The news is by your side.

غیرت کا گلاگھونٹ دیجیے

فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کا قتل مختصر عرصہ کے لیے شہ سرخیوں میں رہنے کے بعد آہستہ آہستہ قصہ ماضی بن جائے گا مگر قندیل بلوچ کا کردار طویل عرصہ تک اس معاشرے میں ایک استعارے کے طورپرزندہ رہے گا جسے سماج میں جاری مختلف تحاریک اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال میں لائیں گی۔

ڈیره غازی خان کے نواحی علاقے شاه صدردین کی ماہڑہ فیملی میں پیدا ہوئی، والدین دیہاتی تھے اور مالی حالات کمزور، عاشق حسین سے شادی کردی، ایک بیٹا پیدا ہوا. خواب بلند تھے، تعلیم، بڑا گھر، گاڑی اور بینک بیلنس چاہیے تھا- ہرقیمت پر. اس پرمستزاد یہ کہ خاوند ناپسند تها اورتشدد کرتا تھا۔ بغاوت کی، خلع لیا، ملتان کے دارالامان پہنچی، تعلیم کا سلسلہ آگے بڑهایا، مختلف نوعیت کی پرائیویٹ جابزکیں، بیرون ملک دورے کیے، شوبز میں انٹری کی ہر ممکن کوشش کی، بھانت بھانت کے لوگوں سے واسطہ پڑا، مال اوردل رکھنے والوں نے استحصال کی کوشش بھی کی۔

پھراس نے نام تبدیل کیا اورسوشل میڈیا پر انتہائی متنازعہ ویڈیوز پوسٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا، مفتی عبدالقوی صاحب سے ملاقات کے بعد میڈیا نے اسے دھرلیا، مفادات مشترک ہوں تو خوب گاڑی چھنتی ہے. اسے شہرت چاہیے تهی اور میڈیا کو ریٹنگ. اس نے کوئی کوئی شو نہ چهوڑا اورگنتی کے چند چینلوں کے سوا اسے بھی کسی چینل نے نظرانداز نہیں کیا۔

عید کے بعد اس کا فحاشی کی انتہاوں کو چھوتا ہوا ویڈیو گانا ریلیز ہوا اورپھرچند دن بعد اطلاع آئی کہ قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے گلا دبا کرقتل کردیا ہے. لوکل و انٹرنیشنل میڈیا چیخ اٹھا کہ پاکستان میں غیرت کے نام پرایک اورقتل ہوگیا.

بالخصوص انڈین میڈیا نے اسے بریکنگ نیوز کے طورپرچلایا اورغیرت کے نام پرقتل کو پاکستان کے ساتھ منسلک کرکے خوب بغض نکالا. سوشل میڈیا پراس کے مخالفین کی اکثریت کے منہ بند ہو گئے اوراس کی مغفرت کے لیے دعائیہ کلمات شئیرہونے لگے. قاتل پکڑا گیا، پریس کانفرنس ہو گئی، تفتیش شروع ہوگئی، جنازہ ہوگیا، تدفین ہوگئی، اللہ اللہ خیر صلیٰ۔

اب ہر طرف یہی تبصرے سننے کو مل رہے ہیں کہ

قندیل جیسی بھی تهی مگر قتل کیے جانے کی مستحق ہرگز نہ تھی
اس کے بھائی نے یہ قتل کرکے جہالت کا ثبوت دیا
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل بند کرو
ہم کب عملا اکیسویں صدی میں داخل ہوں گے؟
کیا ہمارا دین اس قتل کی اجازت دیتا ہے؟
قندیل بلوچ شہید ہے. یعنی کہ شہید اخروی

لیکن کوئی اس کے قاتل بھائی کی بات نہیں کرتا، کوئی اس کی مجبوری کو اجاگر نہیں کرتا کہ محنت مزدوری کرکے کمانے والے بهائی کو کیا آن پڑی تهی کہ اپنی ہی بہن کا گلا گھونٹ دیا، وہ کہتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کردیا، کوئی پچهتاوا نہیں۔

آئیے ذرا غیرت پر روشنی ڈالتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لبرل سماج اور قانون کیسے اس غیرت کا گلا گهونٹتا ہے جس کے ردعمل میں غیرت کے نام پر قتل ہوتا ہے۔

ہر سماج میں معاشرتی اقدار مختلف عوامل کے زیر اثرصدیوں میں تخلیق پاتی ہیں اور نہایت آہستگی کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرتی رہتی ہیں. ان عوامل میں مذہب اور قدیم تہذیبوں کا اختلاط کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بالخصوص پاکستان میں آج بھی مذہب اسلام کا ہماری اقدار پر گہرا اثر ہے۔

یہ معاشرتی اقدار کیا ہیں؟۔

1. عورتوں کا سر پر دوپٹہ رکھنا اور پردہ کرنا (پردے کی حد اور طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر عورت کے پردہ کرنے پر تمام مکاتب فکر متفق ہیں)
2. مردوں کی عورتوں پر تاک جھانک کو معیوب گرداننا
(اگر کوئی مرد اس قبیح فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ اسکا ذاتی فعل ہے. ہمارا معاشرہ آج بھی تاک جهانک کرنے والے مردوں کو شریف کہنے سے کتراتا ہے)
3. مرد و زن کے اختلاط سے بچنا اور شادی کے بغیر صنف مخالف سے تعلقات کو نہایت برا سمجهنا
4. شادی بیاه پر بھی خواتین و حضرات کے لیے الگ الگ بندوبست کرنا
5. بیٹیوں بہووں بیویوں کا گھر کے سربراه کی اجازت سے باہر جانا
6. بیٹوں بیٹیوں کی شادیوں کے فیصلے گھر کے سربراه کی مرضی سے ہونا
7. بیویوں کا خاوندوں کے اور اولاد کا باپ کے حلقہ فرمانبرداری میں ہونا
اور دیگر ہماری اسلامی معاشرتی اقدار ہیں جو چند بڑے شہر چهوڑ کر پاکستان کے طول و عرض میں معمولی تغیر و تبدل کے ساتھ آج بهی اپنی اصل صورت میں رائج ہیں اور یہی روایات پاکستان کے مضبوط خاندانی نظام کی روح ہیں جس پر سارا سماج کهڑا ہے۔

ان معاشرتی اقدارکے کچھ منفی پہلو بهی ہیں جیسے اپنی اولاد کے نکاح ان کی پسند کے خلاف طے کردینا اور کچھ تضادات و دوہرے معیارات بھی ہیں جیسے بیٹی کا سکینڈل سامنے آئے تو غیرت خطرے میں، جبکہ بیٹے کا قصہ منظرعام پر آئے تو جوان ہونے کی نشانی۔

تعلیم اور آگہی مہمات کے ذریعے یہ نقائص دور کیے جا سکتے ہیں لیکن ہمیں ماننا ہوگا کہ ہماری یہی روایات خاندانی نظام کو بچائے ہوئے ہیں۔

اگربغورجائزہ لیں تو ان اقدار کا ایک بنیادی جزو یہ ہے کہ ہرمرد گھرکی عورتوں کو اپنی عزت سمجهتا ہے اوران پر آنچ آنے کی صورت میں بھڑک اٹهتا ہے، اسی جذبے کا نام غیرت ہے اوراس غیرت کے مختلف درجے ہیں جو ہرعلاقے اور ہر گھرانے میں مختلف ہیں۔

درجہ اول:

جیسے ایک انتہائی لبرل شخص کو اس کی بیٹی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈالے کسی شاپنگ مال میں گھومتی ملے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا (جیسے شوبز کے لوگ) لیکن اگر وہ اپنی بیٹی کو اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھ لے تو برداشت نہ کر پائے گا.

درجہ دوم:

ایک مناسب درجے کا روشن خیال باپ اپنی بیٹی کو کلاس فیلو یا کولیگ کے ساتھ فون پر بات چیت کرتے یا ہوٹل میں اکھٹے کھانا کهاتے برداشت کرلے گا مگر بیٹی کا ہاتھ پکڑنا شاید گوارا نہ کرے.

درجہ سوم:

ایک قدامت پسند شخص اپنی بیٹی کو زیادہ پردہ کرنے پر مجبور نہیں کرے گا. گهر میں اپنے دوستوں کے سامنے بغیر حجاب کے آنے سے بھی نہیں روکے گا مگر کسی غیر مرد سے بات چیت کبھی برداشت نہیں کرے گا.

درجہ چہارم:

ایک مذہبی شخص اپنی بیٹی کو مکمل پردہ کروائے گا اور اس بات کو سخت ناپسند کرے گا اگر اسکی بیٹی کو غیر مرد دیکھ لے بلکہ بغیر سخت ضرورت کے اپنی بیٹی کا نام تک کسی کو بتانا مناسب نہیں سمجهے گا.

یہ وہ درجے ہیں جو ہمارے معاشرے میں عملاً موجود ہیں اور ہردرجے سے تعلق رکھنے والا شخص اپنے جیسے لوگوں میں اٹھتا بیٹھا ہے اور اس کے متعلقین کی غیرت کا معیاربھی عموماً وہی ہوتا ہے جو اس کا اپنا ہوتا ہے. اس لیے جب کبھی اس کے گهر کی بیٹی ایسا قدم اٹهائے جو اسکی غیرت کے منافی ہو تو متعلقین اس کا جینا حرام کردیتے ہیں.

پاکستانی قانون عورتوں کو عاقل بالغ ہونے کے بعد مکمل آزادی دیتا ہے جیسے

مرضی سے نکاح کرنا
کیرئیر کیلیے من پسند شعبے کا انتخاب کرنا
بوائے فرینڈ سے بات چیت کرنا
ڈیٹنگ کرنا وغیرہ. (زنا بالرضا اور زنا بالجبر البتہ قابل تعزیر ہیں)

ہمارا کوئی قانون بالغ لڑکی کو بوائے فرینڈ سے بات چیت کرنے، اس کے ساتھ ہوٹلنگ کرنے، ساتھ تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے، والدین کے علم میں لائے بغیر نکاح کرنے یا شوبز میں جانے سے نہیں روکتا. اگر بیٹی اپنی خواہش ہونے کے باوجود والدین کے روکنے پر رک جائے تو اس کے پیش نظر تین باتیں ہوتی ہیں؛

والدین سے محبت اوران کا احترام
خاندانی اقداراوران کی حرمت
مذہبی تعلیمات اورخوف خدا

لیکن اگر وہ ان تینوں بندشوں سے آزاد ہو کر اہلخانہ کی عزت کا جنازہ نکالنے پر تل جائے تو سگے ماں باپ بھی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے روک نہیں سکتے. مثلاً ایک استاد نہیں چاہتا کہ اس کی بیٹی شوبز میں جائے کیونکہ وہ اس شعبے کو شرعاً گناه، اپنی خاندانی اقدار کے منافی اور غیرت کا مسئلہ سمجهتا ہے. دوسری طرف بیٹی بضد ہے کہ وہ نیم برہنہ ہوکرماڈلنگ کرے گی، رقص کرے گی، موسیقی کی آنچ پر نامحرم مردوں کی بانہوں میں جهولے گی خواه ابا کے شاگرد اور کولیگ اسکول میں ابا کا جینا حرام ہی کیوں نہ کر دیں.
ابا منتیں کرتے ہیں.
قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں.
اپنی خاندانی شرافت و نجابت کے واسطے دیتے ہیں مگر بیٹی انکار کر دیتی ہے.
اب ابا کیا کریں؟
بزور طاقت اسے گهر میں قید کر دیں یا کوئی اور سبیل نکالیں تو وہ عمل خلاف قانون ہو گا.
اگر اسے جانے دیں تو لوگوں کے طعنوں کے خوف سے خود گهر میں قید ہونا پڑے گا.
جائیں تو کدھر جائیں؟

اس مقام پر ہمیں قانون اور معاشرتی اقدار کا تصادم نظر آتا ہے یعنی معاشرتی اقدار و مذہبی تعلیمات جس کام کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں اسی کام کو کرنے کیلیے قانون کھلی چهٹی دیتا ہے. صاف ظاہر ہے کہ قانون معاشرتی اقدار اور مذہبی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں. اگر قانون مذہبی تعلیمات اور اخلاقی قدروں کی روشنی میں آراستہ کیا جاتا تو ابا جی کے پاس بیٹی کو عزت کا جنازہ نکالنے سے روکنے کا قانونی راستہ موجود ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں.

بیٹی شوبز میں چلی جائے گی. ابا جی کی زندگی طعنوں سے زخمی ہوتی جائے گی. جس دن بیٹی ایک خاص حد عبور کرے گی، ابا جی کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا. بیٹی گھر ملنے آئے گی تو اسے وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا جائے گا. پاکستان، پاکستان کے قدامت پسند لوگ اور مذہبی رجحانات رکھنے والی متقی لوگ شدید تنقید کی زد میں آ جائیں گے.

بیٹی کا قتل کر کے غلط کیا گیا مگر ابا جی کی پوزیشن کو سمجهے بغیر طعن و تشنیع کے اندھے نشتر چبھونا ابا جی کے ساتھ بھی ظلم ہے.

یہی صورتحال قندیل بلوچ کے بھائی وسیم کی ہے. وہ ایک خود دار اور شریف گهرانے سے تعلق رکهتا تها. والدین ضعیف تهے. بہن قندیل بلوچ کو آگے بڑهنے کا شوق تها مگر اس نے اس شوق میں ساری حدیں پار کر لیں. نتیجہ پورے گهرانے کی بدنامی کی صورت میں نکلا.

اسکی بہن کی قابل اعتراض ویڈیوز اسکے دوست، احباب،  کولیگ، محلے دار، ملازم، ماتحت اس کے سامنے دیکھتے تھے، طعنے دیتےتھے، وہ بغیر کسی جرم کے رسوا ہو رہا تها.

خدانخواستہ ہم میں سے کوئی ایسی situation کا شکار ہو تو وہ کیا کرے گا؟ اگر ہماری بہن ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرے اور ہمارے تمام کولیگ مزے لے لے کر ان ویڈیوز کو دیکهتے ہوں اور سب کو پتا ہو کہ یہ ہماری بہن ہے تو کیا ہم آفس میں قدم رکھ سکتے ہیں؟ جینا محال نہ ہو جائے گا ہمارا؟۔

جب تک اس کی شناخت سامنے نہیں آئیتھی تب تک اس کے گهر والوں کی عزت کچھ حد تک بچی ہوئی تھی.
پہلے نام سامنے آیا فوزیہ عظیم
پھر ولدیت
پھر شناختی کارڈ
پھر خاوند
پھر پاسپورٹ
پھر بھائیوں کے نام و پیشیے
سارا خاندان ننگا ہو گیا.

اب اسے بس کر دینا چاہیے تها، مگر وہ خود مختار ہو چکی تهی اور اس کے نزدیک والدین کا معاشرے میں مقام، خاندانی اقدار اور مذہبی تعلیمات بے حیثیت ہو چکی تهیں. وہ تمام بندشوں سے آزاد تهی.

ایسے حالات میں وسیم کیا کرتا؟۔

میری رائے میں ایسی بہن بیٹیوں کوگھر میں قید کر دینا چاہیے مگر فی زمانہ یہ ممکن نہیں تھا. اگرچہ یہ قتل ہونا بالکل نہیں چاہیےتھا لیکن قاتل کے نکتہ نظر سے دیکها جائے تو یہ قتل ناگزیر بھی ہو چکا تها. بہرکیف اس حوالے سے علماء کی رائے ہی مستند ہو گی اور قانون تو اپنے انداز سے حرکت میں آ ہی چکا ہے.

اس تناظر میں اب وقت آ گیا ہے کہ اگر غیرت کے نام پر قتل کی روک تهام کو یقینی بنانا ہے تو خاندانی نظام کو از سر نو مضبوط کرنا ہو گا اور مروجہ قوانین کو مذہبی تعلیمات اور سماجی، اخلاقی و خاندانی قدروں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا بصورت دیگر اگر اس پہلو کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے تو کوئی قانون سازی honor killing کا سدباب نہیں کر سکتی.

اگلا سوال یہ ہے کہ مذہبی و سماجی قدروں سے ہم آہنگ قانون سازی میں کیا رکاوٹ ہے؟
اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ کچھ قوتیں پاکستان کے مذہبی تشخص کی دشمن ہیں.
پاکستانی معاشرے کو لبرل اور مملکت پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتی ہیں.
مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دینا چاہتی ہیں.
اولادوں کو مناسب قانون سازی کے ذریعے مادر پدر آزاد کر کے خاندانی نظام توڑنا چاہتی ہیں.
غیرت کے نام پر قتل بند کرنے کے لیے غیرت کا تصور ہی مسخ کر دینا چاہتی ہیں جیسے آج مغرب میں ہے جہاں بیٹی باپ کے سامنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رات گئے کہیں بھی چلی جاتی ہے اور باپ غیرت کے لفظ سے ہی نا آشنا ہے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ بیٹی کو بائے بائے کرتا ہے.

اس مقصد کے تحت اب مستقبل قریب میں پاکستان یا انڈیا میں قندیل بلوچ پر ایک مووی بنے گی جس میں قندیل بلوچ کو پاکستان کے فرسودہ و قدامت پسندانہ سماجی نظام کی قید و بند سے بزور طاقت نکلنے والی ایک غیور، ترقی پسند اور لبرل لڑکی کے روپ میں دکھایا جائے گا جو زندگی میں آگے بڑهنے کے جذبات سے معمور ہےجبکہ سماج اور قاتل وسیم کو ظالم اور تنگ نظر بنا کر دکهایا جائے گا کیونکہ مخصوص عناصرکے اپنے مخصوص مقاصد ہیں جیسا کہ۔

1. پاکستان کے خاندانی نظام کو توڑنا
2. پاکستان کے نیم اسلامی معاشرے کی orientation تبدیل کرنا
3. غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کے عمل کو تیز کروانا
4. اولاد کو والدین کے مقابل کھڑے کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا
5. لفظ “غیرت” کو پاکستانیوں کے لاشعور سے اکھاڑ پھینکنا کیونکہ مذہبی تعلیمات اور غیرت ہی تو لبرل معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ ہیں.

یہاں علماء کرام کا کردار بھی بہت اہم ہے. انہیں چاہیے کہ معاشرے میں تفرقہ بازی سے بالاتر ہو کر مذہبی تعلیمات کا پرچار کریں اور معاشرے کی اخلاقی قدروں کی بلندی کیلیے منظم کوشش کریں تا کہ والدین بچوں کا غیر شرعی استحصال نہ کریں اور اولاد والدین پر اعتماد کرتے ہوئے انکی فرمانبرداری کرے.

شاید آپکو یہ تمام گفتگو لاحاصل لگے مگریہ الفاظ اس وقت آپکے کانوں میں گونجیں گے جب cultural transformation کی اس طاقتور مہم کے نتیجے میں آپ کی بیٹی آپ کے مد مقابل کھڑی ہو کر آپکی ہی غیرت کے منافی کام کرنے جا رہی ہو گی اور قانون پوری طاقت سے اسکی پشت پر کھڑا ہو گا اور آپ کے ہاتھ بندھے ہوں گے.
یاد رکهیں، گہرے پانیوں میں رہنے والوں کو کنارے سوکھنے کے خبر اس وقت ہوتی ہے جب دریا سوکھتے سوکھتے کنارے خود ان تک آ پہنچیں.

Print Friendly, PDF & Email