی سطح پر انسانی جسم پر ہوا کا دباؤ تقریباً 15 پاؤنڈ فی مربع انچ ہے اور خلا میں زمین کے ماحول کے اوپر دباؤ کم ہو کر صفر ہو جاتا ہے، جب کہ غوطہ خوری کرنے یا پانی کے اندر موجود گاڑی میں سواری کر کے گہرائیوں میں جانے پر دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

انھوں نے اب تک سمندر کی سب سے گہری دریافت شدہ جگہ ماریا گھاٹی (Mariana Trench) کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ماریانا گھاٹی کے نیچے غوطہ لگانے پر، جو تقریباً 7 میل (11.265 کلو میڑ) گہری ہے، سطح کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ دباؤ محسوس ہوتا ہے، یہ دباؤ انسانی جسم پر 50 جمبو جیٹ رکھے جانے کے وزن کے برابر ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں شدید دباؤ، سرد درجہ حرارت اور مکمل اندھیرا، ان چیلنجوں سے ماہرین بحریات کتنی جلدی نمٹ کر سمندروں کو دریافت کر پاتے ہیں اور ان میں کن کن اقسام کی انواع دریافت ہوتی ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ذیل میں سمندروں میں اب تک دریافت شدہ 4 سب سے زہریلی مچھلیوں کی تفصیل دی جا رہی ہے، یہ چاروں پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان میں سے تین انسانی اموات کا سبب بنتی ہیں۔

لیکن ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ انگریزی میں زہر کے لیے دو الفاظ Poison اور Venom کیوں استعمال ہوتے ہیں۔

وینم اور پوائزن میں فرق:

اس کی سیدھی سی تعریف تو یہ ہے کہ جو آپ کو کھاتا ہے وہ وینم ہے اور جسے آپ کھاتے ہیں وہ پوائزن ہے۔ مثال کے طور پر کوئی زہریلی مکڑی یا جانور ڈنک مار کر اور سانپ ڈس کر آپ کو زہر دیتا ہے، تو یہ زہر وینم کہلائے گا۔ اور جب آپ کوئی زہریلا کھانا کھاتے ہیں یا کوئی زہریلی چیز سونگھتے ہیں یا پھر کوئی زہریلا مادہ یا مائع آپ کے جلد میں جذب ہو کر آپ کو زہر دیتا ہے، تو یہ زہر پوائزن کہلائے گا۔

اسٹون فش

اسٹون فش (Stonefish) ایک وینمس مچھلی ہے، اور مچھلیوں کی دنیا میں Venomous مچھلیوں میں اسٹون فش سب سے زیادہ وینمس مانی جاتی ہے۔ این او اے اے کے مطابق اسٹون فش بحیرہ احمر (Red sea) اور خلیج عرب سے لے کر آسٹریلیا اور بحرالکاہل کے جزیروں، اور بحر ہند کے ساحلی علاقوں میں رہتی ہے۔ اس کا نام اس کی ظاہری شکل پر رکھا گیا ہے جو اسے ارد گرد کے ماحول میں ضم ہونے میں مدد کرتی ہے۔ یہ اپنے آس پاس کے ماحول میں خود کو ایسا کیموفلاج کرتی ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ یہاں جو پتھر پڑا ہوا ہے یہ مچھلی بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے جسم عام طور پر نارنجی، پیلے یا سرخ دھبوں کے ساتھ بھورے ہوتے ہیں۔ لمبائی 12 انچ تک اور وزن کلو سے ڈیڑھ کلو تک ہوتا ہے۔ ان کی کمر میں ریڑھ کی 13 نوکیلی ہڈیاں ہوتی ہیں جو دباؤ پڑنے پر زہر چھوڑتی ہیں۔ مناسب جوتوں کا بندوست نہ کر کے سمندر میں جانے والے یا پھر ننگے پاؤں لوگ بے دھیانی میں اس پر پیر رکھ کر اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی شاخ نیشنل لیبارٹری آف میڈیسن کے مطابق یہ مرجان کی چٹانوں (Coral reefs)، پتھریلے علاقوں یا اس کے قریب یا آس پاس، ریت اور کیچڑ میں اور اتھلے پانیوں میں رہتی ہے۔انسانی قدم پڑنے پر یا بدن کے کسی اور حصے سے اس پر دباؤ پڑنے پر ’ویروکوٹوکسن‘ (Verrucotoxin) نامی زہر ڈنک کے ذریعے متاثرہ جگہ میں داخل ہو جاتا ہے جو دو منٹ کے اندر اندر پورے ہاتھ یا پیر میں پھیل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی متاثرہ فرد شدید درد محسوس کرنے لگتا ہے اور جلدی طبی مدد نہ ملنے پر یہ زہر سانس کی کمزوری، قلبی نظام کو نقصان، دورے اور فالج کا باعث بنتا ہے اور اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ مچھلی اپنے زہر کو شکار کرنے یا جارحانہ عزائم کی بہ جائے دفاع کے لیے استعمال کرتی ہے۔

اسٹون فش کی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں، کیکڑے اور جھینگے شامل ہیں۔ فطری طور پر یہ ایک سست مچھلی ہے اور ایک جگہ بے حس و حرکت پڑی رہتی ہے یا پھر ریت میں دبی ہوئی ہوتی ہے اور شکار جیسے ہی اس کے قریب آتا ہے یہ نہایت ہی سرعت سے 0.015 سیکنڈ میں لپک کر اسے پورا نگل لیتی ہے۔ یہ پانی سے نکلنے کے بعد چوبیس گھنٹوں تک زندہ رہ کر ڈنک مار سکتی ہے۔

وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان اور بھارت میں زیادہ تر اس کی کالے پروں والی نسل پائی جاتی ہے جسے Blackfin Stonefish کہا جاتا ہے۔ بلیک فن شمالی بحر ہند اور بحیرہ عرب میں پائی جاتی ہے، لیکن اس کے علاوہ یہ اور کہاں کہاں پائی جاتی ہے، اس کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اسٹون فش کی 5 اقسام ہوتی ہیں اور اس کی عمر پانچ سے دس سال ہوتی ہے۔ ایشیا کے کچھ ممالک جیسے چین، جاپان اور ہانگ کانگ میں یہ کھائی بھی جاتی ہے، اس کے زہریلے کانٹے ہٹا کر اسے ابال کر یا پھر کچا کھایا جاتا ہے۔

پفر فش

پفر فش (Pufferfish) زیادہ تر بحر اوقیانوس، بحر الکاہل، اور بحر ہند کے پانیوں میں پائی جاتی ہے اور اس کی دنیا بھر میں 120 سے زائد اقسام ہیں، جب کہ ان کی کچھ نسلیں میٹھے پانیوں میں بھی پائی جاتی ہیں اور اسے ایکوریم میں بھی پالا جاتا ہے۔ یہ تقریباً دس سال تک جیتی ہے۔

اس کا نام Puff سے نکلا ہے جس کے معنی ’پھولنا‘ کے ہیں۔ یہ سست رفتار سے تیرتی ہے اس لیے حملہ ہونے پر تیزی سے بھاگنے کی بہ جائے اپنے اندر ہوا یا پھر پانی بھر کر گیند کی طرح پھولتے ہوئے اپنے سائز سے کئی گنا بڑی لگنے لگتی ہے تاکہ شکاری اسے نگل نہ سکے۔ پاکستان میں اسے ’گدھا‘ اور ’ٹورو‘ مچھلی کہا جاتا ہے اور یہ اکثر کیماڑی اور چرنا آئی لینڈ کے اطراف کانٹوں میں ملتی ہے۔

امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق پفر فش میں ٹیٹرڈوٹاکسن (Tetrodotoxin) نامی زہر ہوتا ہے جو مہلک ہوتا ہے اور اب تک اس کا تریاق بھی نہیں بنا ہے۔ ٹیٹروڈوٹاکسن سوڈیم چینلز کو مسدود کرکے کام کرتا ہے، جس کے نتیجے میں متاثرہ افراد میں معدے، اعصابی اور قلبی علامات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے زہر کے واقعات بہت کم ہیں لیکن یہ ان ممالک میں زیادہ ہیں جہاں لوگ پفر فش باقاعدگی سے کھاتے ہیں، جیسا کہ جاپان، تائیوان اور کچھ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک۔ 2002 سے 2006 تک 223 جاپانی مریض ٹیٹروڈوٹاکسن زہر کا شکار ہوئے، اور ان میں سے 13 مریضوں کی موت ہو گئی۔ 2001 سے 2006 تک سنگاپور میں 53 مریضوں میں ٹیٹروڈوٹاکسن زہر کی تشخیص ہوئی، اور ان میں سے 8 مریضوں کی موت ہو گئی۔ 2008 میں مچھلی کی منڈیوں میں سستی پفر فش فروخت ہونے کی وجہ سے بنگلا دیش میں تین وبائیں پھیلیں، جس سے 141 افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 17 سانس بند ہونے سے مر گئے۔ مختلف ادوار میں پفر فش سے کئی افراد مارے جا چکے ہیں، لیکن اس میں اس مچھلی کا کوئی قصور نہیں کیوں کہ یہ مچھلی اسٹون فش کے برعکس وینمس نہیں بلکہ پوائزنس (Poisonous) ہے۔ اور ہلاکتیں انسانوں کے اپنے ہاتھوں اسے کھا کر ہی ہوتی ہیں۔

مچھلیوں کی دنیا میں پوائزنس مچھلیوں میں سب سے زیادہ زہریلی ہونے کے باوجود بھی اسے کچھ ممالک میں بہت شوق سے کھایا جاتا ہے، جن میں جاپان، چین، کوریا، تائیوان اور امریکا سرفہرست ہیں۔ نیشنل جیو گرافک کے مطابق سب سے زیادہ اسے جاپان میں کھایا جاتا ہے جہاں اس کی ڈش کو Fugu کہا جاتا ہے۔ یہ بہت مہنگی ڈش ہوتی ہے اور صرف تربیت یافتہ، لائسنس یافتہ باورچیوں کے ذریعے ہی تیار کی جاتی ہے، جو جانتے ہیں کہ ایک خراب کٹ کا مطلب ایک گاہک کے لیے تقریباً یقینی موت ہے۔ درحقیقت ایسی کئی اموات سالانہ ہوتی ہیں۔ فوگو ڈش کا لائسنس تین سالہ کورس کے اختتام پر امتحان پاس کرنے کے بعد دیا جاتا ہے اور ایک فوگو ڈش 200 امریکی ڈالر تک یعنی کہ تقریباً 57000 روپے تک کی ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پفر فش پوائزننگ کے تقریباً 50 سے 200 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، اور ان میں سے تقریباً نصف مہلک ہوتے ہیں۔ پفر فش کی مختلف اقسام میں مختلف حصے زہریلے ہوتے ہیں، تاہم مجموعی طور پر ان کی جلد، جگر اور بیضہ دانیاں سب سے زیادہ زہریلی ہوتی ہیں۔

لائن فش

این او اے اے کے مطابق لائن فش (Lionfish) کا تعلق Scorpaenidae خاندان سے ہے۔ اور اسے Turkey fish بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ صرف بحر ہند اور بحرالکاہل میں پائی جاتی تھی لیکن اب ان کی آبادی بحر اوقیانوس، خلیج میکسیکو، بحیرہ کیریبین اور امریکا کے پانیوں تک پھیل چکی ہے۔ یہ بھوری، سرخ،اور سفید دھاریوں میں ہوتی ہے۔ اس کی اوسط عمر 15 سال تک اور وزن آدھے کلو سے ایک کلو تک ہو سکتا ہے۔ اور یہ 12 سے 15 انچ لمبائی میں ہوتی ہے۔ ان کا تولیدی عمل تیز ہوتا ہے اور ایک بالغ مادہ ایک سال میں تقریباً 20 لاکھ تک انڈے دے سکتی ہے۔ یہ مینگرووز، سمندری گھاس، مرجان کی چٹانوں، پھتریلے علاقوں اور مصنوعی چٹانوں (جیسے جہاز کے ملبے) کے آس پاس پائی جاتی ہے.

لائن فش venomous ہوتی ہے اور زہر ان کی ریڑھ کی ہڈیوں میں ہوتا ہے۔ یہ ٹوٹل 18 ریڑھ کی ہڈیاں یا کانٹے ہوتے ہیں جن میں 13 ڈورسل فن پر، 3 مقعد فن پر، اور 2 پیلوِک فن پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ کانٹے ایک زہریلا ڈنک دیتے ہیں جن کا اثر کئی دنوں تک رہتا ہے اور یہ ڈنک انتہائی درد، پسینہ آنا، سانس کی تکلیف اور یہاں تک کہ فالج کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن یہ  زہر مہلک نہیں ہوتا۔

زہر کے غدود ریڑھ کی ہڈی کی نالیوں کے ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے پیندے پر کوئی زہریلی تھیلی نہیں ہوتی جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے۔ زہر کے غدود دراصل ریڑھ کی ہڈی کی نالیوں کے ساتھ جاتے ہیں۔ یہ زہر پروٹین کا ایک مجموعہ ہے، ایک نیورو مسکولر ٹاکسن اور ایک نیورو ٹرانسمیٹر جسے ایسٹیلکولین کہتے ہیں۔

لائن فش کو کھایا بھی جاتا ہے۔ اسے نیزہ مار کر پکڑنے کے بعد اس کے کانٹے یا ریڑھ کی ہڈیاں نکال کر یا بون لیس کر کے پکایا جاتا ہے۔ اس کا گوشت ذائقے دار ہوتا ہے تاہم کھانے سے زیادہ یہ ایکوریم کی تجارت میں مقبول ہیں خاص طور پر امریکا میں اسے ایکوریمز میں ایک پالتو جانور کے طور پر پالا جاتا ہے۔

اب یہ مچھلی دو وجوہ کے سبب سمندری حیات کے لیے نقصان کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ یہ مرجان یا مونگے کی چٹانوں کے اطراف رہتی ہے۔ مرجان کی چٹانوں پر الجی یا کائی اگتی ہے۔ اس الجی کو سبزی خور مچھلیاں (جیسے کہ طوطا مچھلی) کھا کر ان چٹانوں کی افزائش کرتی ہیں۔ اور مرجان کی چٹانوں کے قریب رہنے کے سبب یہ سبزی خور مچھلیاں لائن فش کا آسان شکار ہوتی ہیں۔

مچھلیوں کی تمام اقسام میں سے تقریباً 5 فی صد سبزی خور ہوتی ہیں اور ان میں سے صرف 30 فی صد سمندری ہیں، جو زیادہ تر مرجان کی چٹانوں میں رہتی ہیں۔ ان چند سبزی خور نسل کی مچھلیوں کا مسلسل شکار، الجی کی زیادتی کی وجہ سے مستقبل میں مرجان کی چٹانوں کی افزائش کو روک سکتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ لائن فش مرجان کی چٹانوں کے اطراف رہنے والی مچھلیوں، جیسا کہ گروپرز (گھسر)، سنیپرز ( ہیرا، کنرچہ وغیرہ) اور دوسری اور کئی انواع کی مچھلیوں کا بھی شکار کرتی ہے۔ کاروباری لحاظ سے یہ اقسام زیادہ قیمتوں پر بکنے والی مچھلیاں ہیں اور ان مچھلیوں کی کمی اس صنعت کو مستقبل میں منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔پاکستان میں یہ کراچی میں چرنا آئی لینڈ کے اطراف زیادہ دیکھی جاتی ہے۔

باکس جیلی فش

یہ مچھلی نہیں بلکہ ایک جیلی فش ہے لیکن سمندروں میں اب تک دریافت شدہ زہریلی مخلوقات میں سب سے زیادہ زہریلی مخلوق ہونے کی بنا پر اسے اس لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ وینمس ہوتی ہے۔ این او اے اے کے مطابق باکس جیلی فش (Box jellyfish) کو یہ نام اس کی جسمانی شکل باکس کی طرح لگنے کی بنا پر دیا گیا ہے۔ اس کی 50 یا اس سے زیادہ انواع میں سے صرف چند میں ہی زہر ہوتا ہے جو انسانوں کے لیے مہلک ہوتا ہے۔

سمندر کی چار زہریلی ترین مچھلیاں

زہر ان کے موئے حساس (tentacles) میں ہوتا ہے جو ان کے جسم کے نچلے حصے پر باریک سوئیوں یا نوڈلز کی طرح لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ زہر سے لدی یہ باریک سوئیاں یا ڈارٹس انسانوں اور جانوروں کو ڈنک مارنے پر فالج، دل کا دورہ پڑنے، اور یہاں تک کہ موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں، اور یہ سب کچھ ڈنک لگنے کے چند منٹوں میں ہی ہوتا ہے۔

باکس جیلی فش دنیا بھر کے گرم ساحلی پانیوں میں پائی جاتی ہے اور اس کی مہلک اقسام بنیادی طور پر انڈو پیسیفک کے علاقوں اور شمالی آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے۔ آسٹریلوی باکس جیلی فش (Chironex fleckeri) سب سے زیادہ زہریلی ہوتی ہے۔ کیرونکس فلیکیری سب سے بڑی بھی ہوتی ہے اور اس کے جسم کا سائز ایک فٹ قطر تک ہوتا ہے۔ وزن 2 کلو تک، اور اس کے موئے حساس دس فٹ تک لمبے ہو سکتے ہیں۔

باکس جیلی فش میں ایسی خصوصیات ہوتی ہے جو انھیں دوسری جیلی فش سے ممتاز کرتی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ باکس جیلی فش تیر سکتی ہے، اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 7.41 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے، جب کہ جیلی فش کی زیادہ تر انواع اپنی سمت پر بہت کم کنٹرول کے ساتھ جہاں بھی بہاؤ لے جاتا ہے تیرتی ہیں۔ باکس جیلی فش دیکھ بھی سکتی ہے۔ باکس کے ہر طرف ان کی آنکھوں کے جھرمٹ ہوتے ہیں۔ ہر ایک جھرمٹ میں ایک نفیس لینس، ریٹنا، ایرس اور کارنیا کے ساتھ آنکھوں کا ایک جوڑا شامل ہوتا ہے۔

آسٹریلیا کے شمالی علاقہ جات کی سرکار کے مطابق اس کے ڈنک سے مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں: ہاتھ پیروں، جوڑوں، پیٹ اور کمر میں شدید درد، بے چینی، سر درد، الٹی، بہت زیادہ پسینہ آنا، سانس لینے میں دشواری، دل کی بے ترتیب دھڑکنیں اور بلڈ پریشر میں اضافہ۔ انتہائی صورتوں میں یہ دل کے دورے، دماغ کی سوجن اور موت کا باعث بن سکتی ہے۔

اس کی عمر چند ماہ ہوتی ہے اور دو ماہ میں یہ جنسی طور پر بالغ ہو جاتی ہے۔ یہ ساحل کے قریب، کم گہرے پانیوں میں رہنا زیادہ پسند کرتی ہے، جیسا کہ مینگرووز، مرجان کی چٹانیں، کیلپ کے جنگلات، اور ریتیلے ساحلوں میں، یہ بالکل شفاف ہوتی ہے اس لیے آسانی سے نظر نہیں آتی اور یہ چھوٹی مچھلیوں اور جھینگوں کا شکار کرتی ہے۔ انسانوں پر اس کا ڈنک لگنا ارادتاً نہیں بلکہ اتفاقی ہوتا ہے، اس لیے گورے لوگوں کے مقابلے میں کالے لوگ بہت ہی کم اس کا شکار بنتے ہیں۔ کالی جلد کو یہ دور سے ہی آسانی سے شناخت کر لیتی ہے جب کہ سفید یا ہلکے گدلے پانی میں سفید جلد کو پہچاننا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ گرمیوں میں ساحلوں پر ان کی آمد بہت زیادہ ہو جاتی ہے اس لیے آگاہی کے لیے ساحلوں پر بورڈز اور نہانے کے لیے جال بھی لگائے جاتے ہیں۔ کراچی میں یہ کیماڑی کے ساحل سے چند میل دور غوطہ خوروں کو دکھائی دیتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں