The news is by your side.

خاک کا رزق بنتا شہربرہمن آباد

کیوں شہر اجڑا اجڑا سا پڑا تها‘ کیا سر پہ پہاڑ آپڑا تها‘ کیا بهیڑ تهی کل اور آج دیکها سنسان وہ راستہ پڑا تها. سر زمین سندھ ہزاروں سال پرانی اور قدیم تہذیبوں کا مدفن ہے ۔وادی سندھ صرف موجودہ سندھ ہی نہیں بلکہ پاکستان، افغانستان،بهارت، کا مغربی حصہ بهی وادی سندھ میں شامل ہیں.اپنے زمانہ عروج میں وادی سندھ کی آبادی قریبا 50 لاکھ نفوس پر مشتمل تهی اور 000،260،1 کلو میٹر کے وسیع رقبے پر محیط تهی۔ اس وقت سندھ کے لوگ ترقی کی بلندیوں کو چهو رہے تهے لیکن بیرونی حملوں اور ناگہانی آفات نے ان اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا لیکن آج بهی اس زمانے کی شاندار تعمیرات، ثقافت،تہذیب و تمدن کے نشانات باقی ہیں۔

صدیوں پہلے جو قومیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تهیں ان میں موئن جو دڑو، ٹیکسلا، ہڑپہ کے ساتھ ساتھ بر ہمن آباد بهی ایک تہذیب یافتہ شہر کی صورت میں ضلع سانگهڑ سے 22 کلو میٹر جنوب کی جانب حیدر آباد لنک روڈ یو نین کو نسل منصورہ پر چار کلو میٹر کے رقبے پر پهیلا ہوا ایک تاریخی شہر تها۔ ایک روایت کے مطابق 5 ویں صدی قبل المسیع میں یہ شہر ایران کے بادشاہ بہمن دو شیر نے تعیر کروایا اسی کے نام سے یہ شہر بہمن آباد کہلانے لگابعد میں بر ہمن آباد کے نام سے مشہور ہوا ۔ اا ویں صدی میں دریائےسندھ کے رخ پهیر دینے کی وجہ سے یہ شہر تباہی کا شکار ہو گیا۔ 16 سو سال تک سانگهڑ کی تاریخ اس شہر سے وابستہ رہی سومروں کے دور میں علم و ادب اور تجارت و سیاست کا اہم مرکز یہ شہر تقریبا 300 سال تک نہ صرف سندھ کا دارالحکومت رہا بلکہ عربوں کے زمانہ حکومت میں اسلامی ریاست کا دارلخلافہ بهی رہا.جبکہ چچ کے دور حکومت میں یہ شہر لو ہانہ کا دارلخلافہ تها جہاں کا حاکم اکهم لو یانہ تها‘ راجہ چچ کے فوج نے لو ہانہ کو شکست دی اور اسے قلعہ میں محصور کر دیا ایک سال تک چچ نے قلعے کا محاصرہ کیا اور بلاخر لوہانہ کی موت کے بعد قلعے کو فتح کرلیا۔

b2
ایک دوسری روایت کے مطابق محمد بن قاسم نے فتح سندھ کی یادگار کے طور پر بر ہمن آباد کا نام بدل کر منصورہ رکها محمد بن قاسم اور ان کے بعد کی جانے والی فتوحات میں اس شہر کا کر دار بہت اہم اور تاریخی رہا.محمد بن قاسم نے یہاں 4 فٹ چوڑی دیواروں پر مشتمل ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی مسجد سے ملحق ایک اونچی اذان گاه بهی تهی جس کے خستہ حالی کا شکار آثار آج بهی بر ہمن آباد کے کهنڈرات میں دیکهے جاسکتے ہیں محکمہ آثار قدیمہ کی بے حسی اور عدم تو جہی کی وجہ سے یہ آثار تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔


سندھ کا قدیمی ورثہ ’’برہمن آباد‘‘ حکومتی توجہ کا منتظر


 بر ہمن آباد کا راجہ دلور رائے تها اس شہر کے کهنڈرات سب سے پہلے مسٹر بیلارس نے 1854 میں در یافت کئے دو فٹ کی کهدائی سے ہی انسانی اور حیوانی ہڈیاں کهو پڑیاں نکلنے لگیں۔ یہ ہڈیاں زیادہ تر گهروں کے دروازوں کے نزدیک پڑی دیکهائی دی جس سے ایسا لگتا جیسے وہاں کے لوگ کسی بری نا گہانی آفت سے بچنے کے لیے گهر سے باہر نکلنا چاہ رہے تهے مگر موت نے مہلت نہ دی جو بهی دهانچے ہڈیاں نکالے گئے مٹی سے نکالتے ہی ہوا میں تحلیل ہو گئے دوران کهدائی ہڈیوں کے ساتھ ساتھ اعلی ٰاقسام کے بر تن،شیشے کے زیورات،  کهیلوں کے سامان چاندی اور پیتل کے سکے کے سمیت ہاتهی دانت بهی ملے جو انتہائی اعلیٰ کاری گری اور ہنر مندی کا ثبوت تهے۔

b-1

دوران کهدائی متعدد مجسمے بهی ملے کنول کا پھول ‘ 4 انچ لمبا ایک عورت کا مجسمہ بهی ملا‘ زیادہ تر مجسمے رقص کر تی ہوئی عورتوں کے تهے۔ ہاتهی دانت سے بنا ہوا سیاہ اور سفید مہروں والا شطرنج بهی دوران کهدائی ملا اس لحاظ سے شطرنج کو راجہ داہر کی ایجاد کہا جاتا ہے ان تمام اشیا کے ساتھ ساتھ یہاں سے قیمتی ہیرے بهی در یافت ہوئے ان تمام ملنے والی اشیا کی تفصیلات رائل ایشیا سوسائٹی رسالے کے جنوری 1856 کے شمارے میں شائع ہو ئے تهے۔

b-4

مقامی افراد کے مطابق چند سال پہلے بهی یہاں سے سونے کی دو مورتیاں ملی تهیں۔5 کلومیٹر تک سکڑ جانے ولے بر ہمن کے کهنڈرات میں بازار کنویں مسجد اور بیرونی دروازوں کے آثار موجود ہیں انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور نا اہلی کی وجہ سے یہاں کے لو گوں نے ٹریکٹر چلا کر اس قدیم آثار کو تباہ کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر یہاں زمینیں آلاٹ کر نے والوں نے پوری کر دی ہے قبضہ ما فیا اور غیر قانونی نہر کی کهدائی نے  اس شہر کو  بے انتہا متاثر کیا ہے جو کسر رہ گئی اسے علاقہ مکینوں نے مٹی اور اینٹیں نکال کر اپنے گهر پختہ اور شہر کو مزید خستہ حال کر کے پو ری کر دی۔

b-5

ان کهنڈرات میں ایک بزرگ مرزا غلام محمد کا مزار بهی واقع ہے کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بزرگ بهی بر ہمن آباد میں تبائی کے وقت مو جود تهے اس تباہی میں وہ بهی وفات پاگئے بعد میں بشارت کے ذریعے مقامی لو گوں کو اپنی وفات اور دفن کی جگہ کی نشاندہی کروائی جس پر وہاں کے لو گوں نے ان کا مزار تعمیر کروایا ملک بهر سے آنے والے لوگ دورہ منصورہ یا بر ہمن آباد کے دوران یہاں حاضری ضرور دیتے ہیں۔ یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ کو ئی بهی ایسا میوزیم نہیں جہاں یہاں سے ملنے والی اشیا کو رکها جائے تاکہ سیا حوں کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ حکومت کو بهی خطیر رقم حاصل ہو سکتی جو اس علاقے کے کام لائی جاسکتی ہے اس عظیم آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کا بهی کو ئی انتظام نہیں جس کا جب جی چاہے مال غنیمت سمجھتے ہوئے یہاں کی مٹی اینٹ لے جائےاگر حکومت کی جانب سے ایسی ہی عدم دلچسپی کا مظاہرہ روا رکها تو بہت جلد بر ہمن آباد کی عظیم تقافت کے بچے کچے نشانات بهی خاک کا رزق بن جائیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email