The news is by your side.

مسلم لیگ ن کی حکومت اورآئندہ الیکشن

ملک میں جمہوری عمل کا ایک اہم ترین دور اختتام پذیر ہوا مسلم لیگ (ن) کی حکومت پہلی دفعہ یہ کارنامہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوئی لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ جب اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا تو اس میں مسلم لیگ ، (ن) کے بغیر تھی ۔ یعنی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اس بار بھی اس اعزاز سے محروم رہے اور اب تو ہمیشہ کے لیے ہی محروم کردئیے گئے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں شاید پاکستان کو کچھ بھی نہیں ملا بلکہ بڑے نامی گرامی سیاسی رہنماؤں سے محروم ہونا پڑا جن میں اول نمبر پر بانی متحدہ قومی مومنٹ، مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل ۔ یہ وہ رہنما ہیں جن کے وجہ سے ملک کے سیاسی میدان میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ لوگ دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دئیے گئے۔

یوں تو پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ہماری مثالی شخصیت حضرت محمد ﷺ ہیں اور آپ ﷺ کی بتائی ہوئی طرز سیاست ، معاشرت اور معشیت کو عملی نمونہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، افسوس جس کیلئے کبھی بھرپور عملی کوشش نہیں کی گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے اپنی تقریروں اور دیگر مواقعوں پر واضح کردیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی اور فلائی ریاست ہوگی،جس کی ایک دلیل قائد اعظم کا انکے اے ڈی سی کے ساتھ چائے کافی کے حوالے سے ہونے والا مکالمہ بھی ایک گواہی ہے، لیکن کیا ہوا کہ قائد اعظم کی ہی حقیقت کو تسلیم کرنے کی جنگ چھیڑ دی گئی، نسل در نسل مختلف ابہام پیدا کردئیے گئے۔آج تک ہمیں اسی میں الجھایا ہوا ہے کہ قائد اعظم یہ چاہتے تھے یا وہ چاہتے وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں سیاسی قائدین کا کردار کبھی بھی قابل تعریف نہیں رہا اگر رہا بھی تو مخصوص طبقے کے لیے جنہیں ان کا حواری بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان میں وقت ، حالات اور خفیہ ہاتھ سیاست دان بناتے ہیں یا پھر روپے پیسے کی فراوانی ایوانوں کی چاہ دل میں پیدا کردیتی ہے۔ عوامی مسائل کیلئے شروع ہونے والی سیاست کبھی بھی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکی، ستر سالوں میں پاکستان کی عوام اپنے بنیادی مسائل کے حل لئے مرے جا رہی ہے لیکن مجال ہے کہ مسائل حل ہوجاتے بلکہ یہ مسائل مختلف شکلیں بدل بدل کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹتے چلے گئے اور عوام کو ذہنی طور پر معذور کرتے چلے گئے۔ آج لوگ دووقت کی روٹی کی مشکل سے کہیں زیادہ دیگر کئی مشکلات کا شکار ہیں۔

جمہوریت اخذ کرنے والوں کی بتائی ہوئی جمہوری اقدار سے ناآشنا ، جمہوریت کی روح سے بے خبر جمہوریت کا راگ الاپنے والے ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں اور پھر ایک ساتھ بیٹھ کر کسی مسئلے کے لیے بات چیت کرتے ہیں جوکہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد جمہوریت نہیں بلکہ ایوانوں تک رسائی ہے ۔ بدعنوانی کا ایک ایسا جال بنا جا چکا ہے جس سے نکلنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے ۔ بہت ہی مشکل ہے کہ آپ کوئی کام بغیر کسی بدعنوانی کو ملوث کئے کروالیں۔ آج جبکہ دستاویزات کمپیوٹرائز ڈ ہوتی جارہی ہیں تو بھی بدعنوان مزاج لوگوں نے ایسے ایسے راستے بنالئے ہیں جن سے ہم سب خوب اچھی طرح واقف ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کوئی آپ کا کام نیک نیتی اور خوش اسلوبی سے کردے تو آپ خوشی سے اسے کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں اب کوئی خوشی سے نا دے تو وہ کام کرنے والے کیلئے مشکل کا باعث بن جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے بد عنوانی ہمارا مزاج بن چکا ہے ۔ یہ بدعنوانی جب تک اوپری سطح پر تھی تو اس کا تعلق بڑی بڑی مچھلیوں سے ہوتا تھا عوام تک اس کا براہ راست اثر نہیں پڑتا تھا۔ آج خوانچہ فروش سے لیکر تقریباً ہر کاروباری فرد اپنے فائدے کیلئے سامنے والے کو نقصان پہچانے سے گریز نہیں کرتا۔ ہم تباہی کے راستے پر چل رہے ہیں اور اپنے راستے میں آنے والی اچھائی کو بھی تباہ کرتے جا رہے ہیں۔

جمہوریت کو دوام ملا ہے اور اگلی جمہوری حکومت کیلئے ملک میں انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے ۔ وفاق سمیت صوبوں میں بھی نگران حکومتیں تشکیل پانے کے آخری مراحل میں ہیں۔ اب وقت ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے کہ اس بد عنوانی سے چھٹکارا پائے بغیر نا تو اپنا گھر چل سکتا ہے اور نا ہی یہ ملک ، جیسا کہ قانون حرکت میں آچکا ہے اس عمل کو رکنے نہیں دینا ہے اور ان انتخابات میں ان ہاتھوں کو اور مضبوط کرنا ہے جو بدعنوانوں کی گردنوں تک پہنچ رہے ہیں، یہ بدعنوان کیفر کردار تک پہنچ گئے تو بد عنوانی نچلی سطح سے بھی ختم ہونا شروع ہوجائے گی۔

ہم نے ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ بناکر ایوانوں میں بھیجنا ہے جو سیاسی مافیاء کا آلا کار نہ بن جائے اور ہمارے بنیادی مسائل پھر اگلے پانچ سالوں کیلئے جوں کے توں پڑے رہ جائیں اور ہماری نسلیں ایسے ہی رلتی پھریں۔ بنیادی اور ناگزیر مسائل میں تعفن پھیلاتا کچرا، نکاسی آب، پانی و بجلی اور مہنگائی کا بے قابو جن انتہائی اور ہنگامی بنیادوں پر حل طلب مسائل ہیں۔ آخر ہمیں تماشہ لگا کر کب تک اسی طرح سے بیوقوف بنایا جاتا رہے گا اور ہم خاموش تماشائی بنے ہر ایک کے کرتب پر تالیاں بجاتے رہیں گے۔

انتخابات میں شرکت کرنے والوں کو بھی اب تو خدا کا خوف کرلینا چاہئے کہ یہ دنیا عارضی ہے یہاں سے سب کو جانا ہے اور جہاں جانا ہے وہاں کوئی سفارش نہیں چلتی۔ اس دعا کے ساتھ اپنا مضمون اختتام پذیر کرتا ہوں کہ ماہ رمضان ہے اللہ کے حضور اپنی ذاتی حاجات کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی مانگ لیں کہ اللہ ہمیں حق اور سچ کا ساتھ دینے کی ہمت عطاء فرما، ہمیں تعصب کی جہنم سے نکلنے میں مدد فرما اور ہمارے دلوں کو اچھائی کی جانب یعنی اپنی جانب پھیر دے (آمین یا رب العالمین)۔


ر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں