The news is by your side.

پاناماہنگامہ آخر گتھی کیسے سلجھے گی

پاناما نے ایسا ہنگامہ کھڑا کیا کہ پاکستان میں ابھی تک اس اہم ترین مسئلے کی گتھی سلجھنے کا نام نہیں لے رہی حکومتی کوششوں کے باوجود اپوزیشن پاناما پیپرزکی تحقیقات سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی اپوزیشن میں شامل مختلف الخیال جماعتیں کسی اور معاملے پر تو ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں مگر پانامانے ان جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں میں اہم کر دار ادا کیا، وہ جماعتیں جو ایک سال پہلے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان تھیں اج ایک بولی بول رہی ہیں۔ جب پاناما کی دھول اٹھی تو وزیراعظم نواز شریف نہ صرف قوم سے خطاب کیا بلکہ پارلیمنٹ میں میں دیدار کرا کر اپنے اپ کو اس معاملے سے دور کرانے کی کوششیں کرتے نظر آئے مگر اپوزیشن ہے کہ وزیراعظم کو اس معاملے سے نکلنے کا موقع ضائع نہیں جانے دے رہی حکومت نے بھی اپوزیشن کے بدلتے تیور دیکھے تو مذاکرات کی ٹیبل سجائی گئی اوراتفاق یہی ہوا کہ پاناما کے معاملے پر تحقیقات کرائی جائیں۔

ایک طرف حکومت نے تحقیقات کی حامی بھری تو دوسری جانب تحقیقات کے لیے اپنے من پسند ٹی او آرز چیف جسٹس کو بھیج دیئے، چیف جسٹس سپریم نے ان ٹی او آرز کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ ان تحقیقات کے لیے شاید ایک اور نسل گزر جائے، حکومت کو مجبوراً واپس اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے اور اتفاق یہ ہوا کہ مشترکہ ٹی اورآرز تشکیل دیئے جائیں بالاخرحکومت اپوزیشن مذاکرات میں پاناما پیپرز، آف شور کمپنیوں ،قرضوں کی معافی اور کک بیکس اور کمیشن کی تحقیقات پراتفاق ہوا۔

حکومت نے اپوزیشن کو تحقیقات کے ایک نئے دائرے میں گھیرتو لیا مگر یہ ایک ایسی گتھی تھی جس کو سلجھانا یقیناً بڑا مشکل تھا۔ خدا خدا کر کر کے حکومت اور اپوزیشن مشترکہ ٹی اوآرز کی تشکیل کے لیے بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر رضا مند ہوئے۔ کمیٹی کی تین بیٹھکیں ہوئیں مگر ان تینوں بیٹھکوں میں حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے ٹی او آرز پر بضد رہے، حکومت وہی ٹی او آرز میدان میں لے ائی جنہیں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا جبکہ اپوزیشن اس حد تک حکومت کو لچک دینے کے لیے تیار ہوئی کہ وزیراعظم نواز شریف کا نام اورجلاوطنی کے دوران سعودی عرب میں ملنے والے تحائف اور اور مراعات سے متعلق دو نکات واپس لینے کو مشروط تیار ہوئی اپوزیشن کی شرط یہ تھی کہ اپوزیشن کے باقی تیرہ نکات تسلیم کیے جائیں اور حکومتی ٹی اوآرز کو نئے ٹی او ارز کا حصہ نہ بنایا جائے۔

حکومت اوراپوزیشن کے بارہ ارکان اس اہم معاملے پرگھنٹوں سرجوڑ کر بیٹھتے تو ہیں مگر اجلاس ختم ہو نے کے بعد دو نوں اطراف سے ایسا تاثر ایسا ملتا ہے کہ یہ نشت بھی نشستند ،گفتند اور برخاستند کے سوا کوئی نتیجہ سامنے نہیں لائی، حکومت کے لیے یہ ہضم کرنا مشکل ہے کہ تحقیقات کی ابتداء وزیراعظم سے ہو مگر اپوزیشن یہ بات سمجھ چکی ہے کہ وزیراعظم کا نام نکل بھی جائے تو بھی وزیراعظم اس گھیرے سے باہرنکل نہیں پائیں گے کیونکہ جب تحقیقات کا دائرہ وسیع ہو گا اور وزیراعظم کے بچوں تک بات جائے گی تو یقینی طور پرکھرا وزیراعظم نواز شریف کے گھر تک ہی پہنچے گا مگر اپوزیشن یہ بھی چاہتی ہے کہ تحقیقات کا دائرہ اس حد تک وسیع نہ کیا جائے کہ بات سالوں تک جائے۔

اپوزیشن وزیراعظم نواز شریف کو جلد سے جلد گھیرنا چاہتی ہے دوسری جانب حکومت میں بھی شاطر قسم کے وزراء اپوزیشن کے اس جھانسے کو خوب سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹی او آرز سے متعلق ابھی تک بات آگے ہی نہ بڑھ سکی، پیرکو دوبارہ ایک اور نشست تو ہو گی مگر اپوزیشن نے بال حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ حکومت کی جانب سے کس حد تک لچک سامنے آتی ہے ان مذاکرات کے مستقبل کا دارو مداراب حکومت کے رویے یا فیصلوں پر ہوگا۔ حکومت کی کمیٹی میں وزیرقانون زاہد حامد جیسی ایک ایسی کہنہ مشق شخصیت بھی موجود ہے جو ماضی میں پرویز مشرف دور میں این ار او کی نوک پلک بھی سنوارتے رہے اور انہی کی یہ نوک پلک تھی کہ وہی این ار او پرویز مشرف کا سیاسی سر بھی لے گیا۔ اب زاہد حامد اس پاناما ہنگامہ میں کیا گل کھلاتے ہیں یہ بھی وقت ہی بتائے گا۔

اس وقت نظریں ان بارہ ارکان کے دماغوں پر لگی ہیں کہ وہ اس معاملے کو کس کروٹ بٹھاتے ہیں ان بارہ دماغوں میں مختلف جماعتوں کی مختلف سوچ بھی چھپی ہوئی ہے اپوزیشن میں یکسوئی بظاہر نظر تو آرہی ہے مگر ان جماعتوں کو بعض ایسی مجبور یوں نے بھی گھیر رکھا ہے کہ یکسوئی کے باوجود ان کا ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہی رہا ہے۔ اپوزیشن نے سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے پاناما کے ہنگامے کو پکڑ تو لیا ہے مگر اگر یہ وار بھی خطا گیاتو اپوزیشن کے پاس حکومت کو گھیرنے کے لیے فی الحال کو نیا ایشو بظاہر نظر نہیں آرہا۔

نواز حکومت اپنا چوتھا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے ایک سال بعد الیکشن کی رونق شروع ہو جائے گی اور اگر نواز حکومت اپنے دعووں کے تحت دو ہزاراٹھارہ تک انرجی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی تو یقیناًاپوزیشن کے اگلے الیکشن مین مشکلات پیش آسکتی ہیں مگر قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ پاناما کی تحیقات کیا گل کھلاتی ہیں اور حکومت اپوزیشن کس حد تک ان تحقیقات کے لیئے سنجیدہ ہیں کیونکہ بظاہر تو اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ ٹی او آرز کمیٹی کب تک عوام کو اپنے جذبات اور الفاظ کے ہیر پھیر سے بے وقوف بناتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر بظاہر لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کسی ایک نکتے پر آگے جا کر متفق ہو سکتے ہیں کیونکہ دونوں کو پتہ ہے کہ جب تحقیات میں ملک ٹوٹنے کے ذمے دار گرفت میں نہ آسکے تو پاناما کے الزمات ان کا کیا بگاڑیں گے مگر دوسری جانب اپوزیشن میں بعض ایسی جماتیں بھی ہیں جو میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر سیاسی ماحول گدلا کر نے کی ضرور کوشش کریں گیں کیونکہ افرا تفری ہی ان کی سیاست کو زندہ رکھنے کا ایک واحد ذریعہ ہو گی یعنی پاناما کا معاملہ حل ہو یا نہ ہو حکومت اور اپو ایشن کو وقت گزاری کا اہم عنصر ضرور ہاتھ لگ گیا ہے۔