سنہ ۸۱۰۲ ء کے آغاز پر ذاتی صحت وتندرستی اور کامیابی و کامرانی کی خواہشات کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ خاص طور پر ملک و قوم کی قدرتی آفات ، اندرونی و بیرونی سازشوں اور دہشت گردی سے حفاظت کی دعائیں بھی شامل تھیں ۔ یہ پرخلوص دعائیں اور دلی نیک خواہشات اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مستقبل صرف دعاؤں سے نھیں بنتا ، امن صرف خواہشات سے نھیں ملتا اور حفاظت صرف نعروں سے نہیں ہوتی بلکہ ان تھک اور مسلسل عملی جدوجہد سے ہی یہ نعمتیں میسر آتی ہیں ۔
آج بدقسمتی سے ہم ایک ایسے منتشر ، منقسم اور بے انصاف معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ظلم و زیادتی کے خلاف فریاد کرنے اور انصاف کے حصول کے لئے دھرنا دینا پڑتا ہے ، عصمتوں کے لٹ جانے کی دھائی دینے اور قانون کی بالا دستی کا رونا رونے کے لیے پولیس کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں ، حقوق کی بحالی اور تنخواہوں کی بروقت وصولی کےلئے سڑکوں پر نکل کر نعرے بازی اور احتجاج کرنا پڑتا ہے ،بنیادی انسانی حقوق کی رکھوالی کیلئے پولیس کے ڈنڈے اور آنسو گیس جھیلنی پڑتی ہے ، قانون اور قواعدوضوابط پر عملدرآمد کی بات کرنے پر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ، کاروبار مملکت اور سیاسی نظام کو صحیح سمت میں رکھنے کی بات کرنے پراپنے روزگار اور کیرئیر کو داؤ پر لگانا پڑتا ہے ، جان ومال اور عزت وآبرو کو درندوں اور لٹیروں سے بچانے کیلئے ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور قوانین کی تشریح و تصریح کیلئے عدالتوں کے سامنے ڈیرے ڈالنے پڑتے ہیں ۔
آج ہم ایک قوم کی بجائے تقسیم در تقسیم کا شکار ایک مفاد پرست گروہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہم علاقائی ، صوبائی ، لسانی ، طبقاتی ، سیاسی ، فقہی و مذہبی تفریق سے بھی بڑھ کر پیشہ ورانہ بنیادوںپر بھی اپنے آپ کو بانٹ چکے ہیں۔ آج اگر مسلح افواج کے کسی ذمہ دار کی کسی مالی یا انتظامی بدعنوانی ، غفلت یا کوتاہی کی نشاندہی کی جائے تواسے باغی ، ریاست کے دشمن اور دہشت گرد کے لقب سے نواز دیا جاتا ہے ۔ آج ججوں سے بزورطاقت من مانے فیصلے کروانے اور من پسند فیصلے نہ دینے والے ججز کے ساتھ مارپیٹ کرنے اورعدالتوں کو زبردستی تالے لگانے والے وکلاءکو اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے قانون کی پاسداری اور آئندہ ہنگامہ آرائی نہ کرنے کی تلقین کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ بدعنوان اور غیر قانونی وغیر آئینی فیصلے پر اعتراض کرنے پر کمزور کو توہین عدالت کی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔
آج حکومت کے کسی اہلکار کی کوئی بدعنوانی یا غیر اخلاقی حرکت سامنے لائی جائے تو فوری ملک دشمن ، جمہوریت مخالف اور غیرملکی ایجنٹ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری ہوجاتا ہے ۔ آج پولیس کو غریب عوام کے قتل ، اغواء، لوٹ مار اور دھونس دھاندلی کی کھلی چھوٹ ہے ۔ پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے پولیس مقابلے کی بھی عام اجازت ہے۔ پیروکاروں اور مریدین کو سادگی ، پرہیزگاری اور توکلت علی اللہ کا درس دینے والے مہنگی ترین گاڑیوں اور گارڈز کے جتھے کے ساتھ باہر نکلنے والے مذہبی رہنماؤں کے قول و فعل کا تضاد بیان کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے کے بعد آپ کا ایمان توگیا جان کی بھی کوئی ضمانت نہیں ۔
کسی بھی ریاست میں تبدیلی کے لئے طاقت کے تین بنیادی مراکز اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ (۱)اسٹیبلشمنٹ یعنی مسلح افواج اور خفیہ ادارے ، (۲)انتظامیہ یعنی پارلیمنٹ اور بیوروکریسی اور (۳)عدلیہ یعنی جج صاحبان اور بار کونسلز ۔ (مملکت خداداد میں ایک چوتھا مرکز مذہبی رہنما اور گروہ یا جماعتیں بھی استعمال میں لائی جاتی ہیں )۔
اگر ہم اپنی قومی تاریخ کی تفصیل اور واقعات کی جزئیات میں جائے بغیر حالات پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پہلی دھائی میں وزرائے اعظم کی پے درپے تبدیلیاں ہوں یا آئین کی تشکیل میں ناکامی ، بھٹو ،جونیجو ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومتیں گرانے کے لیے غیر جمہوری طاقتوں کی کاسہ لیسی ہو یا آمروں کے غیر آئینی اقدامات کی حمایت ، ایوب خان کا مارشل لاءہو یا ضیاا لحق کا شب خون ، پرویز مشرف کا جبری قبضہ ہو یا آئی جے آئی کی تشکیل ، آپریشن مڈنائٹ جیکال ہو۔یا جنرل پاشا کی کھلی پشت پناہی ، مولوی تمیزالدین کا نظریہ ضرورت ہو یا آٹھویں ترمیم کا تحفظ ، بیگم نصرت بھٹو اورنوازشریف کی یکساں پٹیشنز پر متضاد فیصلے ہوں یااصغر خان کیس کی مشکوک طوالت ، ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا اعتراف ہو یا میاں نواز شریف کے خلاف پنامہ کیس میں مبہم فیصلہ ، غرضیکہ ھر قومی ادارے یا ذمہ داران نے کہیں نا کہیں ، کسی نا کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔
چھوٹا منہ بڑی بات
آج ہمیں مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عملی طور پر اسلامی اور جمہوری بنانے اور حقیقی تبدیلی لانے کے لیے ہر ہر شعبہ زندگی میں خود احتسابی کے عمل کی شدیدضرورت ہے۔ اب ہمیں اس گلے سڑے ، بدبودار، کہنہ سال اور غیر فعال نظام سے چھٹکارے کیلئے باہمی افہام و تفہیم ، کھلے دل ودماغ ، برداشت اور دیانتداری کے ساتھ ایک نئے اور قابل عمل عمرانی معاہدے کی بنیاد رکھنے کی فوری ضرورت ہے۔ مثالی نہ سہی لیکن بہتر اور مہذب معاشرے کی تشکیل کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ صرف قانون نہیں بلکہ قوانین کے ان کی اصل روح کے ساتھ عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ عام آدمی کواختیار اورانصاف کے اس عمل میں سانجھے دار ہونے کا احساس دلانا ہو گا۔یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ہمیں اپنی انا کے خول کو توڑ کر ، اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اپنی اور اپنے ادارے کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لینا ہوگا۔
افواج پاکستان کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس اعلی افسران ، اعلی ترین عدالتوں کے سابقہ اور موجودہ جج صاحبان اور تمام قابل ذکرسیاسی رہنما اپنے اپنے
دائرہ کارمیں سر جوڑ کر بیٹھیں۔ پوری ایمانداری اور فراخدلی کے ساتھ اپنی (اور اپنے ادارے کی )سابقہ غلطیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کا برملا اظہار اور اعترا ف کریں ، آئندہ باہمی احترام قائم رکھنے اور مل جل کر کام کرنے کا عزم کریں۔ اگر تمام قومی ادارے اپنے اپنے دائرہ عمل میں اس تجویز کو بروئے کار لے آتے ہیں تو یقینی طور پر ان کے عزت ووقار میں اضافہ ہوگا۔ آج ہمیں خالص جمہوریت کی بحالی ، اصل اسلام کے نفاذ اور جمہور کی بقاءکے لیےاجتماعی دانش اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ اگر تمام قومی ادارے اپنے بہترین دماغوں پر مشتمل ٹیمیں بناکر آپس میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کر دیں توکوئی مشکل نھیں کہ بہت جلد ہم اپنے دیرینہ مسائیل سے چھٹکارہ نہ حاصل کرلیں۔
کوئی بات ناممکن نہیں، ضرورت صرف خلوص نیت اور وسیع القلبی کی ہے۔ اگر ہم اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں اور فرسودہ نظام سے نجات کی ٹھان لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ میڈیا بھی ریاست کا اہم ستون ہونے کا دعویدار ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک صحافت کمرشلزم اور طاقت کے زیر اثرہے کہیں اس پر اختیار کی طاقت اثر انداز ہوتی ہے اور کبھی دولت کی طاقت اس کا راستہ روک لیتی ہے۔ کہیں مفادات کی طاقت منہ بند کر دیتی ہے تو کبھی سیاسی و نظریاتی وابستگی کی طاقت پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ اب تک تو میڈیا نے مختلف مواقع پر ریاست کے دیگر مراکز کے آلہ کار کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ آنے والے وقت میں اپنی آذادی اور وقار کے حصول کے لیے قومی روایات کی ترویج اور مہذب معاشرے کی تعمیرو ترقی میں اہم اور فعال کردار ادا کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے ریٹنگ کی بجائے اخلاقیات ، صحافتی اقداراور علم ودانش کے فروغ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
یہ تمام گذارشات تو ان صاحبان اختیارو اقتدارکے گوش گزار تھیں جو کسی نا کسی حیثیت میںاجتماعی منصوبہ سازی کا حصہ بنتے ہیں۔ کچھ باتیں اپنے ان ہم وطنوں کے ساتھ بھی جنھیں مخاطب کر کے کسی آنے والے نے کبھی انھیں اپنا ہم وطن نھیں سمجھا۔ گئے زمانے میں جب اکھاڑے آباد تھے نئے پہلوان کشتی شروع کرنے سے پہلے کونے میں بیٹھے بوڑھے پہلوان سے رسمی اجازت طلب کرنے کے لئے ایک آواز لگاتے تھے کہ : خلیفہ جی اجازت ہے ؟ :نہ جانے کیوں مجھے اپنے ان ہم وطنوں پر اس پہلوان کا گمان ہوتا ہے جس کا اکھاڑے میں جاری دنگل کے نتائج سے عملی طورپر کوئی سروکار نھیں ہوتابس اس کی موجودگی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جب تک ہم عام آدمی ، عام شھری اور عام ووٹر خود اکھاڑے میں نہیں اترتے ، دنگل کا حصہ نہیں بنتے ، اپنے کارآمد، باحیثیت اور قیمتی ہونے کا احساس نھیں دلاتے ہمیں مردہ اور ناکارہ ہی سمجھا جائے گا۔ ہمیں اپنے زندہ ہونے کا اعلان کرنا ہوگا۔ معاشرے کی تشکیل نو میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا ہوگا۔ فیصلہ سازی کے عمل میں دیگرقوتوں کے قدم سے قدم ملا کرآگے بڑھنا ہوگا۔اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کیلئے خود جدوجہد کرنا ہوگی۔
ہم سہل انگار سہی لیکن کیوں اہل ہوس یہ بھول گئے
یہ ارضِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں