The news is by your side.

گہے برخاک می غلطم‘ گہے برخارمی رقصم

لعل کے سندھ میں جب سورج کھیر تھرکے عقب میں چھپ جاتا ہے تب فطری پراسرار شام دن کے ختم ہوجانے پرانگڑائی لیتی ہوئی سرمئ رنگوں کے پرکھول رہی تھی اور ساتھ ہی احاطہ قلندر میں رقص درویشاں شروع ہوا تھا، جہاں درویش لمبے بالوں کو کھول کر سہون کی شام میں لپٹ کروجد کے ان بولوں میں بڑی گہرائی محسوس کررہے تھے۔۔۔

حیدریئم
قلندرم مستم
بندہ مرتضی علی ہستم

یہ وہ وقت تھا جب رات شام کو پیچھے دھکیل کر تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی، یہ وقت دھمال کا تھا اس وقت سارے ساز بجنا شروع ہوگِئے تھے اور سارے جسم ہوا سے الجھ رہے تھے۔ کوئی الغوزے بجا رہا تھا تو کوئی اپنے تنبورے کی تاروں کو چھیڑ رہا تھا تو کوئی اک تارا بجا کر جھولتا ہوا دل کے صدائیں سنا رہا تھا ، یہ احاطۂ قلندر تھا جہاں امیر نہیں فقیر آئے ہیں جہاں وہ نہیں آتے جو اپنے مال پر مست ہیں یہاں وہ آئے تھے جو اپنے حال پر مست تھے۔

مگر اس شام دھمال کے دوراں کیا معلوم تھا کہ فقیروں اور دیوانوں کے درمیاں ایک دہشت گرد بھی موجود تھا جو پھٹا تو دھماکے کی آواز بہت دور تک سنی گئی اس آواز کے بعد لوگ تڑپنے لگے۔ کٹے پھٹے اعضا سے خون کے پھوارے نکلنے لگے‘ فولادی کنگن والی کلائیوں سے جڑے ہوئے ہاتھوں میں مچلتے ہوئے چمٹے قیدی عشق کی آزاد چیخ کی پکار بن گئے‘ بارود کے ساتھ ان آنکھوں کو بجھایا ہے جو ساری رات ستاروں کی طرح چمکتی رہتی تھیں۔

یہ ملنگ سوچتے ہیں کہ یہ جہالت کے نمائندے حملہ کر کے کس کو ڈرا رہے ہیں؟ ان فقیروں کو جو جسم کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور جو فنا کی راہ کے مسافر ہیں جس علاقے میں شکار کو بھی نفرت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے اب وہاں آدھی رات ایمبولنسوں کا قافلہ بغیر سائرن بجائے صرف اپنی سرخ بتی جلائے رواں دواں ہے سہون کے چرند پرند ان سائرن زدہ آوازوں کے ساتھ دوڑتی ایمبولینسوں سے نا آشنا تھے۔

اس سنگریز زمیں کے ملنگوں کی خواہش تھی کہ اس کے جلتے ہوئے دل پر کوئی بادل برسے ، مگر خواہش کے برعکس قلندر کے مزار پر محو رقص روحانیت کے مسافروں پر شب خون مارا گیا

بارود کی گونج کے بعد سویا ہوا سوال جاگ اٹھا کہ کیا اذیت صرف انسان کو ہوتی ہے؟ کیا خاموش دھرتی کے دل پرزہ نہیں ہوتے؟ قلندر کے احاطے میں کسی بھی لہو میں ڈوبے ہوئے پتھر سے پوچھا جائے کہ درد کیا ہوتا ہے؟۔

وہ بتادے گا! مگر سیاسی انسان کیا جانے کہ درد کیا ہوتا ہے؟۔

سیاسی انسان صرف مذمت کرنا جانتے ہیں وہ انسانی درد کو جانتے تو کراچی سے مہمند تک ہر پتھر لال نہ ہوتا یہ سیاسی انسان تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اسپتال آبادی کے حساب سے بنتے ہیں دہشت گردی کے حساب سے نہیں ، ایک لاکھ آبادی والے سہون جیسے شہرجو کراچی کے ایک محلے کے برابر ہوں وہاں بنیادی طبی صورتحال کی ابتر صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔

کیا یہ ملنگ اپنی دھرتی پر ہونے والے سانحے کا بھول سکے گے ؟ کبھی نہیں سر زمین وطن کے لوگ جب بھی سہون سے گزریں گے انہں یہ خطہ رقصِ درویشاں میں ”می رقصم” رہتے ہوئے سوگوار ملے گا، دشمن کو زیر کرکے رنگ و نسل زات پات سے بالاترہوکراگر باہمی محبت کو پروان نہ چڑہایا گیا تو چمن سے طورخم تک کے پہاڑ اس طرح کی بارودی دھمک کو برداشت کرنے کے کوشش کرتے رہیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email