سنہ 1947میں جب پاکستان بن رہا تھا توجرمنی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہا تھا، دوسری جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی، ہٹلر خود کشی کرچکا تھا، تقریباً 75 لاکھ جرمن موت کے گھاٹ اترچکے تھے اور جرمنی کی فوج تقریبا ختم ہوگئی تھی۔ جرمنی کے 114 چھوٹے بڑے شہر تباہ ہوئے، 20 فیصد عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہوگئیں، زراعت 65 فیصد کم ہوگئی، بجلی بند تھی، سڑکیں تباہ تھیں، بندرگاہیں ناقابل استعمال تھیں، انڈسٹری صفر تھی، کرنسی ختم ہوچکی تھی، خرید وفروخت کے لیے لوگ بارٹر سسٹم پہ مجبور ہوچکے تھے، اشیا کے بدلے میں اشیا لی اور دی جارہی تھیں اورجرمنی دو حصوں، مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی میں تقسیم ہوگیا۔
سنہ 1945 سے 1955m تک دس سال جرمنی کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ کیمپوں میں پناہ گزین رہے، 1962 تک جرمنی امریکی امداد پہ چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا دنیا کے 14 ممالک جرمنی کو امداد دے رہے تھے اور دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ ان امداد دینے والے 14 ممالک میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل تھا۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے جرمنی کو بیس سال کے لیے بارہ کروڑ روپے قرض دیا تھا، جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومت پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا تھا۔ شکریہ کا وہ خط آج بھی ہماری وزارت خارجہ کے آرکائیو میں موجود ہے۔ یاد رہے ایوب خان کے دورحکومت میں دیگر وجوہات کے علاوہ، ہمارے آبی نظام سے زرعی اور معاشی ترقی ہوئی اور کسان نے زراعت میں ترقی کی،صنعت میں ترقی ہوئی، پاکستان کا جی ڈی پی ریٹ بلند ہوا اور اس خوشحالی کے نتیجہ میں پاکستان بھی امداد دینے والوں میں شامل ہوا۔
سنہ 60 کی دہائی تک جرمنی کی حالت یہ تھی کہ جرمن حکومت نے پاکستان سے دس ہزار ہنرمند مانگے جس پر ہمارے آرکائیو کہتے ہیں کہ پاکستان نے اپنے ورکرز جرمنی بھجوانے سے انکار کردیا۔ حالانکہ تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں۔ دراصل جرمن حکومت نے ہنرمند مانگے ضرور تھے لیکن پھر خود ہی لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ کیونکہ ہماری حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ ان ورکرز کی تنخواہیں ہمارے خزانے میں منتقل کی جایا کریں گی اور ہم اپنے ورکرز کو اپنے پیمانے کے مطابق روپوں میں اجرتوں کی ادائیگی کیا کریں گے ۔ یہ مطالبہ سراسر ناانصافی پر مبنی تھا اور جرمنی نے بلاتامل مسترد کر دیا تھا۔ بعد ازاں، جرمنی نے یہی درخواست ترکی سے کی، جسے ترکی نے قبول کرتے ہوئے اپنے ورکرز جرمنی بھیجے اور آج جرمنی میں تیس لاکھ ترک آباد ہیں۔ وگرنہ آج ترکوں کی جگہ پاکستانی جرمن معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے اور باقی یورپین ممالک کی طرح ہمارے ہنرمندوں کو یہاں بھی لوکل لوگوں کے مساوی حقوق حاصل ہوتے، چہ جائیکہ آج وہی ہنرمند ہم عرب ممالک کو نہایت کم اجرت پہ دے رہے ہیں جنہیں ان ممالک میں کوئی حقوق حاصل نہیں۔
پچاس سال قبل کے جرمنی کی صورتحال تو آپ نے پڑھ لی ،اب زرا دل تھام کر آج کے جرمنی کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔ آج جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے جبکہ پاکستان کا نمبر 41 ہے۔ جرمنی کا جی ڈی پی 3400 بلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا 271 بلین ڈالر۔ جرمنی کی سالانہ برآمدات 2100 ارب ڈالر ہیں جبکہ ہماری برآمدات صرف 29 ارب ڈالر۔ جرمنی کے زر مبادلہ کے ذخائر 203 بلین ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 21 بلین ڈالر ہیں۔ جرمنی کی فی کس آمدنی 41،178 ڈالر ہے جبکہ ایک پاکستانی کی آمدنی صرف 1،434 ڈالر ہے۔ وہی جرمنی جسے پاکستان نے 50 سال قبل بارہ کروڑ قرضہ دیا تھا، اس کی صنعتی ترقی کا یہ حال ہے کہ آج روزانہ صرف بارہ کروڑ روپے کی تو معمولی پیرپن بنا ڈالتا ہے۔
آپ نے تباہ حال سے ترقی یافتہ جرمن اور ترقی پذیر سے تباہ حال پاکستان کا ماضی اور حال دیکھ لیا، سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟۔
اس کی وجہ جمہوریت اور جرمنی کے حکمرانوں کی سادگی اور ایمانداری ہے، ملک کا پیسہ لوٹ کے سوئس اکاونٹس میں رکھنے کے بجائے ملک میں انویسٹ کرنا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔ اور یہی سادگی اور ایمانداری پھر حکمرانوں سے رعایا میں کیسے منتقل ہوتی ہے اس کی مثال اس بات سے سمجھ لیں کہ یورپ کا آج کا حکمران اگر سائیکل پہ دفتر جاتا ہے تو سرکاری پیسے میں احتیاط، ایمانداری اور سادگی کا پیغام اس کی عوام کو جاتا ہے اور جب ہمارے حکمرانوں کے صرف ایک بچے کو لینے پورا سرکاری جہاز خالی جاتا اور آتا ہے اور جن کے صرف کھانے مری لے جانے کے لیے لانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر ہفتوں مصروف رہتے ہیں تو یہ حالات دیکھ کر عوام سادگی اور ایمانداری سیکھے گی یا تعیش اور بے ایمانی؟ یورپین ممالک کی ترقی کی وجہ جمہوریت کا مضبوط ہونا ہے جس میں کرپٹ لوگوں کی جگہ نہیں اصل جمہوریت میں کرپٹ اور ناکارہ لوگوں کی خودکار طریقے سے چھانٹی ہوتی رہتی ہے ان کی جموریت میں حکمران عوام کو جواب دہ ہے اور قومی وسائل کا بے جا استعمال کرے تو عوام روک کے سوال پوچھتی ہے جب کہ ہماری بائیس کروڑ عوام مل کر بائیس کرپٹ خاندانوں سے چھٹکارہ نہیں پاسکی۔
میرے دفتر کی میز پہ جرمنی کی چانسلر انجلا مرکل کی ایک تصویر پڑی ہے اگرچہ یہ تصویر پانچ سال پرانی ہے لیکن یہ پچھلے پچاس سال میں جرمنی کے زوال سے عروج کی وجہ سمجھاتی ہے اس تصویر میں جرمن چانسلر کے سامنے یورپ کے دو طاقتور ملکوں کے صدور بیٹھے ہیں پہلے دنیا کی پانچویں بڑی معشیت کے صدر نکولس سرکوزی اور دوسرے یونان کے صدر جارج بابیندریو ہیں یہ دونوں جرمنی کے سرکاری دورے پر ہیں اور جرمن چانسلر ان کو تھرماس سے کپ میں کافی ڈال کردے رہی ہے سامنے میز پر دو جوس کے ڈبے اور پلیٹ میں چند بسکٹ پڑے ہیں یہ سادگی کی مثال ہے اور ایمانداری ایسی کہ دوسری بار چانسلر بننے کے باوجود اینجلا مرکل کے دامن پہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعال کا کوئی داغ نہیں۔
قومیں ان رویوں سے ترقی کرتی ہیں جب حکمران عمربن خطاب جیسی سادگی اور ایمانداری اختیار کرلیں تو تباہ حال جرمنی دنیا کی پانچویں میعشت بن جاتا ہے اور حکمران اور عیاش بن جائیں تو اسی جرمنی کو بارہ کروڑ قرض دینے والا ملک ہر سال آئی ایم ایف سے کروڑوں کا قرض لے لے کرآج کا تباہ حال پاکستان بن جاتا ہے۔ قارئین، قرضے لینے میں کوئی عیب نہیں، اگر یہ قرضے نیک نیتی سے استعمال ہوں تو انہی قرضوں کی بنا پرترقی کرکے دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے والا آج کا جرمنی یورپین یونین کا سب سے طاقتور ملک بن جاتا ہے اور اگر قرضے حکمران اپنی جیب بھرنے اور اپنے خاندان کی عیاشیوں پہ خرچ کریں تو پھر ساٹھ کی دہائی کا تیزی سے ترقی کرتا پاکستان آج کا مرد بیمار بن جاتا ہے۔ کوریا 1948 میں آزاد ہوا اس نے بھی قرض لیے اور آج کا کوریا دفاعی ٹیکنالوجی میں صف اول کا لیڈر ہے۔
