کند مچھلی اپنے میٹھے ذائقے کی وجہ سے پاکستان میں پسند کی جانے والی ایک مقبول مچھلی ہے۔ چوں کہ اس کی شناخت آسان ہے اور ذائقے میں مشہور بھی بہت ہے، اس لیے وہ لوگ جو مچھلیوں کی اقسام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے وہ بھی کند کو نام اور شکل سے آسانی سے شناخت کر پاتے ہیں۔
کند کو سمندر کے شیر کا لقب ملا ہے اور اسے سمندر کا قصائی بھی کہتے ہیں۔ کند سے انسانوں پر حملے بھی منسوب ہیں اور اس کا گوشت زہریلا بھی کہا جاتا ہے۔ باڈی بلڈرز کیوں کند مچھلی کو ترجیح دیتے ہیں اور کیا کند واقعی بہت ذائقے دار ہے؟ کند سے جڑی ان باتوں میں کتنی سچائی ہے، آئیے جانتے ہیں۔
پاکستانی حکومتی ادارے مرین فشریز ڈیپارٹمنٹ کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کند کی کُل 29 اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں پاکستان میں پائی جانے والی والی 9 اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
1: شارپ فن بیراکوڈا (Sphyraena acutipinnis)،2: گریٹ بیرا کوڈا (Sphyraena barracuda)، 3: بگ آ ئی بیرا کوڈا (S. forsteri)، 4: اوبٹیوس بیراکوڈا (S.obtusata)، 5: ریڈ بیراکوڈا (S.pinguis)، 6: سا ٹوتھ بیرا کوڈا(S. putnamae)، 7: بلیک فن بیرا کوڈا(S. qenie)، 8: پک ہینڈل بیرا کوڈا(S. jello)، 9: اربین بیرا کوڈا (S. arabiansis)۔ تاہم پاکستان میں تجارتی بنیادوں پر اور کھائے جانے کے حوالے سے اس کی 2 اقسام مشہور ہیں۔ کالا کند اور سفید کند۔
کالے اور سفید کند میں فرق؟
مرین فشریز ڈپارٹمنٹ کراچی کے مطابق سفید کند ’پک ہینڈل بیراکوڈا‘ ہے جب کہ کالے کند کے بارے میں درست اور حتمی معلومات دستیاب نہیں ہیں، تاہم شکل میں مشابہت، خواص سے مماثلت دیکھتے ہوئے پاکستان میں پائے جانے کے لحاظ سے کالا کند سا ٹوتھ بیراکوڈا اور بلیک فن بیرا کوڈا ہو سکتے ہیں۔
کند مچھلی کی مختلف نسلوں کی لمبائی 5 فٹ تک اور اس سے بھی زیادہ، اور وزن میں 45 سے 50 کلو تک ہو سکتی ہیں۔ سب سے بڑی قسم کا کند ’گریٹ بیراکوڈا‘ ہے جو 5 فٹ سے زیادہ بڑھ سکتا ہے اور وزن میں 45 سے 50 کلو تک جا سکتا ہے جب کہ سب سے چھوٹی قسم کا کند یلو ٹیل بیراکوڈا ( S. Flavicauda) ہے، جو 24 انچ تک بڑھ سکتا ہے لیکن عام طور پر 14 سے 16 انچ تک میں پایا جاتا ہے۔
کالے کند کی دم اور پر کالے جب کہ سفید کند کے پیلے ہوتے ہیں اور اسی سے دونوں میں امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ کند کو انگلش میں Barracuda کہتے ہیں جب کہ بھارت میں اسے کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن 2 مشہور اور عام نام ’شیلا‘ یا ’سیلا‘ اور ’ڈانڈوشی‘ ہیں۔ پاکستان میں سفید کند کو ’جہیرا‘ بھی کہتے ہیں۔ جہیرا لفظ سمندری مخلوق میں ہر اس جانور کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کسی ایک نسل میں ایک سے زیادہ اقسام ہونے پر سب سے بہترین کوئی قسم تصور کی جاتی ہو۔ جہیرا کو عام بول چال میں آسانی کے لیے ’جیرا‘ کہا جاتا ہے۔
انگریزی میں کدال کو pickaxe handle کہتے ہیں۔ کدال کا ایک سرا نوکیلا جب کہ دوسرا چپٹا اور قدرے مڑا ہوا ہوتا ہے۔ سفید کند کے بدن پر اوپری سمت دونوں اطراف تقریباً بیس بیس ہلکی گہری دھاریاں ہوتی ہیں، جو تقریباً اس کے پیٹ کے نصف تک آتی ہیں۔ یہ دھاریاں کدال کے چپٹے والے حصے جیسی نظر آتی ہیں اسی نسبت سے اس کا نام ’پک ہینڈل‘ رکھا گیا ہے۔ سفید کند کو انگریزی میں بینڈڈ باراکوڈا اور سی پائیک بھی کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ کند نام کے ’ک‘ پر ’پیش‘ ہے اور اسے عام بول چال میں آسانی کے لیے ’کُن‘ پکارا جاتا ہے۔
قیمت اور خریدتے وقت احتیاط
کراچی فشری میں اے گریڈ کالے کند کی قیمت 400 سے 600 روپے اور سفید کند کی 800 سے 1200 روپے تک ہوتی ہے۔ سفید کند کا گوشت سفید جب کہ کالے کند کا ہلکا سا کالا ہوتا ہے لیکن ایک کلو کے اندر اندر کے کالے کند کا گوشت سفید نکلتا ہے۔ ذائقے میں سفید کند کالے سے اچھا ہوتا ہے۔ سفید کن کو اس کے لذیذ ذائقے کی وجہ سے سرمائی کے متبادل یا سرمائی سے بھی اچھا مانا جاتا ہے۔
کند کے کراس میں سلائس اچھے بنتے ہیں جب کہ بون لیس کرنے پر کالے کند کا گوشت زیادہ نرم ہونے کی وجہ سے کچھ ٹوٹنے یا بکھرنے لگتا ہے۔ پکنے کے بعد دونوں کا گوشت نرم بنتا ہے اور سفید کند میں مچھلی کی مخصوص بو نہیں ہوتی، جب کہ کالے کند میں ہلکی سی مہک ہوتی ہے۔ کند کا سر چھوٹا ہونے، پیٹ کی آلائشیں کم مقدار میں ہونے اور کانٹے کم ہونے کے باعث اس میں کچرے کی شرح کم ہوتی ہے۔ کانٹے کم ہونے کے باعث کند کی باڈی جلدی نرم ہو کر لٹکنے لگتی ہے اس لیے کن خریدتے وقت اس کو سر پکڑ کر اٹھا کر چیک کر لیا کریں کہ اس کی باڈی بالکل ہی لٹکی ہوئی نہ ہو، بالکل سیدھی یا پھر کافی حد تک سیدھی ہونی چاہیے۔ اور اس کے بدن پر اوپر کی سمت انگلی بھی پھیر کر دیکھیں گوشت نرم نہیں بلکہ سخت ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں مچھلی کی افادیت اور ذائقہ اے گریڈ مچھلی (سر سے پکڑی ہوئی سیدھی مچھلی، لال اور لیس والے گلپھڑے، سخت گوشت) میں ہے۔
رہائش
امریکی حکومتی ادارے ’نیشنل مرین سینکچری‘ اور سمندروں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم ’اوشیانا‘ کے مطابق کند دنیا میں بھر میں گرم اور معتدل سمندری علاقوں میں ساحلوں کے قریب چٹانوں، مرجان کی چٹانوں، مینگروز کے جنگلات اور سمندری گھاس والے علاقوں کے ارد گرد سطح کے قریب پائے جاتے ہیں۔ مادہ کند کی مختلف نسلیں ایک وقت میں 50 ہزار سے 3 لاکھ تک انڈے دیتی ہے۔ کچھ دنوں یا ہفتوں کے بعد انڈوں سے بچے نکلتے ہیں جو لاروا کہلاتے ہیں اور بالکل بھی کند مچھلی کی طرح نہیں لگتے۔
لاروا جھنڈ کی صورت میں کم گہرے پانی والے گھاس کے علاقوں اور مینگروز کے جنگلات میں رہنے لگتے ہیں، کم گہرا پانی، گھاس اور جنگلات کی جڑیں انھیں شکاریوں سے تحفظ اور غذا فراہم کرتی ہیں۔ پہلے سال تک یہ انھی علاقوں میں اور اس کے قریب رہتے ہیں۔ دوسرے سال میں یہ کچھ گہرے علاقوں میں مرجان کی چٹانوں کے قریب چلے جاتے ہیں اور پھر عمر بھر وہی رہتے ہیں۔ مادہ کند تقریباً 4 سال کی عمر میں اور نر 2 سال کی عمر میں جنسی پختگی تک پہنچتے ہیں، اور یہ 10 سے 14 سال تک جی سکتے ہیں۔
کند زیادہ تر جھنڈ کی صورت گھومتے ہیں، جب کہ رات کے وقت الگ الگ ہو کر شکار کرتے ہیں لیکن یہ جھنڈ میں بھی شکار کرتے ہیں۔
کند کی پہچان
ان کی پیٹھ گہری ہوتی ہے جس سے کم گہری موٹی دھاریاں نیچے پیٹ تک آتی ہیں۔ یہ دھاریاں مختلف اقسام میں مختلف اشکال کی اور تعداد میں کم زیادہ ہوتی ہیں۔ کالے کند (سا ٹوتھ بیراکوڈا) پر دونوں اطراف chevron کی شکل (فٹ پاتھ پر کیے گئے پیلے پینٹ پر کالے رنگ کے کھینچے گئے نشانات کی طرح) کی تقریباً 15 دھاریاں جب کہ (بلیک فن بیراکوڈا) پر ریاضی کے گول بریکٹ کے علامتی نشان (صرف دائیں طرف والی سنگل علامت) کے نشان کی طرح 18 سے 22 تھوڑی لمبی دھاریاں ہوتی ہیں۔ کند کا پیٹ سلوری یا سفید ہوتا ہے۔ ان کے جسم گول اور لمبے ہوتے ہیں اور تیرتے وقت کسی تارپیڈو میزائل کی طرح نظر آتے ہیں۔ ان کے سر (آنکھوں کے درمیان) چپٹے اور منہ لمبے اور نوک دار ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے بدن میں سب سے خاص بات ان کے مضبوط جبڑے اور انتہائی تیز دانت ہیں۔
نچلا جبڑا اوپری جبڑے سے تھوڑا لمبا ہوتا ہے۔ اس کے منھ میں بالکل شروع میں نچلے جبڑے میں ایک بڑا نوکیلا دانت جب کہ اوپری جبڑے میں چار بڑے نوکیلے دانت ہوتے ہیں۔ اوپری جبڑے کے پیچھے والے دو دانت اور نچلے جبڑے کا ایک دانت پیچھے یعنی اس کے حلق کی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں، جو بہت زیادہ پھسلن والی مچھلیوں کو اس کے منہ سے باہر نکلنے سے روکتے ہیں۔ اوپری جبڑے میں دانتوں کی دو قطاریں ہوتی ہیں۔ ایک بیرونی سمت دانتوں کی باؤنڈری ہوتی ہے جو چھوٹے چھوٹے دانتوں پر مشتمل ہوتی ہے اور دوسری قطار اندرونی سمت لمبے نوکیلے دانتوں کی ہوتی ہے۔ جب کہ نچلے جبڑے کے سارے دانت درمیانے سائز کے ہوتے ہیں۔ کند کے یہ سارے دانت آری کے دانتوں جیسے تیز ہوتے ہیں۔ مضبوط جبڑے اور تیز نوکیلے دانت کی وجہ سے اسے سمندر کے شیر کا لقب ملا ہے۔
شکار کے دوران یہ اپنے لمبے گول بدن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چٹانوں کی چھوٹی چھوٹی باریک دراڑوں میں چھپ کر شکار پر گھات لگاتے ہیں اور پھر انتہائی سرعت سے اس پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ حملہ اتنا تیز ہوتا ہے کہ شکار کے سنبھلنے سے پہلے ہی وہ کند کے منہ میں ہوتا ہے۔ چھوٹی مچھلیوں کو کند سالم نگلتا ہے جب کہ بڑی مچھلیوں کو زیادہ تر پیچھے سے یا پھر بیچ سے پکڑ کر سر کو زور زور سے جھٹکتے ہوئے اس کے دو ٹکڑے کر دیتا ہے۔ ایک حصہ کھاتے ہوئے راؤنڈ مار کر کند واپس آتا ہے اور پھر بقیہ شکار کھاتا ہے۔ اس کے شکار کو اسی بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر اسے سمندر کا قصائی بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے تیز رفتار ’گریٹ بیرا کوڈا‘ ہوتا ہے جو 58 کلو میٹر فی گھنٹہ کی سی سرعت سے شکار پر لپک سکتا ہے۔
شکار کیسے کریں؟
کند کا شکار زیادہ تر رات میں کیا جاتا ہے اور ڈوری کے آگے اسٹیل وائر لگا کر پھر اس میں کانٹا لگایا جاتا ہے کیوں کہ ڈوری کو یہ تیز دھار دانتوں سے کاٹ دیتا ہے۔ امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے ریاستی ادارے نارتھ کیرولائنا انوائرنمنٹل کوالٹی کے مطابق اب تک کا پکڑا گیا سب سے بڑا کند 46.72 کلو وزنی اور 5.5 فٹ لمبا ہے جو امریکی ریاست بہاماس سے پکڑا گیا تھا۔ لیکن یاد رکھیں کہ کند دو وجوہ کے لیے بدنام بھی ہے، ایک Ciguatera Poisoning یعنی اس کے کھانے سے پوائزننگ ہو سکتی ہے، اور دوم یہ انسانوں پر حملے بھی کرتی ہے۔
سیگوٹیرا پوائزننگ
امریکی حکومتی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ’شاخ نیشنل لائبریری آف میڈیسن‘ کے مطابق چھوٹے سمندری پودے یا الجی (کائی) کی ایک قسم ’ڈائنوفلاجیلیٹس‘ کی کچھ اقسام جو سمندر میں چٹانوں اور مرجان کی چٹانوں پر اگتے ہیں، ایک زہریلا مادہ ’سیگوا ٹوکسین‘ پیدا کرتے ہیں۔ ان زہریلے پودوں کو سبزی خور مچھلیاں کھاتی ہیں تو یہ زہر ان میں منتقل ہو جاتا ہے اور پھر ان سبزی خور مچھلیوں کو کند کھا کر یہ زہر اپنے اندر جذب کرتی رہتی ہیں۔ جو انسانوں کے کھانے پر انھیں فوڈ پوائزننگ کا شکار بنا دیتے ہیں۔
یہ زہریلی کائی سمندروں کے علاوہ میٹھے پانی کے ذرائع جیسا کہ دریاؤں، تالابوں اور برف میں بھی اگتی ہے۔ حالاں کہ یہ کائی بہت زیادہ مقدار میں زہر نہیں پیدا کرتیں، لیکن ان کی زیادہ مقدار نقصان دہ ہو جاتی ہے۔ بڑا کند چھوٹے کند سے زیادہ جینے کی وجہ سے زیادہ سیگواٹوکسین جمع کر پاتا ہے، اس لیے بڑے کند کے زہریلے ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقاتی اداروں کی طرف سے لوگوں کو بڑا کند کھانے سے منع کیا جاتا ہے اور 3.5 فٹ سے زیادہ لمبے کند کو نہ کھانے کی تلقین کی جاتی ہے۔
سیگوٹیرا ابھی صرف جنوبی علاقوں میں عام ہے لیکن دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ اور سمندروں کے پانیوں کی مستقل بڑھتی ہوئی درجہ حرارت اسے شمالی علاقوں میں بھی متعارف کروا سکتی ہے۔ اچھی بات یہ کہ سیگوٹیرا کے پوری دنیا میں ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں، لیکن یہ کہیں بھی پایا جا سکتا ہے جہاں جہاں سمندر ہے۔ سیگوٹیرا کے زیاد تر متاثرین کا تعلق امریکی ریاستوں ساؤتھ فلوریڈا، بہاماس اور کیریبین سے ہے۔ یہ علاقے سیگوٹیرا فوڈ پوائزننگ کے لیے دنیا بھر میں بدنام ہیں۔
سیگواٹوکسین کا جسم پر اثر
انسانی جسم میں سیگواٹوکسین منتقل ہونے کے چند گھنٹوں بعد اثر دکھانا شروع کرتا ہے۔ علامات میں معدے اور آنتوں سے متعلق (الٹی، معدے پیٹ میں درد اور مروڑ، دست)، قلبی علامات ( بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکنیں کم ہونا) کچھ اعصابی علامت اور جوڑوں، پٹھوں میں درد ہونا، کمزوری، تھکاوٹ اور بدن پر خارش شامل ہیں۔ علامات کچھ دنوں بعد ختم ہو جاتی ہیں، بہت ہی کم کیسز میں ہفتوں یا مہینوں چلتی ہیں۔ اس کا نہ کوئی ٹیسٹ ہے نہ علاج، نہ کوئی اینٹی وینم، نہ ہی کوئی رنگ، بو اور ذائقہ، اور نہ ہی یہ بہت زیادہ ٹھنڈا اور گرم کرنے پر یا پکانے پر ختم ہو سکتا ہے۔ علاج صرف علامت کے رفع کرنے کا ہوتا ہے جب کہ یہ پوائزن خود مچھلی کے لیے بالکل بے ضرر ہوتا ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں یہ نہیں پایا جاتا، اور ابھی تک اس کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ امریکی حکومتی ادارے نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق پاکستان میں 3 افراد پر مشتمل ایک فیملی سیگوٹیرا سے متاثر ہوئی تھی۔ ان میں 42 سالہ شوہر، 39 سالہ بیوی اور ان کا 5 سالہ بچہ شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق انھوں نے کسی نا معلوم مچھلی کا جگر کھایا تھا، جس پر انھیں اعصابی اور قلبی علامت ہوئے، شوہر اور بچہ اسپتال میں صحت یاب ہو گئے جب کہ عورت انتقال کر گئی۔
کند زہریلی نہیں
امریکی حکومتی ادارے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق مچھلی کے اندرونی اعضا (دل، جگر، گردے، تلی، کلیجی، پھیپڑے) سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی (زہریلے فاسد مادوں) کا شکار ہوتے ہیں اور انھیں بالکل بھی نہیں کھایا جانا چاہیے بلکہ یہ ادارہ تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر حفظ ما تقدم کے طور پر مچھلی کی جلد اور سری بھی نہ کھانے کی تلقین کرتا ہے، کیوں کہ اندرونی اعضا کے بعد یہ زیادہ آلودہ ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ فیملی نے کند کی بجائے کسی نا معلوم مچھلی کا جگر کھایا تھا جس سے انھیں اثرات ہوئے۔
پاکستان میں کند اس کے میٹھے ذائقے کی وجہ سے بہت زیادہ تعداد میں اور شوق سے کھائی جاتی ہے اور ابھی تک ان کے زہریلے ہونے کی کوئی بھی رپورٹ نہیں ہوئی ہے۔ بہر طور، علاج سے احتیاط بہتر ہے کے مصداق، 3.5 فٹ سے زیادہ لمبے یا پھر 5 سے 6 کلو وزنی کند سے زیادہ وزنی کند نہیں کھانی چاہیے، اس کے ذائقے دار ہونے کی وجہ سے اس سے متاثرہ مندرجہ بالا علاقوں میں اب بھی کند رغبت سے مگر کم تعداد میں کھائی جاتی ہے، خصوصاً بہاماس میں، جہاں سیگوٹیرا سب سے زیادہ عام ہے، تاہم وہ بس اسے ایک حد کے اندر کھاتے ہیں۔
انسانوں پر حملے
کند کے غوطہ خوروں پر حملے ریکارڈ پر ہیں لیکن اس میں قصور کند کا نہیں بلکہ انسانوں کا ہوتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں اصولوں، قوانین اور اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ سمندر سمندری مخلوقات کا علاقہ ہے، جس میں کند بھی شامل ہے۔ کند کے علاقے میں جانے سے پہلے اگر ہم کند کے مزاج کو نہیں سمجھیں گے تو نقصان اپنا ہی کریں گے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ریاستی ادارے کیلیفورنیا ڈیپارٹمنٹ آف فش اینڈ وائلڈ لائف کے مطابق کند بو سے زیادہ دیکھنے سے شکار کرتے ہیں۔ ان کی خوراک میں سلوری کلر کی مچھلیاں شامل ہوتی ہیں اس لیے کند چمک دار اشیا کی طرف راغب ہوتے ہیں، اس لیے وہ لوگ جو غوطہ خوری کے دوران چمک دار اشیا جیسے کہ گھڑی، چاقو یا زیوارات کے ساتھ سمندر میں جاتے ہیں، کند ان اشیا کو چھوٹی مچھلی سمجھ کر ان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس لیے کند کے علاقوں میں کوئی بھی چمکتی ہوئی چیز ساتھ لے کر یا پہن کر سمندر میں نہ اتریں۔ اگر آپ یہ خیال رکھیں گے تو کند کو آپ ایک سفاک قصائی کی بجائے ایک بے ضرر مچھلی پائیں گے۔
شکار کی حد
امریکی ریاست فلوریڈا کے ریاستی ادارے فلوریڈا فش اینڈ وائلڈ لائف کنزرویشن کمیشن کے مطابق عوام کے لیے فلوریڈا میں گریٹ بیراکوڈا کا ’ڈیلی بیگ لِمٹ‘ یعنی کہ روز پکڑنے کی حد فی بندہ روز 2 مچھلیاں ہیں، اور فی کشتی 6 مچھلیاں ہیں۔ فی کشتی 6 کا مطلب اگر کسی کشتی میں دس افراد ہیں تو ہر بندہ اپنے روز کی حد کے حساب سے دو، دو کر کے 20 مچھلیاں نہیں پکڑ سکتے بلکہ انھیں فی کشتی کے حساب سے ٹوٹل 6 ہی کند پکڑنے پڑیں گے۔ سائز کی حد کم از کم 15 انچ اور زیادہ سے زیادہ 36 انچ، جب کہ 36 انچ سے بڑا کند فی بندہ روز ایک کند اور فی کشتی بھی روز ایک ہی کند ہے۔
امریکا اور یورپ کے اطراف سیگوٹیرا کی وجہ سے مقبول مچھلی نہ ہونے کے باوجود بھی کند ’ان ریگولیٹڈ‘ کیٹیگری کی بجائے ’ریگولیٹڈ‘ کٹیگری میں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے سمندروں اور آبی حیات کی بقا کے لیے کتنے منظم، سنجیدہ اور فکر مند ہیں۔
کراچی کی صورت حال
کراچی سے روانہ درجنوں کشتیاں شکار پر جاتی ہیں اور بے حساب مچھلیاں، سائز اور لمٹ کے بغیر پکڑ کر لائی جاتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں مچھلیوں کے چھوٹے چھوٹے 50 گرام اور 100 گرام کے بچے بھی بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جو ہمارے آبی حیات کی بقا کے لیے حد درجے خطرناک ہے۔
متعلقہ اداروں کو اس پر نوٹس لے کر قوانین بنانے چاہئیں اور جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ ممنوعہ جالوں پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پکڑی جا رہی ہیں، اور فشری میں اس کی ڈھیر پڑی نظر آتی ہے۔ اس خلاف ورزی پر سخت سے سخت سزائیں مقرر کرنی چاہئیں، ساتھ ہی ساتھ سمندری پولیس پر مشتمل ایک ادارہ بھی بنایا جانا چاہیے تاکہ وہ ساحلوں پر مستقل گشت کرتے ہوئے ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بناتی رہیں۔
صحت بخش فوائد
کند کا استعمال اس کے پروٹین کے زیادہ مواد کی وجہ سے جسم میں پٹھوں کی تیزی سے تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باڈی بلڈر کند کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ وٹامن بی 2 سے بھرپور ہے۔ B2 ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور یہاں تک کہ بے خوابی کو روکنے کے لیے بھی کار آمد ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی موجودگی جسم میں خون کے سرخ خلیات کی پیداوار میں اضافہ کرتی ہے اور دماغی افعال کو بڑھاتی ہے۔