The news is by your side.

ضیا الحق کی مجلس شوریٰ اورفرشتہ صفت سیاست داں

جنرل ضیا الحق کی قیادت میں ایک کیبنٹ میٹنگ کے دوران تمام مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور کیبنٹ منسٹرز سمیت بہت سے دوسرے لوگ بھی بیٹھے تھے ،اس وقت جنرل ضیاءالحق نے اپنی ایک انوکھی خواہش کا اظہا رکیا اور کہاکہ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو ہم سے بہت سی شکایات ہیں کہ تمام پاور ہمارے پاس موجود ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسی باڈی ’مجلس شوریٰ ‘کی ہوجس میں تمام صوبوں کے ایسے لوگ شامل ہو جس میں درج ذیل خوبیاں ہو جن کو دیکھتے ہوئے لوگ ان کی باتوں پر یقین کرسکیں، جو عوام کو اس گمان سے نکالنے کا کام کرسکیں ،جنرل ضیاءالحق کے ہاتھ میں فرشتہ صفت انسانوں کی تلاش میں بنائی گئی ایک لسٹ موجود تھی اوراس محفل میں بیٹھے جنرلز کو جو گورنر بھی تھے کہا کہ اپنے اپنے صوبوں سے مجھے یہ لوگ تلاش کرکے دیں جن میں یہ تمام خوبیاں موجود ہو۔

لسٹ میں لکھی پہلی خوبی یہ تھی کہ اس شخص نے کبھی شراب نہ پی ہو،نمبر دو کہ کبھی وہ آدمی غیر شرعی معاملات میں نہ پھنسا ہو ،اور نمبر تین کہ صوم وصلوة کا پابند ہو ، اس حکم نامے کے ساتھ ہی جنرل ضیا الحق نے کہاکہ مجھے یہ تمام خوبیوں والے آدمی تین ہفتوں کے اندر اندر چاہیے اس موقع پر جنرل ضیا الحق کے ساتھ ہی بیٹھے جنرل فضل حق نے لب کشائی کی کہ جہاں تک میری لسٹ کا معاملہ ہے اس میں آپ تین ہفتے کی دیری کا انتظار نہ کریں بلکہ میں ابھی ہی آپ کو بتادیتاہو ں کہ میرے صوبے میں ان تمام خوبیوں والا کوئی بھی بندہ موجود نہیں ہے ، جنرل فضل حق نے کہاکہ آپ نے مجھے بنایا ہوا ہے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور میں گورنر بھی اور چیف منسٹر بھی ہوں تو کیا آپ نے مجھ میں یہ تمام خوبیاں دیکھ کر یہ سب کچھ بنایا تھا؟ جنرل فضل حق نے کہاان میں سے کونسا ایسا عیب ہے جو مجھ میں نہیں ہے پھر بھی آپ نے مجھے اس منصب پر فائز کیاہواہے ؟ جنرل فضل حق نے کہاکہ یہ جو آپ کی کیبنٹ میٹنگ بیٹھی ہوئی ہے اب ذرا میں ان کا بھی تعارف کرواتا چلوں!! یہ جو فلاں صاحب بیٹھے ہیں ان میں کیا یہ تمام خوبیاں موجود ہیں ؟ جنرل فضل حق صاحب جب باری باری باقی لوگوں کی طرف آنے لگے تو جنرل ضیاءالحق صاحب نے انہیں مزید بولنے سے روک دیا وہ سمجھ گئے کہ یہ اب کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور سب کا ہی ذکر خیر کرکے رہیں گے اور انہیں خاموش رہنے کا کہتے ہوئے کہا کہ فضلی فضلی تم کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے ۔

جن فرشتہ صفت خوبیوں والاسابق یا موجودہ عوامی نمائندہ ڈھونڈنے کے لیے جنرل ضیاءالحق صاحب بے چین تھے آج کل ایسا ہی لیڈر ڈھونڈنے کے لیے ہماری میڈیااور عوام بے چین دکھائی دیتی ہے، فی الحال اس وقت تمام بدکرداریاں جس انداز میں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے نام سے لگائی جارہی ہیں اس پر سب کو ہی ایک اعتماد سا ہوچلاہے۔ اور جس لسٹ کو جنرل ضیاءالحق نے اپنی خواہش کے مطابق تیارکیاتھااس کی کابینہ شاید حکومتی بینچوں پر بیٹھی ہے جو یقیناً سارے کے سارے دودھ کے دھلے سیاستدانوں پر مشتعمل ہے جو اپنی مجلس شوریٰ کے لیے جنرل ضیاءالحق کو درکار تھی ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان نے قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچایا ہومگر معاملہ ان دونوں خاندانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے جو ان کی حکومتوں کے دوران ان کی کابینہ کاحصہ رہے اور جن میں سے پچاس فیصد سے زیادہ لوگ آج دودھ کی دھلی حکومت میں اپنی اپنی گزشتہ سے پیوستہ ذمہ دارویوں کو اداکرنے میں لگے ہوئے ہیں ،جنرل فضل حق نے جس انداز میں ایک بڑے جرنیل کے سامنے حق بات کہی تھی لگتا ہے آج پاکستان میں کوئی بھی ایک آدمی ایسا نہیں ہے جو اچھے اور برے سیاستدان کی تشریح اس انداز میں کرسکے ۔

جنرل ضیا نے پاک دامنوں کی مجلس شوریٰ کا انتخاب اس لیے کرنے کی ٹھانی کہ ان کی نظر میں وہ لوگ عوام کو زیادہ اچھے طریقے سے سمجھاسکیں گے کہ عوام حکومت کے لیے جو سوچ رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔جبکہ وہ لوگ جوصوبے میں بیٹھ کر عوام کی اصلاح کرینگے وہ لوگ نہ تو شرابی ہونگے نہ ہی زانی اور بدکردار ہونگے اور سب سے بڑھ کر صوم وصلوة کے مکمل پابند ہو ں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس زمین پر ایسے لوگوں کو ڈھونڈے تو کہاں جاکر ڈھونڈیں ، کیا ہمارے منتخب ایوانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن پر بالکل ایسے ہی اعتبارکیاجاسکے کہ یہ سچے ہیں اور ہمارے لیے ہمیشہ حق گوئی کا راستہ اختیارکرتے ہوئے وہ تمام وعدے پورے کررہے ہیں جو انہوں نے انتخابات سے قبل کیے یعنی ایک کروڑنوکریاں پچاس لاکھ مکانات ،قرضے سے نجات ،مہنگائی نہیں کریں گے ، اور ایک ایسی اسلامی ریاست کی طرز پر حکومت بنائیں گے جو مدینے کی ریاست کی طرز پر ہوگی یعنی ، کسی کمر عمر حافظِ قران کے بجائے کسی اداکارہ کوقومی اعزاز سے بھی نہیں نوازیں گے۔

سوال صرف یہ پوچھنا یہ ہے کہ وہ وعدے اب کب پورے ہوں گے ؟ جو نوازشریف کو گھربھیجنے اور اقتدار میں آنے کے لیے عوام سے کیے گئے ،ایک سوال اور بھی بنتاہے ۔مجرم نوازشریف اور زرداری ہی کیوں ہیں ؟ کیا کبھی اس اسپیکر پنجاب اسمبلی سے سوال ہوگاجو اسی نوازشریف اور شہباز شریف کو اپنے کاندھے پر بٹھا کر داتا دربار کی حاضری لگوانے کے لیے آیا کرتاتھا، کیا کچھ سوالات ان حکومتی وزرا سے پوچھے جائیں گے جو ہر دور میں ہی پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں جن کے ایکڑوں پر پھیلے گھروکے اخراجات کاذریعہ ہی حکومت میں رہنا بن چکاہے ۔جہاں تک جنرل ضیاءالحق کی ایک نیک مجلس شوریٰ کا تعلق ہے اس میں شیخ رشید صاحب کی کم ازکم غیر شرعی معاملات میں نہ پھنسنے والی خوبی موجودہے جو ان کے ہر فلسفے اور نہ پوری ہونے والی پیشن گوئی کومیڈیا والے بریکنگ نیوزبناکرچلادیتے ہیں ۔

کیا موجودہ حکمرانوں میں شراب نہ پینے والی صفت موجود ہے ،کیا ہماری کابینہ میں سارے کے سارے ہی صوم وصلوة کے پابند ہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آخرجھگڑ اکیا ہے ؟ کیا مجرم صرف میاں نوازشر یف اور آصف زرداری ہی ہیں یا ان کی لوٹ مار میں ساتھ دینے والے بھی برابر کے شریک ہیں اگر ہیں تو وزیراعظم عمران خان صاحب آپ ان کو بھی پکڑیں اور شروعات حکومتی بینچوں سے کریں کیونکہ جو لوگ کل تک ان مجرموں کے ساتھی تھے ان میں سے کچھ نہیں بلکہ بہت سارے آج آپ کے ساتھی ہیں ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں