سلام ا ے ر و ح قائد
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ
میں نے صدیوں کو زندگی بخشی
تم میرا ایک دن مناتے ہو!
یعنی سوائے 25 دسمبر اور11 ستمبر کے میری قوم کو میری یاد ہی نہیں آتی
یہ بات ہرگز نہیں
جانے والے تجھے دل نے بھلایا ہی نہیں
آپ کو پتہ ہے جب بھی ملک میں کوئی اہم سیاسی، سماجی یا معاشی و معاشرتی واقعہ رونما ہوتا ہے تو بابائے قوم آپ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ آج جب ساری قوم American so-called war against Terror میں American Ally ہونے کے نتیجے میں پشاور میں نہتے اور معصوم طلبا اور اساتذہ کے سنگدلانہ قتل عام پہ نوخہ کناں ہے تو آپ کی بہت یاد آ رہی ہے یا پھر ہم نوجوان نسل بالخصوص متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے اہلِ وطن کچھ زیادہ ہی جذباتی واقعہ ہوئے ہیں کہ ما ضی میں جب ہمارے so-called representatives اور عنانِ حکومت کے مالک و مختار ، اہلِ یورپ بالخصوص امریکہ سرکار کے دربار میں حالتِ رکوع سے بھی زیادہ جھک کر کود نعش بجا لاتے تو ہماری غیرتِ قومی متاثر ہونے لگتی ۔ امریکی طیارے ہماری ملکی حدود میں آکر گولہ باری کرتے تو ہم لوگ خواہ مخواہ اپنے حکام سے امریکہ کے خلاف کسی ردِ عمل کی توقع کرتے۔ اور جب امریکی صد و رخواہ وہ “بارک اوباما” ہو یا کوئی اور، پاکستان کی سالمیت کے خلاف اسکے داخلی معاملات میں مداخلت کی دھمکی دیتے تو ہم لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے ۔ روحِ قائد کے سامنے اپنے آپ کو شرمندہ تصور کرتے کہ انکی جدوجہد کی قدر نہ کرسکے۔ لیکن ہم”بے وقوف جذباتی لوگ” عزتِ نفس کے پجاری، سابق وزیر خارجہ پاکستان خورشید رضا قصوری (وزیرِ خارجہ پاکستان) کے الفاظ میں یہ بات بالکل فراموش کردیتے کہ “ملک کو چلانے کے لیے عزتِ نفس سے زیادہ معاشی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے”۔ ( اور ہم نے تو ویسے ہی foreign aid کے عوض اپنی آزادی و قومی وقار و سا لمیت کو غیر ملکی سامراجی قوتوں کے پاس رہن رکھ چھوڑا ہے۔ اور پھر بھی self-respect کو اہم جانتے ہیں ٹھیک کہا قصوری صاحب)۔
لیکن یقین مانیئے بابائے قوم چند سال قبل “OF THE RECORD”پروگرام میں سابق پاکستانی وزیرِ خارجہ کے یہ الفاظ مجھے خون کے آنسو رُلا گئے اور آپ بہت شدت سے یاد آئے کہ جن کے نزدیک عزتِ نفس کا تحفظ اور اپنے وسائل و صلاحیت پہ اعتماد ہی کلید کامیابی تھے۔ ابھی کچھ دنوں قبل سر آپ کی ذات سے منسوب ایک واقعہ کہیں کسی کتاب میں میری نظر سے گزرا کہ جسکے مطابق قیامِ پاکستان کے بعد ایک دفعہ برطانوی crown prince یا غالباً شاہی خاندان کے کسی معتبر شخصیت کی انڈیا میں اور پاکستان میں آمد متوقع تھی وائسرائے نے قائد (آپ) کو انکے استقبال کے لیے بنفسِ نفیس آنے کی تاکید کی لیکن آپ کا جواب تھا کہ میں کوئی ایسی روایت قائم نہیں کرنا چاہتا کہ کل کو اگر میرا بھائی یا میرے خاندان سے متعلق کوئی شخص برطانیہ جائے تو ملکہ کو اسکے استقبال کے لیے کسی ایسے ہی تکلف کا سامنا ہو۔ اس واقعہ کی حقیقت کا علم تو آپ ہی کو ہوگا۔ لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ میرا قائد اپنی اور اپنی قوم کی عزتِ نفس کا نگہبان تھا۔ اور آپکی زندگی و آپکا کردار اس بات کا گواہ ہے۔ لیکن ہماری ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے حکمرانوں نے چند ہزار ڈالرز کی خاطر ہماری غیرتِ قومی کے ساتھ اپنی عزت اور خاک و خونِ وطن بیچنے سے کبھی بھی دریغ نہ کیا۔ ہم ملکی حدود میں امریکی طیاروں کی آمد اور گولہ باری پر واویلا کرتے بنا یہ جانے کہ اسکی اجازت تو خود ہمارے ہی حکام نے انہیں دی تھی ، بھرے بازاروں سے یا چلتی شاہراہوں سے فرزندانِ وطن کو صرف اسلیے اٹھا لیا جاتا کیو نکہ یا تو وہ باریش ہوتے یا پھر امریکہ بہادر کو ان پر Terrorist ہونے کا گمان ہوتا اور اہل وطن یا ان بد نصیبوں کے گھر والوں کو کانوں کان خبر دیئے بغیر راتوں رات امریکہ یا گانتاناموبے بھیج دیا جاتا اور اس کے عوض اپنی تجوریاں ڈالروں سے بھر لی جاتی۔ اور ہمیں ڈرایا جاتا کہ” اگر War against terrorism میں 9/11 کے واقعے کے بعد امریکہ کا ساتھ نہ دیا جاتا تو وہ ہمیں cave age میں واپس بھیج دیتے ” سچ بالکل سچ
ہے جرم صعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اور کتنی ذلت و رسوائی کا مقام ہے کہ اپنے اس بیان کے حق میں وہ جن امریکی حکام کا نام لیتے ہیں وہی انھیں جھٹلاتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ننگِ دنیا اور ننگِ دین ہونے کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ war against terrorism کہ جس میں ہمیں “اتحادی” ہونے کا شرف حاصل ہے۔ وہ یہود و نصاریٰ کے سنگ متحد ہو کر عالمی لیول پر مسلم کشی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔
کاش سر آپ نے اتنی جلد ہمیں بے سائبان نہ کیا ہوتا تو آج ہم سُپر پاور امریکہ کی colony بن کر وقت گزارنے کی بجائے اہلِ ایران کی طرح اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکار رہے ہوتے۔ ہمارے معاشی وسائل بائیس(22) اہم سیاسی خاندانوں میں سمٹنے کی بجائے تمام باشند گانِ پاکستان کی پہنچ میں ہوتے، محسنِ پاکستان اے ۔ کیو۔ خان کو اپنے جرمِ حب الوطنی کا اعتراف ٹی وی چینلز پرذلتِ آمیز طریقے سے نہ کرنا پڑتا اورتواورآج نونہالان پاکستان کے لیئے سرزمین پاکستان اتنی inscure نہ ہوتیٰ۔
سر! آپ کا پاکستان تو سیاسی لیڈران و حکام کے لیے صرف اور صرف کمائی کا ذریعہ ہے۔ اقتدار میں ہوں تو وہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور قتدار سے باہر ہوں تو وہ دوبئی، لندن یا امریکہ میں موجود اپنی جائیدادوں پر ملک سے لوٹی ہوئی رقم سے عیاشی کرتے ہیں۔دو، دو یا تین تین بار وزیر اعظم بننے کی خواہش کی جاتی ہے۔ ڈیل کے مطالبے کیے جاتے ہیں۔ اور اسکے لیے ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں دربارِ امریکہ میں شرفِ قدم بوسی حاصل کیا جاتا ہے تو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے جو انکے نزدیک “قومی مفاد” بھی ہیں۔ اور ہم سب کچھ دیکھتے ہیں اور نوح کناں ہیں۔ کیونکہ ہماری بربادی کے ذمہ دار اغیاد نہیں بلکہ ہمیشہ ہمارے حکام ہی رہے ہیں۔
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے
مجھے معلوم ہے سر اس وقت آپ کیا سوچ رہے ہیں یہی ناں کہ
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی نئی شمع جلاتے جاتے
تو سر ! قیام پاکستان کے بعد سے اور آپ کے جانے کے بعد سے ہر دورِ فرعون میں کوئی نہ کوئی موسیٰ ضرور رہا ہے۔ کبھی شاعروں توکبھی ادیبوں کی صورت جیسے فیض ، جالب و فراز یا قاسمی وغیرہ توکبھی سیاست میں بھٹو بھی آئے کہ جنھوں نے اپنی تمام انفرادی خوبیوں اور خامیوں کے باوجود (بالا تر ہو کر) پاکستان کو بالکل حیر ت انگیز طور پر ایک ایٹمی قوت بنا ڈالا۔ بس اسی پر موقوف نہیں عہدِ رواں بھی آیا ہے کہ جسمیں اہل حق کبھی تو صحافیوں ، کبھی میڈیا تو کبھی وکلا کے روپ میں غاصب حاکمِ وقت کے سامنے کلمہء حق ادا کرتے ریے ہیں۔ بجاکہ اہل شرکا غلبہ ہمیشہ مملکت خداداد کے باسیوں پر بھاری رہا لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکا ر ممکن نہیں کہ تزئیسن گلستان ہمارا انفرادی و اجتماعی دونوں طرح کا فرض ہے۔ ہمیں اپنی مٹی آپ مہکانی ہے اور رات کے آنچل کو سرکانا ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اور یہی آگہی نو یدِ صبح ہے۔
بجا کہ رات بھیانک ہے، بیکراں تو نہیں
عظیم وقت کی رفتا رائیگا ں تو نہیں
سنا ہے دو قدم آگے مہک رہے ہیں چمن
اسی لیے تو ہواؤں میں ہے لطیف چبھن
اسی لیے تو اندھیروں میں پڑ رہی ہے شکن
اسی لیے تو قدم تیز تیز اٹھتے ہیں
طلسمِ شبا کا یہی توڑ ہے، قدم نہ رکیں
اندھیرے ٹوٹ کے برسیں مگر یہ سر نہ جھکیں
نجوم بجھتے رہیں، تیرگی اُمڈتی رہے
سحر کا توڑ کسی ذی نفس کے پاس نہیں
یہ محض میری خوش فہمی یا (optimism exessive) نہیں بلکہ سچ ہے ایسا سچ جسکی گواہی حالات دے رہے ہیں۔ مانا کہ مشکلات و آزمائش کا زور بڑھ رہا ہے، لیکن مدِ مقابل کی جفا کسی طور بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں اور یہی جفا کوششِ پیہم بن کر اجالے لائے گی اور وہ دن بابائے قوم ہمارے ساتھ ساتھ انشا اللہ آپ بھی دیکھیں گے۔ (انشااللہ)