The news is by your side.

گھوڑا مچھلیوں کی تین اقسام میں فرق کیسے کریں؟ حیران کن معلومات

سیل فش، سورڈ فش اور مارلن فش کو انگریزی میں مجموعی طور پر Billfish کہا جاتا ہے، اور یہ نام bill انھیں ان کے اوپری جبڑے یا نیزے جیسی چونچ ہونے پر دیا گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں ان تینوں اقسام کی مچھلیوں کو گھوڑا مچھلی کہا جاتا ہے۔

پہلی نظر میں یہ تینوں یکساں ہونے کے سبب ایک ہی مچھلی لگتی ہے، مگر بہرحال یہ الگ الگ اقسام اور خصوصیات کی حامل مچھلیاں ہیں۔ Sailfish کی پہچان آسان ہے لیکن Sword اور Marlin میں پہچان قدرے مشکل ہے، کیوں کہ یہ دونوں ایک ہی جیسی نظر آتی ہیں اور پہچان سے ناآشنا انھیں ایک ہی مچھلی سمجھتے ہیں۔

سیل فش
سیل فش کی پہچان اس لیے آسان ہے کہ اس کا Dorsal Fin (کمر کا پنکھ) کسی بادبان کی طرح ہوتا ہے، اور اسی سبب اسے Sailfish کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اوپر سے گہرے نیلے رنگ کی، بعد میں ’بھورے نیلے‘ رنگ کی اور نیچے سے سلور رنگ کی ہوتی ہے اور اس کا جسم چپٹا ہوتا ہے۔ اس کی عمر عموماً 5 سال تک ہوتی ہے لیکن یہ 15 سال تک جی سکتی ہے، لمبائی میں 11 فٹ تک اور وزن میں 100 کلو تک بڑھ سکتی ہے۔

سیل فش سمندر کی سب سے تیز رفتار مچھلی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ 110 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر سکتی ہے۔ حالاں کہ کچھ دعوؤں کے مطابق بلیک مارلن اور بلو مارلن مچھلی اس سے بھی تیز، 132 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر سکتی ہے لیکن ان دعوؤں کے کوئی پختہ ثبوت نہ ہونے کے باعث سیل فش کو ہی سمندر کی سب سے تیز رفتار مچھلی سمجھا جاتا ہے۔

شکار کے لیے یہ اپنی رفتار اور نیزے جیسی چونچ سے بھرپور مدد لیتی ہے۔ شکار کے قریب پہنچ کر یہ انتہائی سرعت سے اسے چونچ مار کر زخمی کر کے اسے کھا لیتی ہے۔ جب کہ کچھ دعوؤں کے مطابق تینوں گھوڑا مچھلیاں اپنے نیزے شکاروں کو چبھونے کی بجائے ان کے دائیں اور بائیں مارتی ہیں، جس سے شکار دنگ ہو کر گھبراتا ہے، اور بے ہوش ہو جاتا ہے یا پھر اس کی رفتار سست ہو جاتی ہے، جس سے انھیں پکڑنے میں آسانی ہوتی ہے۔

یہ گروپ میں بھی شکار کرتی ہے، گروپ میں شکار کے دوران کئی سیل فش چھوٹی مچھلیوں کے جھنڈ کو گھیر لیتی ہیں اور اپنی بادبان جیسی کمر کے پنکھ اٹھا کر جھنڈ کے چاروں طرف گول گول گھوم کر ایک دیوار سا بنا لیتی ہیں اور پھر باری باری ایک ایک کر کے سیل فش اس حصار میں کود کر برق رفتاری سے اپنی چونچوں سے جھنڈ کو چیرتی جاتی ہے اور زخمی مچھلیوں کو کھا کر پھر اپنی جگہ پر واپس آ کر دوسری ساتھی کو موقع دیتی ہے۔

