The news is by your side.

گوانتاناموبے کا سب سے کم عمر قیدی – عمرخضر؟

ٹورونٹو میں پیدا ہونے والا عمرکھدرکون ہے؟ امریکی گوانتاناموبے قید میں سب سے کم عمرقیدی کے ماضی کا تو سب کو علم ہے لیکن اس کا مستقبل کیا ہے؟ آیئے یہ اسی کی زبانی جانتے ہیں۔

کینیڈا کے میڈیا اور عوام اسے عمر کھدر کہتے ہیں جبکہ اصل نام عمرخضر ہے۔ گوانتانامو بے کے سابق قیدی کینیڈین شہری عمر کھدر (خضر) کو کینیڈا کے جج نے ضمانت پررہا کر دیا اور اب وہ کھلی فضا میں سانس لے سکتا ہے۔ آزادی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ ’’مجھے احساس ہورہا ہے کہ آزادی کہیں بہتر ہے‘‘ اب میں کینیڈا کی عوام کے سامنے اپنے آپ کو اچھا انسان ثابت کرنے کا عزم لے کرباہر آیا ہوں۔

اس کاکہنا تھا کہ ’’میں انتہا پسندی کی سوچ کو ترک کرچکا ہوں اورامید کرتا ہوں کہ دیگر لوگ اس راستے کی پیروی نہیں کریں گے جو کہ اس نے نے پندرہ سال قبل ایک کچے ذہن کے ساتھ اپنایا تھا‘‘ ۔ واضح رہے کہ عمر پر افغانستان میں ایک امریکی فوجی کو قتل کرنے کا الزام تھا جس پرایک امریکی عدالت نے اسے چالیس سال قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد میں کم کرکے آٹھ برس کردیا گیا تھا۔

اگرچہ کینیڈا کی موجودہ حکومت اس فیصلہ کے حق میں نہیں تھی کہ اسے ضمانت پررہا کیا جائے لیکن کیا کیا جائے کہ عدالت کے جج نے اپنا فیصلہ سنادیا ’’جناب خضر صاحب آپ آزاد ہیں ‘‘۔ کمرہٗ عدالت میں موجوداٹھائیس سالہ عمر کا چہرہ جج کے یہ الفاظ سن کرایک دم کھِل سا گیا۔

عمرکھدر ایک دہائی سے زیادہ کینیڈا کے شہریوں کے لئے بس ایک نام اورایک پرانی سی تصویر کے طور پرذہنوں پر نقش رہا لیکن اب ٹی وی اسکرین پرمسکراتا ہوا شخص کینیڈا کے عوام کا مشکوروممنون دکھائی دیا۔ سیاہ رنگ کی کی اسپورٹ شرٹ میں ملبوس یہ کوئی اورہی عمر تھا جس نے انتہائی تحمل سے خوبصورت الفاط کے چناؤاور عمدہ انگریزی میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیا اوراس دوران اس کے چہرے پرمستقل مسکراہٹ اوراعتماد دکھائی دیا۔

اس نے متعدد بار اپنے بیان میں کینیڈا کے عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ نے مجھے موقع دیا اب میں یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ میں ایک بہتر انسان ہوں۔ ایک صحافی نے جب عمر سے پوچھا کہ کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہارپر نے پوری کوشش کی کہ وہ باہر نہ آسکیں آپ ان کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے تو عمر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میری جانب سے اب انہیں مایوس ہونا ہوگا کیونکہ جیسا وہ سوچتے ہیں میں ویسا نہیں ہوں۔

عمرکھدرنے جنگ میں متاثرہ خاندانوں سے معذرت کرتے ہوئے ان کو پہنچائی گئی گزند پرمعذرت کا اظہارکیااور اس موقع پردوسرے نوجوانوں کومشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے جذبات پرکنٹرول رکھیں، تعلیم حاصل کریں اورکسی کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہی نوجوانوں با آسانی انتہا پسندوں کے جہادی بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ عمرنے کہا کہ ماضی گزرچکا ہے اورمیں اس بارے کچھ نہیں کرسکتا۔ اب مجھے اپنے حال اورمستقبل پر توجہ دینی ہے۔

عمر کھدر تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحت کے شعبے کو پیشے کے طور پراختیار کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے زندگی میں بہت درد و تکالیف کا سامنا کیا ہے اس لئے اب میں ان لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں جو کہ اس درد سے گزرتے ہیں اور اس کے لئے صحت کا شعبہ اپنانے کا سوچا ہے۔ وہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنے پر پوری توجہ دیں گے اورپھرکچھ بن کردکھائیں گے۔ اس موقع پر عمرنے اپنے وکیل کا شکریہ ادا کیااور کہا کہ گیارہ سال تک انہوں نے میرا ساتھ دیا اور مجھے خود حیرت ہے کہ یہ مجھ سے اب تک بیزار نہیں ہوئے۔

آخرمیں عمرکا یہی کہنا تھا کہ زندگی نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے لیکن مجھے اب بہت کچھ اورسیکھنا ہوگا، یہ میری ایک نئی زندگی کاآغاز ہے اورمیں بہت خوش ہوں۔

قارئین سوچنے کا مقام ہے کہ کچے ذہنوں کے نوجوانوں کو جنت اورحوروں کی ترغیب دے کر کس طرح بہکایا جارہا ہے لیکن کیا اس میں ہمارے نظامِ تعلیم کا قصورنہیں؟ یا پھرہمارا کوئی نظامِ تعلیم سرے سے ہی نہیں ہے؟۔

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ہی دنیا کی امن و سلامتی کی نوید ہے۔ دیراب بھی نہیں ہوئی، آیئے علم وآگہی کے پروانے بن کرعلم کی شمعیں روشن کریں، زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب، علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب۔

Print Friendly, PDF & Email