بچوں کی تعلیم و تربیت میں ابتدائی تعلیمی ادارے یعنی اسکول کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے
اس لیے کہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی سال سب سے اہم ہیں
اور اس کی شخصیت کی تعمیر کی خاکہ اسی زمانے میں ترتیب پاجاتا ہےگزشتہ سے پیوستہ
سرکاری اسکولوں میں بھی اگرچہ بہت سے معاملات بہتر شکل میں نہیں ہیں بڑے شہروں میں تو پھر بھی صورت حال خاصی بہتر ہے کیوں کہ یہاں زیادہ تر والدین بھی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کے بیشتر تعلیمی معاملات پہ نظر رکھتے ہیں جبکہ اندرون ملک کے چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی اور انتظامی کیفیت بہ نسبت بڑے شہروں کے، بہت خراب کہلائی جاسکتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اقرباءپروری اور سیاسی بنیادوں پہ نوکریاں دی جانا ہے، ایک سیاسی جماعت کا تو نعرہ ہی روزگار دیے جانے کا ہے اب چاہے قابلیت اور اہلیت ہو نہ ہو لیکن ووٹ حاصل کرنے کی خاطر یا رشتے داریاں، تعلقات نبھانے اور باہمی مفادات کی تکمیل کے لیے نوکریاں دی جاتی ہیں اور اس سلسلے کا سب سے آسان ہدف تعلیمی شعبہ ہے ۔
چند سال قبل بی بی سی اردو سروس نے پاکستان کے متعدد شہروں اور خاص طور پہ اندرون ملک کے اسکولوں کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے ایک سروے کیا تھا اس سے ایک تو ہمارے یہاں کے استادوں کی علمی استعداد اور اہلیت کا بھرم کھل کر سامنے آگیا دوسرے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ لوگ تعلیم کو بہت آسان اور سہل الحصول ہدف سمجھتے ہیں اور گاؤں دیہات میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ جسے کہیں اور نوکری نہ ملے اسے کم از کم پڑھانے کی نوکری تو ہر حال میں ہی مل جائے گی (بات تو سچ ہے مگربات ہے رسوائی کی) لیکن اس تمام گفتگو سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ دیہی علاقوں کے تمام استاد نکمے اور نا اہل ہیں، نہیں ایسی بات قطعی نہیں ہے وہاں بھی بہت تعلیم یافتہ، اعلیٰ تعلیمی اہلیت اور استعداد کے حامل اساتذہ ہیں جو باقاعدہ اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ تربیتی اور پیشہ ورانہ اسناد کے حامل ہیں، یہ تو ان چند فی صد افراد کا ذکر تھا جو بغیر کسی اہلیت کے سیاسی بنیادوں پر یا اقرباءپروری کے باعث اس شعبے میں گھس آئے بلکہ زبردستی ٹھونسے گئے اور اب نہ صرف وہ اپنی نااہلی کی وجہ سے طلباء کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں بلکہ تعلیم جیسے مقدس شعبے کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔
سرکاری اسکولوں میں لاکھ خرابیاں ہوں لیکن جو ایک بات سب سے اچھی ہے و ہ یہ ہے کہ ان میں بغیر ایک خاص تعلیمی قابلیت اور خاص تعلیمی ڈگری کے ملازمت نہیں ملتی جبکہ اس کے برعکس نجی اسکول اس قانون سے ماورا ءہیں یا کم از کم وہ خود کو ایسا سمجھتے ہیں اور ان کے لیے کوئی ایسے قوانین نہیں بنائے گئے کہ وہ بھی اس سرکاری ضابطے کی پیروی کریں۔
بہت افسوس ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ بہت سے نجی اسکول ایسے ہیں جو اپنے میٹرک کر کے جانے والے ان طلباء کو اپنے یہاں ہی بحیثیت استاد نوکری کی پیشکش کرتے ہیں جن کا ابھی میٹرک کا رزلٹ بھی نہیں آیا ہوتا ہے جس پہ گھر والے یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں اس طرح ان کے بچے کو ایک مفید اور مثبت سرگرمی مل جائے گی جس سے وہ ادھر ادھر کسی ناپسندیدہ اور نازیبا سرگرمی میں اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا جبکہ اسکول مالکان کا اس میں مفاد یہ ہوتا ہے کہ ایسے کم تعلیم یافتہ اور ناتجربہ کار استادوں کو زیادہ تنخواہ نہیں دینا پڑتی اس لیے کہ ایسے نوجوان بچوں پہ گھر چلانے کی ذمہ داری تو ہوتی نہیں ہے وہ صرف اپنے جیب خرچ کی رقم جتنی تنخواہ لےکر ہی خوش ہوجاتے ہیں وہ آگے اگر پڑھتے بھی ہیں تو بیرونی(پرائیویٹ) امید وار کے طور پر یا کسی ایسے کالج میں داخلہ لیتے ہیں جہاں حاضری کی سختی نہ ہو اور کوچنگ سینٹرز سے وہ اپنی پڑھائی میں مدد لے کے امتحان پاس کرتے ہیں۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ مظلوم کردار ان والدین کا ہے کہ جو اپنے بچوں کو حصول علم کی غرض سے اسکول بھیجتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر ان کے بچوں کو ایسے ناتجربہ کار استاد پڑھارہے ہوتے ہیں، بچوں کو جب کچھ بھی نہیں آتا سارا سال گزرنے پر بھی وہ کورے کے کورے ہی رہتے ہیں تب مجبوراً والدین کو ان کے لیے ٹیوشن کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہت زیادتی والی بات ہے۔
وہ اسکول جو اپنے ہی نان میٹرک یا یوں کہہ لیجیے کہ تازہ تازہ میٹرک کا امتحان دینے والے طلباء کو اپنے یہاں پڑھانے پہ مامور کرتے ہیں وہ اپنے اسکول کے ان طلباء کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی کرتے ہیں جو ایسے ناتجربہ کار استادوں سے پڑھتے ہیں۔ کسی کو تعلیم دینا کوئی معمولی اور کم اہم کام نہیں ہے استاد کا علم اپنے طلباء سے زیادہ بھی ہونا چاہیے اور وسیع بھی۔
ایک اچھے استاد کو ہمیشہ مطالعہ کرنا اور کرتے ہی رہنا چاہیے تاکہ وہ نصاب اور نصاب سے متعلقہ ان تمام سوالات کے جواب دے سکے جو طلباء کے ذہن میں در آتے ہیں اور جیسا کہ ارسطو نے کہا کہ علم تجسس کا دوسرا نام ہے علم کیا اور کیوں جیسے سوالوں پر مشتمل ہے تو اس کا مطلب ہے استاد کو طلباء کی طرف سے کیے جانے والے ایسے تمام سوالوں کے جواب آنا چاہیے ہیں، ورنہ اگر استاد طلباءکو بہتر طور پر مطمئن نہ کرسکا تو ایک تو ان کے دل میں استاد کی کوئی وقعت نہ رہے گی ۔دوسرے طلباءکا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجائے گا ۔ ذرا سوچیے تو صحیح کہ ہم تعلیم جیسے انتہائی اہم اور حساس شعبے کے ساتھ کر کیا رہے ہیں؟، کیا اس طرح ہم آج کے تیزرفتار ترین ترقی کرنے والے دور کے ہم قدم ہوسکیں گے؟ اس بات پہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