عمران خان صاحب آپ ایک مقروض قوم کے وزیراعظم ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے حالات دگرگوں ہیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد کے جرمنی سے پھر بھی بہتر ہیں اور اچھا طرز حکمرانی اس ملک کو پھر عروج پہ لے جاسکتا ہے، اس کے لیے اگرآپ سادگی اپنانا چاہیں تو بانی پاکستان کی مثال آپ کے لیے باعث تقلید ہے کہ کیسے گورنر جنرل بننے کے بعد انہوں نے سرکاری خزانے کو احتیاط سے استعمال کیا اور سرکاری اخراجات کو احسن انداز میں کنٹرول کیا۔ آپ نے قیمتی کاریں نیلام کرنے، وزیراعظم ہاوس میں نہ رہنے، گورنر ہاوس کے عوامی استعمال اور اقوام متحدہ کے دورے پہ صرف چار افراد لے جانے کے اعلانات کرکے سادگی والی مثال اپنانے کا بخوبی آغاز کردیا ہے اور امید واثق ہے کہ آپ ان قابل تعریف اقدامات کو جاری رکھیں گے۔
لیکن ایمانداری کے باب میں آپ شاید کچھ غلطیاں کربھی چکے ہیں، چار کی نشاندہی سے بات سمجھ آجائے گی۔ کل کیپٹن (ر) عثمان کو پنجاب فوڈ اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جو صاف واٹر پراجیکٹ میں اربوں کی کرپشن میں شہباز شریف کا فرنٹ فین ہے، 56 کمپنیوں والے فراڈ کا ماسٹر مائنڈ ہے موصوف سانحہ ماڈل ٹاون کے مرکزی ملزمان میں سے ایک ہے نہ صرف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بطور ملزم پیش ہورہا ہے بلکہ عوامی تحریک کے وکلا جائے وقوعہ پر اس کی موجودگی کے ویڈیو ثبوت بھی عدالت میں پیش کرچکے ہیں۔
فہمیدہ مرزا جسے تحریک انصاف نے صوبائی رابطے کی وزارت دی ہے ،زرداری دور میں سپیکر کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے انہوں نے پانچ برسوں میں مختلف بینکوں سے چوراسی کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرایا۔ اپنے امریکہ میں علاج پر تیس لاکھ روپے بھی اسمبلی کے بجٹ سے خرچ کیے۔ سپیکرشپ کے آخری روز مراعات کا ایک پیکیج اپنے لیے تاحیات خود منظور کیا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی جنہیں مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت دی گئی ان پر الطاف حسین کو چھ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات کی ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے۔
زبیدہ جلال جسے آپ نے دفاعی پیداوار کی وزارت دی ہے ان پر ”توانا پاکستان‘‘ سکینڈل میں کروڑوں کی کرپشن کا الزام ہے، جس پہ سینیٹر انور بیگ کے تحت وزیراعظم انکوائری کمیشن نے رپورٹ دی کہ زبیدہ جلال نے بلوچستان کے بچوں کے دودھ بسکٹ کے لئے مختص فنڈز اپنی رہائش گاہ کی آرائش پر خرچ کر دیے تھے۔ اور ان پر اس سکینڈل کے مرکزی ملزم عرفان اللہ خان کی پشت پناہی کا الزام تھا۔ عرفان اللہ کو اس پروجیکٹ سے علیحدہ کیا گیا تو زبیدہ جلال نے دوسرا پروجیکٹ دلوا دیا۔ توانا پاکستان سکینڈل میں کمپنیوں کو غیرقانونی ادائیگیاں کی گئیں۔ اکتوبر دو ہزار آٹھ میں سینیٹ کی کمیٹی کی جانب سے سفارش کی گئی کہ توانا پاکستان سکینڈل میں زبیدہ جلال کے کردار پر تحقیقات کی جائیں۔ اس کے بعد انکوائری سے پتہ چلا کہ زبیدہ جلال اور عرفان اللہ پر توانا پاکستان فنڈز سے ملائیشیا میں کاروبار کرنے کا الزام بھی تھا۔
وزیراعظم صاحب ان چاروں تقرریوں پہ نظر ثانی فرما لیں اور ہوشیار رہیں، آپ کے اردگرد مزید ایسے عناصر بھی ہیں جو اسی طرح اپنی وفاداریوں کا یقین دلا کر آپ سے اپنی پسند کی پوسٹنگ، وزارتیں وغیرہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس سے وہ اپنی سابقہ جماعتوں میں کروڑوں اربوں روپے کا مال اکٹھا کرتے رہے ہیں خود پی ٹی آئی میں بھی انتحابات سے فوری پہلے کئی ایسے سیاستدان بھی شامل ہوئے ہیں جو ماضی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں اور مال بنانے کے کلچرکا حصہ رہے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد وہ دیانتدار اور نیک ہو جائیں گے۔ عمران خان صاحب، ایمانداری کی مثال بننے اور ملکی پیسے کی حفاظت کے لیے بطور وزیراعظم آپ کو ان عناصر سے ہر صورت بچنا ہوگا۔