بیگم کلثوم نوازوہ خاتون ہیں جنھوں نے1999میں پاکستان میں نوازشریف کی اسیری کے دوران مسلم لیگ ن کی صدارت کی باگ ڈور سنبھالی اور انہوں نے جس اندازمیں جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ کر ایک طویل جدوجہد کی اس کی مثال برصغیر پاک وہند میں کہیں نہیں ملتی ،وہ 1999سے 2002تک پارٹی کی صدر رہی مگراس تمام عرصے میں انہوں نے نہ صرف پارٹی کو سنبھالا دیا بلکہ انہوں نے مشرف کے مارشل لاء میں ڈٹ کر تما م تر مشکل حالات کا مقابلہ کیا،اس جدوجہد میں بیگم کلثوم کی گاڑی کو کرین سے ہوا میں معلق کرنے والی تصویر نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیاتھا،یہ تصویر دنیا بھر کے اخبارات کے فرنٹ پر اس طرح لگی کہ خود مشرف کے لیے اس تصویر پر جواب دینا مشکل ہوگیا تھا۔
اس دوران انہوں نے پاکستان کے کونے کونے میں جاکر نوازشریف کی رہائی کے لیے ایسی جدوجہد کی کہ جنرل مشرف اتنا مجبور ہوگیا کہ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ نوازشریف کواب مزید قید میں نہیں رکھ سکتا ،مشرف یہ جانتا تھا کہ نوازشریف کی رہائی کے بعد حالات کچھ ایسے پیدا ہوسکتے ہیں جو اس کی حکومت اور خود اس کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں لہذا اس نے نوازشریف کی جلاوطنی کے لیے سعودی حکومت سے ایک معاہدہ کیااور نوازشریف کو سعودی عرب بھیج کر اپنی حکومت چلانے کے لیے ماحول کو سازگار بنالیا۔
یہ سب کچھ یقینی طور پر بیگم کلثوم نوازکی سیاسی جدوجہد کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک سخت ترین ڈکٹیٹرنوازشریف کو رہا کرنے پر مجبور ہوا،اس دوران بیگم کلثوم نوازنے اپنے آپ کو انتہائی آہنی خاتون کے طورپر منوالیا تھا،بیگم کلثوم نوازنے لاہور میں این اے120 سے الیکشن بھی لڑااور کامیابی حاصل کی،یہ وہ وقت تھا کہ اس حلقے کو مسلم لیگ ن کے لیے اس قدرمشکوک بنادیا گیا تھا کہ خود مریم نوازبھی اس حلقے سے لڑنے سے ڈررہی تھی مگر شریف خاندان جانتاتھا کہ لوگ بیگم کلثوم نواز سے بہت محبت کرتے ہیں لہذا انہوں نے بیگم کلثوم کو اس حلقے سے اتارا جہاں انہوں نے کامیابی بھی حاصل کی۔
بیگم کلثوم عمر میں میاں نوازشریف سے ایک سال چھوٹی تھیں مگر نوازشریف بیگم کلثوم نوازکی ہر بات کو بہت غور سے سنتے اور اس پر فوری عملدرآمد بھی کرتے تھے اسی طرح خاندان میں بیگم کلثوم نوازکی ہر بات پر عمل درآمد کیا جاتاتھا یہاں تک تمام بچوں کی شاد ی تک کے فیصلے میں بھی بیگم کلثوم نوازہی کی رائے کا احترام کیا گیا،بیگم کلثوم نے شوہر کی اسیری میں ہر مقام پر یہ بات کہی کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں جس روز ان کے شوہر رہا ہوئے وہ اسی روز کچن میں چلی جائیں گی ،میاں صاحب رہا ہوئے تو وہ واقعی اپنے گھر میں واپس چلی گئی اس کے بعد کسی نے بھی ان کی کوئی پریس کانفرنس یا جلسے میں پھر کوئی تقریر نہ سنی،کیونکہ اس سے قبل کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ نوازشریف کی بیگم جس کی کسی نے آج تک ایک جھلک بھی نہ دیکھی تھی وہ اس طرح میدان سیاست میں آئے گی اوراس ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں کے ہوش ٹھکانے لگادیں گی۔
بیگم کلثوم نواز اس ملک کی چند ایک ایسے سیاستدانوں میں شامل تھیں جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا،نوازشریف کی نااہلی کے بعد یہ امکانات ظاہر کیے جارہے تھے کہ شاید ایک بار پھر سے بیگم کلثو م نوازکو پارٹی کی صدارت دیدی جائے گی اور ایسا ممکن بھی نظر آتا تھا،مگر اس دوران جب وہ لند ن میں اپنے چیک اپ کے لیے آئی تو اس روزانہیں گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی تو اس ملک میں اس بات پر بہت شور مچایاگیا کہ یہ سب مسلم لیگ ن کی چال بازیاں ہیں اور لندن سے پاکستان نہ آنے کے بہانے ہیں ،مگر بیگم کلثوم انتہائی بہادرخاتون تھی انہوں نے اپنے شوہر کو وطن واپس جانے کا کہا اور عدالتوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی دیا ۔
اس طرح میاں نوازشریف پاکستان آئے اورلندن گئے اور ان کی عیادت کی مگر ایک روز بیگم کلثوم نواز کی حالت اس قدر خراب ہوئی کہ وہ نہ تو بول سکتی تھی اور نہ ہی کسی بات کی جنبش ان کے ہاتھوں میں رہی۔ وطن واپسی کے موقع پر نوازشریف کی ایک ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ بے ہوشی کے عالم میں لیٹی بیگم کلثوم نوازکو جگانے کی کوشش کررہے ہیں ،جس میں نوازشریف کو یہ کہتے سنا جاسکتاہے کہ باؤجی آنکھیں کھولو ،کلثوم آنکھیں کھولو ،کلثوم باؤجی آنکھیں کھولو،اللہ آپ کو تندرستی عطا کرے، اس ویڈیو کو آج بیگم کلثوم نوازکی وفات کے بعد دیکھتے ہوئے جس قدر دلی دکھ ہوا ہے اسے بیان کرنا بھی بہت مشکل ہے ۔ان کی بیماری پر جس طرح سے اس ملک میں انسانی رویوں کی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھا گیا اس کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی ۔
ایسا محسوس ہوا کہ اس ملک میں کسی بھی بیمار کو اپنی بیماری ثابت کرنے کے لیے مرکے دکھانا پڑتاہے ،انتخابات کے دوران کچھ سیاسی حریفوں کی جانب سے جس انداز میں بیگم کلثوم نوازکی علالت کامذاق اڑایا گیا تھا وہ بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ،کچھ لوگوں کایہ ماننا تھا کہ نوازشریف سزاؤں سے بچنے کے لیے اپنی بیمار بیگم کا سہارا لے رہے ہیں کچھ نے تو کہاکہ بیگم کلثوم کاانتقال ہوچکاہے اور نوازشریف بیگم کلثوم نواز کی وفات کو الیکشن میں کامیابی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ، آج وہ ہی سیاستدان ان کی وفات پراظہار افسوس کے ٹکرز چلوارہے ہیں۔
فی الحال بیگم کلثوم نوازکی وفات موجودہ حکومت اور نظام عدل کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ جب نوازشریف نے عدالت سے درخواست کی کہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت خراب ہے اس لیے وہ اپنی بیگم کی عیادت کے لیے کچھ روز کے لیے لندن جانا چاہتے تو عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا تھا،اس عمل سے عوام کے دلوں ایک رنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی تھی جو اب ان کی وفات سے عوام کے دلوں میں مزید تقویت کا باعث بن سکتی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بیگم کلثوم نوازایک بہادر خاتون تھی مگر اس کے ساتھ وہ ایک وفا شعار بیوی اور ایک بہترین والدہ بھی تھی ،ان کی وفات کا سن کر اس دل کو جو صدمہ پہنچاہے اسے بیان کرنا بہت مشکل ہوگا۔ خیر یہ فیصلہ درست ہے کہ بیگم کلثوم نوازکی تدفین جاتی عمرہ لاہور میں کی جارہی ہے کیونکہ اس ملک میں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جو اس عظیم اور بہادر عورت کی قبر پر آکر فاتحہ خوانی کی خواہش رکھتے ہوں گے ۔