The news is by your side.

لٹ گئے ہم ’موصوف‘ کے لٹ جانے پر

گزشتہ روز پا پیادہ چلتے ہوے ایک انتہائی  قابل احترام دوست سے ملاقات ہوگئی موصوف سے احوال دریافت کیا تو کہنے لگے مت پوچھیے، تبھی میں بضد ہوگیااوراحوال بتلانے پرآمادہ کرلیا تو موصوف نے فرمایا ’’میں کچھ دن قبل دوپہرکھانا کھانے دوکان سے گھرپہنچاتو معلوم ہوا کہ چارعدد ڈاکوگھرمیں لوٹ مار کرکے فرار ہورہے تھے اور مجھے داخل ہوتا دیکھ کر رک گئےجبکہ میں ان کو دیکھ کرٹھٹھک گیا۔ اچانک ایک ڈاکو میرے قریب آیا اور کہنے لگا کہ ’’اپنے ہاتھ اوپر کرو‘‘۔

میں نے بغیر تاخیر کیے اپنے ہاتھ اوپر کردیے،پھر کہنے لگا کہ ہم نے اس گھر کا سارا قیمتی سامان لوٹ لیاہے تم بھی نکالو جو کچھ جیب میں ہے تو میں نے جلدی سے اپنا فون نکال کر ان کے حوالے کردیا۔ تمام ڈاکو باہر سے دروازہ بند کر کے چلتے بنے، پہلے تو دکھ اور صدمےکی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کیا جائے مگر جب حواس بحال ہوئے تو سوچا کہ پولیس اسٹیشن جا کر رپورٹَ درج کرادی جائے مگر پھر خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ ڈاکوسم کا ناجائزاستعمال کریں تو کیوں نہ بند ہی کروا دی جائے جب میں فرنچائز پہنچا تو اوسان خطا ہو گے ،وہاں بھی قیامت کا سماں بنا ہو تھا چند ڈاکو فرنچایز لٹنے میں مصروف تھے، میں جیسے ہی داخل ہوا تو ایک ڈاکومیرے دائیں جانب سے آیا اور کہنے لگا کہ ’’نکالو جو کچھ تمہارے پاس ہے‘‘۔

تو میں نے عرض کی جناب میرے پاس ایک سو روپیہ ہے تو ڈاکو کوغصہ آ گیا اور مجھے مارنا شروع کردیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ تھک گیا، تب تک باقی ڈاکودوکان سمیت سب کو لوٹ چکے تھے جانے سے قبل ڈاکو نے میری جیب سے پیسے بھی نکال لیے۔ اس موقع پر تو میرے دکھوں کا مدعاوا کسی صورت بھی نہیں ہو سکتا ۔ جب قیمتی زیورات لوٹے جا رہے تھے تو کسی نے کچھ نا کہا اور جب ایک سو روپے کی باری آئی تو درگت بنانے کی انتہا کر دی‘‘۔ میں نے اظہار افسوس کیا اور کہا میاں اب کیاکرسکتے ہیں۔۔۔۔اور مزید تعزیت بھرے جملے بول کراپنے دفتر کی راہ لی،جوں ہی دفتر کے قریب پہنچھا تو موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان میرے پاس آ کر رکے اور پستول نکال کر مجھ پر تان دی اور بولے’’موبائل نکالواور اگر شورمچایا تو گولی مار دوں گا‘‘۔

تبھی میرے ذہن میں موصوف کی سنائی ہوئی کہانی تازہ ہوگئی اور میں نے کچھ بنا سوچے موبائل ان کے حوالے کردیا جس کے بعد وہ فرارہو گئے۔ کچھ لمحے بعد ہوش آیا تو سوچا کہ موصوف سے سرزد ہونے والی غلطی دہرائے بنا پولیس اسٹیشن جا کر رپورٹ درج کروای جائےاس سے پہلے کہ سم کا غلط استعمال کیا جائےاوردوسری جانب قانونی فریضہ سرانجام دیا جائے۔

جب پولیس اسٹیشن پہنچا تو وہاں ایک صاحب میری طرح اپنا موبائل چھن جانے کی رپورٹ درج کرانے کی تگ و دو میں مصروف تھے مگر محرر صاحب اس شخص سے  طرح طرح کے سوال کر کے رپورٹ درج کرانے سے ٹال  رے تھے۔آخر کا ر وہ صاحب بنا کوئی قانونی کاروائی کروائے وہاں سے چل دیے۔جب میری باری آئی تو میں نے سرکارکو سارا قصہ سنایا تو سرکار نے میرے ساتھ بھی وہی رویا اپنایا تومیں بھی وہاں سے’’چلتے بنو‘‘ کی سوچنے لگا مگر جوں ہی قدم اٹھایا تو سرکار نے آواز دی جناب بات یہ ہے کہ ہمیں سخت احکامات دیے گئے ہیں کہ کرائم گراف کو کم کرنے کے لیے کم سے کم رپورٹ درج کی جائیں اگر آپ حقیقتاً رپورٹ درج کرانا چاہتے ہیں تومیں آپ کی مدد کر سکتا ہوں کیوں کہ ہمارا تو کام ہی لوگوں کی مدد کرنا ہے
تو ایک لمحہ کے لیے میں نے سم کے غلط استعمال ہونے کے بعد اپنے خلاف ہونے والی کاروائی کے بارے میں سوچا اور اس سے بچنے کے لیے حامی بھر لی۔ جوں ہی سرکار سے پوچھا کہ مجھے کیا کرنا ہو گا تو سرکار نے دھڑلے سے فوری کہا کہ ’’قانونی کاروائی کی مد میں ہونے والے خرچ کی رقم مجھے دے دیں میں صاحب سے کہہ کر اپکی رپورٹ درج کرا دیتا ہوں‘‘، تو میں نے پوچھا ’’کتنے روپے تو موصوف نے فرمایا کہ ’’فقط ایک ہزار روپے‘‘۔ میں نے اگلے ہی لمحے رقم ان کے حوالے کردی۔ جس کے بعد سرکار نے بغیر کسی سوال کے خود ہی قصہ بنا کر رپورٹ درج کردی اور میں اطمینان کی کیفیت سے واپس چل پڑا۔ ابھی چند قدم ہی طے کیے تو ذہن میں خیال آیا کہ جن’’موصوف سے‘‘ میں صبح ملا ان کے لٹنے میں اور میرے لٹنے میں کچھ زیادہ فرق نہیں بس یہ کہ دو جگہ لٹ گئے مار بھی کھائی جبکہ میں ایک جگہ لٹنے کے بعد بغیرمارکھائے ’’سرکار‘‘کے محفوظ ہاتھوں میں جاکر باعزت طریقے سے بھرپور اطمینان کے ساتھ دوبارہ لٹ گیا۔

Print Friendly, PDF & Email