The news is by your side.

عام آدمی کے مسائل کا ذمہ دارکون

بین الاقوامی تعلقات کو بحیثت مضمون پڑھا جائے تو اس میں بنیادی نظریات میں سے ایک نظریہ ’رئیلزم‘ ہے جس کے مطابق انسان قدرتی طورپرمفاد پرست ہے اور چوں کہ ریاستوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لئے پالیسیاں بھی انسان بناتا ہے اس لئے اس نظریہ کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے اس بات کے برعکس کہ ان ترجیحات سے بین الاقوامی سطح یا خطے پرکیا اثرات مرتب ہوں گے لیکن اگردیکھا جائے تو انفرادی حیثیت سے لے کرکمیونٹی، معاشرے یا قوم اور بین الاقوامی برادری تک میں ہر کوئی اس بات کا ڈھونگ رچاتا نظرآئے گا کہ ہم انسانیت اور مذہب کے خیر خواہ ہیں جبکہ کہ حقیقت اس کے برعکس تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہے۔

اگر اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پاکستان کی 67 سالہ تاریخ کو سامنے رکھیں تو اسی ڈرامے کو دہرانے والے سب سے بڑے تین کردار آپ کے سامنے آئیں گے جن میں منفی سیاست کو فروغ دینے والے خبر رساں ادارے ،سیاست داں اور مذہبی رہنماء شامل ہیں جو اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے انسانوں اور ان کے ہر طرح کے جذبات کے ساتھ کھیل کر اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے ہر حد تک جاتے ہیں ہیں جس کے نتیجے میں وہ سب حالات پیدا ہوتے ہیں جن سے ہم بحیثیت قوم آج کل گزر رہے ہیں۔

میں ذرائع ابلاغ عامہ کا طالب علم ہوں اور یقیناًمیرا تجربہ بہت سے معاملات میں کم ہوگا تاہم اب تک جو مشاہدہ میں نے کیا وہ یہ ہے کہ مہنگے کپڑے پہنے گاڑی میں بیٹھا شخص کبھی بھی سڑک پرچلنے والے عام آدمی کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ وہ اس زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے جو سڑک پرہے میں ان بڑے صحافیوں، سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو صرف ایک تجویز دینا چاہوں گا کہ اپنی زندگی میں سے کچھ وقت فٹ پاتھ کے لئے مختص کریں تاکہ آپ لوگوں کو اندازہ ہو کہ عوام کن مسائل سے دوچار ہے کیوں کے سڑک کنارے بیٹھے ایک پریشان حال انسان کی زندگی کو جب تک آپ اسی کے انداز میں محسوس نہیں کریں گے آپ اس کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے اور جب تک آپ ایسا کرنہیں کرسکتے تب تک بڑی بڑی باتیں کرنے اور جھوٹی ہمدردیاں دکھانے سے گریز کریں۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مسائل کا حل ہے کیا؟ کچھ عرصہ قبل تک مجھے یہ لگتا تھا کہ اس ملک میں انقلاب آہی نہیں سکتا کیوں کہ ہمارے معاشرے میں سوچ کا فقدان ہے اس لئے انقلاب لانے کا واحد حل شاید تعلیمی اصلاحات لا کر نظام تعلیم کو بہتر کرنے سے ممکن ہے کیوں کہ جب تعلیم کے ذریعے لوگ دائرے سے باہرنکل کر سوچنا شروع کریں گے تو اس سے معاشرے پر کئی مثبت اثرات مرتب ہوں گے لیکن اب مجھے یہ سوچ اس لئے ٹھیک نہیں لگتی کیوں کہ اس ملک میں عام آدمی کو اس کے حقوق اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک یہ سیاسی مذہبی ،سیاسی اور صحافتی ٹھیکیدارعام لوگوں کی نفسیات سے کھیلنا بند نہیں کریں گے کیوں کہ سوچ کو مثبت انداز میں پنپنے نہ دینے کے ذمہ داریہی لوگ ہیں اور اس وقت تک عام آدمی کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے وہ پستا رہے گا۔