قیمت میں کم لیکن سیل فش کا گوشت سخت ہوتا ہے اور ذائقہ دار بھی نہیں ہوتا، اس لیے یہ تجارتی طور پر اور کھائے جانے کے لیے مقبول نہیں ہے۔ شاذ و نادر ہی انھیں کھانے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ تاہم سستی ہونے کے سبب شادی بیاہ میں، ہوٹلوں میں، بوفے میں زیادہ تر ان تینوں گھوڑا مچھلیوں کا اور پھر شارک، پٹن کا گوشت استعمال جاتا ہے۔ کراچی فشری میں تینوں گھوڑا مچھلیوں کا گوشت 300 سے 400 روپے کلو تک میں دستیاب ہوتا ہے۔

شکار بہ طور تفریح لیکن کھانے سے زیادہ یہ بہ طور تفریحی گیم یعنی Recreational Fishing (catch and release) کے لیے بہت مقبول ہیں، مارلن اور سورڈ فش کا شکار بھی بطور گیم کیا جاتا ہے۔ اینگلرز (شکاریوں) کے لیے ان تینوں گھوڑا مچھلیوں کو پکڑنا ایک دل چسپ چیلنج ہوتا ہے۔ کانٹے میں لگنے پر یہ سطح سمندر پر چھلانگیں لگا کر اور زور زور سے اپنا منہ جھٹک جھٹک کر کانٹے سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کئی دفعہ تو شکاریوں کو انھیں بوٹ تک لانے کے لیے کئی گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں، اور کئی بار لوگ اس کے Bill لگنے پر زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ تاہم بہ طور ایک تفریحی گیم بوٹ کے قریب لا کر انھیں ٹیگ لگا کر یا پھر ٹیگ کیے بغیر انھیں قانون کے مطابق پانی سے نکالے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اس انتہائی منفرد مخلوق کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔

گھوڑا مچھلیوں کو پکڑنے کا سب سے عام طریقہ مصنوعی چارے (artificial lure) کے ساتھ ٹرول کرنا ہے، جب کہ اسے زندہ مچھلیوں کے چارے پر بھی پکڑا جاتا ہے، انھیں پکڑنے کے لیے ٹرولنگ راڈز اور بڑی روایتی ریلوں کے ساتھ ساتھ مضبوط مونوفیلمنٹ لائن یا بریڈڈ لائن کا استعمال کیا جاتا ہے۔

مصنوعی چارہ پلاسٹک کا ہوتا ہے اور اس پر کانٹے ہوتے ہیں، اسے چارہ مچھلیوں، کیڑوں یا دیگر شکار سے مشابہت کر کے ڈیزائن کیا گیا ہے، تاکہ مچھلیاں ان کی طرف متوجہ ہو کر چارے کے کانٹے میں پھنس سکیں۔ چارہ بہت سی مختلف اشکال، سائز اور رنگوں میں آتے ہیں، ان کی تین بنیادی اقسام ہیں: جگ، پلگ اور اسپنرز۔

کھائے جانے کے لیے تینوں گھوڑا مچھلیوں میں سے کوئی بھی پکڑنے پر، امریکی حکومتی ادارے ’نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن فشریز‘ (NOAA) کو 24 گھنٹے کے اندر اندر رپورٹ کرنا ہوتی ہے۔ یہ تینوں گھوڑا مچھلیاں طویل مسافت کی ہجرت کرنے والی مچھلیاں ہیں جو ملکوں ملکوں سفر کرتی ہیں اس لیے انھیں Highly migratory species (HMS) کہا جاتا ہے، اور انھیں پکڑنے کے لیے HMS لائسنس اور پرمٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو NOAA سے خریدی جاتی ہے۔

قانون کے مطابق سیل فش کے پکڑنے کا لیگل سائز 63 انچ ہے، اس سے چھوٹی سیل فش پکڑنا بالکل غیر قانونی ہے، اور یہ پیمائش نچلے والے چھوٹے جبڑے کی نوک سے لے کر دم کے درمیان والی جگہ، جہاں پر دم کا گوشت ختم ہو کر دم کے بال شروع ہوتے ہیں تک ہے۔ اس کا Daily Baig Limit یعنی کہ روزانہ کی بنیادوں پر پکڑنے کی حد ایک ہے۔ اس کا مطلب ایک دن میں ایک سے زیادہ سیل فش نہیں پکڑ سکتے۔ واضح رہے کہ یہ قوانین امریکی ریاست فلوریڈا کے ہیں۔ تینوں گھوڑا مچھلیوں کے لیے امریکا کی الگ الگ ریاستوں میں اور الگ الگ ممالک میں سائز اور روز پکڑنے کی حد الگ الگ ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں دستیابی اور مرکری کی سطح
یہ گھوڑا مچھلیاں پاکستان کے پانیوں میں بھی موجود ہیں، اور بلوچستان کے اطراف اور کراچی کے قریب گہرے پانیوں میں پائی جاتی ہیں، زیادہ تر یہ کراچی کے قریب ’کڈہ‘ کے نام سے مشہور علاقے میں دیکھی، پکڑی اور کھیلی جاتی ہیں لیکن کھبی کبھار انھیں کراچی کے بالکل قریب چرنا آئی لینڈ کے اطراف بھی دیکھا جاتا ہے۔

اس کے گوشت کے مرکری لیول کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور نہ ہی امریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن FDA اس کا گوشت کھائے جانے کے حوالے سے کوئی وارننگ جاری کرتی ہے۔ تاہم اس کی عمر اور لائف اسٹائل کو دیکھتے ہوئے اسے میڈیم رینج یا پھر ہائی لیول کے مرکری رینج کی مچھلی مانا جاتا ہے۔

سورڈ فش
اس کو یہ نام اس کے بِل یعنی اوپری چونچ تلوار کی طرح ہونے پر دیا گیا ہے، اس کا bill تلوار کی طرح چپٹا اور لمبا ہوتا ہے، یہ گہرے رنگ کی ہوتی ہے۔ اوپر سے سیاہ یا گہری بھوری اور نیچے سے رنگ کچھ کم گہرا ہو جاتا ہے۔ اس کا بدن لمبا، گول اور مضبوط ہوتا ہے اور Dorsal fin (کمر کا پنکھ) اونچائی میں لمبا اور ہلال کی طرح نظر آتا ہے، جب کہ چوڑائی کم ہوتی ہے۔ یہ وزن میں 650 کلو تک، اور لمبائی میں 14 فٹ تک بڑھ سکتی ہے، تاہم کمرشل بنیادوں پر پکڑی جانے والی ان مچھلیوں کا وزن 100 سے 150 کلو کے درمیان ہوتا ہے۔

نر مچھلی کی عمومی عمر 9 سال اور مادہ کی 15 سال ہوتی ہے لیکن نر 14 اور مادہ 32 سال تک بھی جی سکتی ہیں۔ مادہ عموماً 4 سے 5 سال میں سن بلوغت کو پہنچ کر انڈے دینا شروع کر دیتی ہے اور یہ ایک وقت میں 1 ملین سے 29 ملین تک انڈے دے سکتی ہے۔ ڈھائی دن بعد انڈوں سے بچے نکلتے ہیں اور تیزی سے بڑھتے ہیں۔ تب ان کے بدن پر چھلکے اور منہ میں دانت ہوتے ہیں جب کہ Bill نہیں ہوتا۔ تقریباً 2 فٹ بڑھنے کے بعد ان کے دانت گر جاتے ہیں اور چھلکے آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتے ہیں اور بِل اگنے لگتی ہے۔ ایک سال میں یہ 3 فٹ تک کے ہو جاتے ہیں اور 2 سال بعد مادائیں نروں کے مقابلے تیزی سے بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں اس لیے مادائیں نروں سے سائز اور عمر میں بڑی ہوتی ہیں۔ یہ مچھلی 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کے رفتار سے تیر سکتی ہے اور اس کی اقسام نہیں ہوتیں۔

گوشت ذائقہ دار، مرکری سطح زیادہ
سیل فش کے مقابلے میں اس کا گوشت ذائقے دار اور عوام میں مقبول ہے اس لیے مہنگا بھی ہوتا ہے۔ تقریباً ایک پاؤنڈ فریش گوشت کی قیمت 60 ڈالر تک ہوتی ہے، جب کہ فروزن یا کین والا گوشت اس سے کچھ سستا ہوتا ہے۔ اس کا گوشت ذائقے میں ہلکا میٹھا ہوتا ہے اور مچھلی کی مخصوص بو بہت کم ہوتی ہے۔ گوشت کے ریشے بھی نہیں بکھرتے اس لیے لوگ اسے کوئلوں پر بھوننا اور گرل کرنا پسند کرتے ہیں، اور اس کے گوشت میں افادیت بھی ہے۔

سورڈ فش کے گوشت میں ذائقہ اور غذائیت تو دونوں ہیں لیکن اس کا مرکری لیول بہت زیادہ ہے، امریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق Swordfish کا مرکری لیول 0.995ppm ہے جو کہ شارک مچھلی سے بھی زیادہ ہے۔ اتنے ہائی لیول کے مرکری کی مچھلی کبھار کبھار کھانے میں تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن مستقل بنیادوں پر کھانے سے بدن کو مہلک خطرات لاحق ہو سکتی ہیں۔

گوشت مہنگا بکنے کے سبب کمرشل بنیادوں پر اس کا شکار بھی کیا جاتا ہے۔ امریکی فشریز سے لائسنس اور الگ الگ پرمٹ ملتے ہیں، اور فی کشتی دس سے پندرہ، پندرہ سے بیس اور تیس تک مچھلیاں فی ٹرپ پکڑنے کی اجازت ہوتی ہے۔ عوام کے لیے اس کے پکڑنے کی حد فی بندہ روز 1 مچھلی ہے، جب کہ قانونی سائز 47 انچ ہے، جس کی پیمائش نچلے جبڑے سے لے کر دم کے درمیان تک ہے۔

سورڈ فش دنیا بھر کے گرم اور معتدل پانیوں میں پائی جاتی ہے جب کہ یہ سیل فش اور مارلن فش کے برعکس، ٹھنڈے پانیوں میں بھی رہ سکتی ہے۔ ٹھنڈے پانیوں کو برداشت کرنے کے لیے اس کے جسم میں ایک حرارتی نظام ہوتا ہے، جو ان کی آنکھوں کے قریب پایا جاتا ہے، جو اس کا بدن گرم رکھنے اور سردی برداشت کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسے کاؤنٹر کرنٹ ایکسچینجر کہا جاتا ہے۔ یہ میکنزم آنکھوں کے قریب ایک ٹشو کے ذریعے کام کرتا ہے اور بدن کو گرم رکھنے کے علاوہ، دماغ کو بھی گرم رکھتا ہے، جس سے اسے بہتر سوچنے میں مدد ملتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ میکنزم آنکھوں کی بینائی کو بھی بہتر بنا کر انھیں بہترین شکاری بناتا ہے۔

یہ گہرے پانیوں میں رہنا، گروپ کے بجائے اکیلے رہنا اور اکیلے شکار کرنا پسند کرتی ہے، سمندر کی یہ شان دار مخلوق اپنی لمبی، گول، مضبوط بڑی جسامت اور تلوار جیسی چونچ کے ساتھ جب 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی تیرتی ہے تو کسی فائر کیے گیے تارپیڈو کی طرح لگتی ہے اور وہ نظارہ ہی دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔

مارلن فش
اس کی دنیا بھر میں 4 اقسام پائی جاتی ہیں۔ 1: سفید مارلن 2: نیلی مارلن 3: سیاہ مارلن 4: دھاری دار مارلن۔ ایک ہی مضمون میں ان چاروں کا ایک ساتھ تذکرہ کرنا تو ممکن نہیں، اس لیے ان سب میں سب سے مشہور بلو مارلن کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

بلو مارلن کو اس کے نیلے رنگ کی وجہ سے یہ نام ملا ہے، اس کا اوپری رنگ گہرا نیلا اور نیچے سے سلور اور کچھ حد تک سفید ہوتا ہے۔ اس کی چونچ ’bill‘ نیزے کی طرح ہوتی ہے اور Dorsal Fin (کمر کا پنکھ) ڈھلوان کی صورت میں ہوتی ہے۔ ڈورسل فن کمر پر سیدھا اٹھ کر آہستہ آہستہ ڈھلوان کی صورت میں کم ہو کر دم کے قریب جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ مادہ مارلن نروں سے کافی بڑی ہوتی ہے۔ مادہ 12 فٹ سے لمبی ہو سکتی ہے اور وزن میں 900 کلو تک بڑھ سکتی ہے جب کہ یہ 20 سال کی عمر تک جی سکتی ہے۔

نروں کی لمبائی 7 فٹ تک اور عمر 10 سال تک کی ہوتی ہے۔ انڈوں سے نکلنے کے بعد ان کی افزائش تیزی سے ہوتی ہے اور پہلے کے 1 سے 2 سالوں میں یہ 3 سے 6 فٹ تک پہنچ جاتی ہیں۔ نر تقریباً 2 سال کی عمر میں جب کہ مادہ 3 سے 4 سال کی عمر میں بالغ ہوتی ہے۔

بلو مارلن دنیا بھر کے گرم اور معتدل پانیوں میں پائی جاتی ہے لیکن یہ زیادہ تر گرم پانیوں میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے اور اسی خاطر ملکوں ملکوں سفر کرتی ہے۔ یہ اکثر سطح اور 100 میٹر کی گہرائی میں گھومتی ہے۔

گوشت اور مرکری کی سطح
بلو مارلن کے گوشت کو پسند کیا جاتا ہے، ذائقہ سورڈ فش سے ملتا جلتا ہے، خاص کر جاپان میں اس کا گوشت سوشی (Sushi) کے لیے مشہور ہے اور قیمتی بھی ہے۔ اس کے گوشت میں ضروری منرل، وٹامنز پائے جاتے ہیں، جب کہ FDA کے مطابق مارلن کا مرکری لیول 0.485 ہے جو کہ ایک میڈیم رینج ہے اور مشہور مچھلی گھسر (Grouper) کے قریب ہے۔
اس کا کمرشل بنیادوں پر بہت زیادہ شکار کیا جا رہا ہے جس سے کچھ علاقوں میں ان کی نسل معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ عوام کے لیے اس کا ڈیلی بیگ لمٹ فی بندہ ایک مچھلی ہے، اور پکڑنے کا قانونی سائز امریکی ریاست فلوریڈا کے مطابق 99 انچ ہے۔

سورڈ اور مارلن میں فرق
چونچ (Bill): سورڈ فش کا بِل لمبا، تلوار کی طرح چپٹا اور تلوار کے جیسے ہوتا ہے، جب کہ مارلن کا بِل سورڈ فش کے مقابلے چھوٹا، چپٹا کے بجائے تھوڑا گولائی میں اور نیزے کی طرح ہوتا ہے۔

کمر کا پنکھ (Dorsal fin): سورڈ کا ڈورسل فن اونچا اور چوڑائی میں کم ہوتا ہے، ہلال کے جیسے یا پھر شارک کے ڈورسل فن کے جیسے نظر آتا ہے۔ جب کہ مارلن کے ڈورسل فن کی اونچائی کم جب کہ چوڑائی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا ڈورسل فن ڈھلوان کی صورت میں ہوتا ہے۔ڈورسل فن گردن سے اوپر اٹھ کر پھر ڈھلوان کی صورت میں آہستہ آہستہ چھوٹا ہوتا ہوا پیچھے جا کر دم کے قریب آکر ختم ہو جاتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں