ایک جانب ہم اردو زبان و ادب سے بے اعتنائی اور بالخصوص نوجوان نسل کی دوری کی بات کرتے
ہیں اور دوسری طرف پچھلے دس پندرہ سال کے دوران ہم تواتر کے ساتھ ادبی کانفرنسیں اور کتب میلوں کا انعقاد بھی دیکھ رہے ہیں۔ اور یہی نہیں نئی کتابیں بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ بالخصوص ناولز، جو ادب کی ایک مشکل صنف بھی ہے۔
اس تمہید کے ساتھ اب ہم رفاقت حیات کے رولاک کی بات کریں گے۔ رفاقت حیات کا شمار موجودہ نسل کے اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ “خواہ مخواہ زندگی” اور ناول “میر واہ کی راتیں” اس سے پہلے شایع ہوچکا ہے۔ رفاقت حیات کی ان تصانیف کو ناقدین نے سراہا اور قارئین نے پسند بھی کیا۔ رفاقت صاحب ایک عرصے سے ڈراما نگاری کے میدان میں سرگرم ہیں، جو ان کی شناخت کا اہم حوالہ ہے۔ رولاک رفاقت کا ایک ضخیم ناول ہے، جو سندھ کے قصباتی ماحول، اس ماحول میں ایک ظالم باپ کے زیرِ سایہ جوان ہونے والے ایک کردار اور باپ بیٹے کے پُرپیچ رشتے کو ایک مضبوط پلاٹ کے ساتھ منظر کرتا ہے۔ اس ناول پر تبصرے اور کہانی و اسلوب پر اظہارِ خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ سترہویں عالمی اردو کانفرنس میں بھی ایک سیشن میں رولاک پر بات ہوئی، جس میں معروف فکشن نگار، صحافی اور انٹرویو کار، اقبال خورشید نے بھی ناول پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔
اقبال خورشید نے سوال اٹھایا کہ اس وقت جو رولاک ہمارے سامنے ہے، کیا اسے پڑھ کر ہم سہولت سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ رفاقت حیات کا بہترین کام ہے؟ میرے نزدیک یہ ناانصافی ہوگی۔ ہمیں اصولی طور پر یہ کہنا چاہیے کہ یہ نہ صرف رفاقت کی بہترین کاوش ہے، بلکہ گزشتہ دس برس میں حقیقت نگاری کے فریم ورک سامنے آنے والے نمایاں ناولز میں سے ایک ہے۔ گو یہ وہ روکھی پھیکی حقیقت پسندی نہیں ہے، جس میں زندگی کے حقیقی پہلوؤں، سماجی مسائل، اور انسانی رویوں کو بغیر کسی مبالغے یا تخیل کے پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تخیل کے ساتھ ساتھ مبالغے کو بہ طور ادبی ٹول کام یابی سے برتا گیا ہے۔ اقبال خورشید کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ باپ بیٹے کے تعلقات کی ترشی کو، رشتے کی شکست و ریخت کو اور سب سے بڑھ کر سندھ کے ایک قصبے کو، کیا اتنی تفصیل اور ریڈیبلیٹی کے ساتھ اردو میں، گزشتہ دو عشروں بیان کیا گیا ہے؟ انھوں نے ریڈیبلیٹی کو ناول کی اولین خوبی قرار دیتے ہوئے کہا کہ “رولاک” ناول مطالعیت کے عنصر سے بھرپور ہے، دل چسپ ہے، پڑھنا شروع کریں، تو چاہے موضوع آپ کو نہ بھائے، چاہے اعتراضات آپ کے ذہن میں ابھریں، مگر آپ اسے پڑھتے چلے جائیں گے۔ جی جناب، یہ اس کی خاصیت ہے، مگر یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ اس میں بہت زیادہ مطالعیت کا عنصر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ عنصر پیدا کیسے ہوا؟
اس کے پیچھے رفاقت حیات کی ریاضت ہے۔ یہ عنصر پیدا ہوتا ہے زبان کے تخلیقی استعمال سے، ایسی نثر سے، جو تخلیقی ہو، مگر رکاوٹوں سے پار ہو۔ اچھا، گو ناول پر منظر نگاری، یا ماجرائی ڈھب غالب ہے، جو حقیقت نگاری کا اہم وصف ہے، مگر تہ میں کہیں یہ نظریہ وجودیت کا بھی ترجمان ہے، جیسے سارتر نے کہا کہ وجود ذات سے پہلے آتا ہے، وہ اپنے اعمال اور فیصلوں کے ذریعے اپنے ذات تشکیل دیتا ہے۔ اور کامیو نے زندگی کو بے معنی ٹھہرایا اور اپنی بغاوت، آزادی اور تجربات کے ذریعے معنی تشکیل دینے پر زور دیا۔ لیکن اگر فرد ایسا نہ کرسکے تو ناکام رہتا ہے اور رفاقت کے رولاک کی طرح اضطراب، انتشار کا شکار ہو کر خود کو تباہ کر بیٹھتا ہے۔
ناول میں رولاک بار بار اپنی پیدائش پر، اپنی حیات پر گریہ کرتا ہے، اپنے ہونے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے باپ کا قتل، اپنے باپ سے انتقام تو ہے، یہ اپنے ہونے سے بھی انتقام ہے، ایک معنوں میں خود کو مٹا دینے کی خواہش۔ ناول میں رولاک کے خوابوں کا بھی ذکر ہے، فرائیڈ کے پیروکاروں کو اس نکتہ نگاہ سے کتاب کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیسے ہمارا رولاک اپنی ایگو، سپر ایگو اور اڈ کے درمیان دھکے کھاتا نظر آتا ہے۔
اقبال خورشید کے مطابق اس کے نسائی کرداروں نے بھی مجھے متوجہ کیا۔ ایک رولاک کی ماں ہے، ایک مظلوم عورت، جو اپنی مجبوری اور اس سماج کے استحصالی اسٹرکچر کے باعث آخرکار ظالم کی ہم نوا بن جاتی ہے۔ یہ ایک قابل توجہ کردار ہے، جو اپنے بے وفا، ظالم، بدکردار شوہر کا دفاع کرتے ہوئے کچھ عجیب ضرور لگے گا، مگر مشرق سے مغرب تک آپ کو ایسے کئی کردار مل جائیں گے۔ اس ناول میں آنے والی دیگر عورتیں بہ ظاہر شاطر اور مفاد پرست ہیں، مگر یہ ناول ان کی مجبوریوں کو بھی منظر کرتا ہے، جیسے لالی کا کردار۔ سیمی کا کردار، جو آخری حصے میں ظاہر ہوتا ہے، منفی اور مشکوک بھی۔ میرے خیال میں فیمسنٹ عدسے سے ناول کا جائزہ چند اہم پہلو اجاگر کر سکتا ہے۔
ناول پوسٹ مارڈن تجزیے کے بھی روشن امکانات رکھتا ہے۔ رولاک اور اس کا باپ بائنری اپوزسٹ ہیں۔ رولاک کا باپ ہمیں مرکز، جب کہ رولاک حاشیہ پر نظر آتا ہے۔ مگر جوں جوں رولاک بڑا ہوتا ہے، طاقت ور ہوتا جاتا ہے، کچھ پیسے کمانے لگتا ہے، تو یہ دائرہ سکڑنے لگتا ہے، اور یہاں تک کہ جب وہ اسے قتل کرتا ہے، وہ تو خود بھی مرکز میں آن کھڑا ہوتا ہے۔ یعنی جب وہ اپنے باپ کا خاتمہ کرتا ہے، تو کچھ حد تک خود اس کے جیسا بن جاتا ہے۔ اب وہ مرکز میں ہے، جب اس کی مظلوم ماں حاشیے پر۔….تو نکتہ یہ ہے کہ جو طاقت ور ہوتا ہے، وہ ہمیشہ مرکز میں ہوتا ہے، ایسے ہی سماج تشکیل پاتا ہے، جو طاقت ور ہوتا ہے اس کے ظالم ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں چاہے وہ رولاک کیوں نہ ہو۔
رفاقت نے اپنی تمام تر تخلیقی قوت کے ساتھ وہ کہانی سنا دی ہے، جو اس کے رگ و پے میں دوڑتی ہے، اور اس کے لیے ہم مصنّف کے شکر گزار ہیں۔