The news is by your side.

پاکستان کے تعلیمی نظام میں خامی کیا ہے؟ (چوتھی قسط)۔

پاکستان کے لوگ ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیتے ہیں کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں عالمی سطح پر پاکستان کے لوگوں نے ملک کا نام روشن نہ کیا ہو، تعلیم کے شعبے میں بھی نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرون ملک بھی ہمارے طالب علموں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں ، وطن عزیز کی عزت و وقار میں اضافہ کیا ہےدئ

گزشتہ سے پیوستہ

مہذب دنیا نے یہ راز بہت پہلے جان لیا تھا کہ ترقی کا راستہ مکتب سے ہوکر گزرتا ہے یعنی تعلیم ہی ترقی کا درست راستہ ہے۔ اب یہ نکتہ حکومتی اداروں نے تو اتنا سمجھا نہ سمجھا جتنا کہ چند عقل مند اور یاران ِنکتہ داں نے سمجھا اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو کامیاب بلکہ کامیاب کے مقابلے میں خوشحال کا لفظ استعمال کرنا زیادہ مناسب ہوگا، بنالیا۔ یہ ذکرِخیر ان نجی اسکولوں کا ہے جنھوں نے تعلیم دینے کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے ان کے ہتھکنڈوں اور استحصال کے طریقوں سے سب ہی واقف ہیں۔

بچوں کی تعلیم و تربیت میں ابتدائی تعلیمی ادارے یعنی اسکول کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے اس لیے کہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی سال سب سے اہم ہیں اور اس کی شخصیت کی تعمیر کی خاکہ اسی زمانے میں ترتیب پاجاتا ہے اب اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اسکولوں کی ذمہ داری سب سے اہم اور نازک ہے اور اس اہم بات کو ہمارے نجی اسکول مالکان نے اپنے فائدے کے لیے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔

آپ جس اسکول میں جائیں ، ہر جگہ ان کی اپنی مرضی کے ہی قاعدے ضابطے ملیں گے یوں لگتا ہے کہ سرکاری سطح پر نجی اسکولوں کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئ ہے، ایسا نہیں ہے دیگر نجی اداروں کی طرح نجی اسکولوں کےلیے بھی قوانین اور ضابطے ہیں لیکن نجی اسکول مالکان اس قدر مضبوط حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ سرکاری قوانین کی پروا کم ہی کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال اس بات سے دی جاسکتی ہے کہ عموماً نجی اسکولوں میں چھٹیاں حکومت پاکستان کے اعلان کردہ سرکاری حکم نامے کے مطابق نہیں ہوتیں بلکہ ہر اسکول مالک اپنی مرضی سے چھٹیوں کا فیصلہ کرتا ہے جیسے گرمیوں کی چھٹیاں سرکاری طور پر دو ماہ کی ہوتی ہیں لیکن بیشتر چھوٹے نجی اسکول بہت سے بہت ڈیڑھ مہینے ہی کی چھٹی دیتے ہیں اورستم یہ کہ ان اسکولوں کے اساتذہ کو تو مہینے یا سوا مہینے سے زیادہ چھٹی دی ہی نہیں جاتی۔

ایک اور بات جو سمجھ میں نہ آنے والی ہے وہ یہ کہ نجی اسکولز کے نصاب میں اتنا فرق کیوں ہوتا ہے ایک اسکول میں طلباء کو جو نصاب پڑھایا جاتا ہے دوسرے اسکول میں اس سے قطعی مختلف کتابیں ہوں گی جو بچوں کو پڑھائی جارہی ہوں گی، چلیں یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ہر اسکول اپنے یہاں پڑھانے کے لیے مختلف مصنفین کی کتابیں منتخب کرتا ہے اور یہ اسکول کے مالک اور ان کی مشاورتی ٹیم کے ارکان یعنی بورڈز آف گورنرز کی صوابدید پر منحصر ہے جو کتب انھیں اپنے یہاں زیرتعلیم طلباکی ذہنی استعداد کے مطابق بہتر اور موزوں لگیں وہ انھیں اپنے تعلیمی ادارے میں پڑھائیں، لیکن نصابی کتب کی منظوری کسی قاعدے اور اصول کے تحت ہونا چاہیے یہ بات کسی طرح بھی طلباکے لیے مناسب اور بہتر نہیں کہ ایک اسکول میں پڑھائی جانے والی کتابیں برطانوی مصنفین کے زورِقلم کا شاہکار ہیں تو دوسرے اسکول کی نصابی کتب کسی امریکی ماہرتعلیم کی تحریری صلاحیتوں کا نمونہ ہیں۔

ذرا یہ بات دل پہ ہاتھ رکھ کےسوچیں تو سہی ،ہر صاحب قلم جو کچھ رقم کرے گا وہ اس کے اپنے معاشرے اور اپنے یہاں کے ماحول کے مطابق ہوگا ہمارے معاشرے کا ماحول ہمارا پس منظر مغربی معاشرے کے لوگوں سے قطعی مختلف ہے تو پھر ہم اپنے یہاں کے بچوں کو وہ مواد کیوں نہ پڑھائیں جو ہماری تہذیبی اور دینی روایات سے وابستہ ہو، ان کو وہ تعلیم کیوں نہ دی جائے کہ ان میں اپنے ملک سے محبت کا جذبہ پوری شدت سے پنپے تاکہ کل کو جب یہ بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں آکر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو اپنا کام پوری ایمانداری سے انجام دیں یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب ان کی جڑیں اس ہی مٹی میں پیوست ہوں گی اور اس کے لیے اسکول کا کردار بہت اہم ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی نجی اسکولوں میں اسٹیشنری کی دکان ضرور ہوتی ہے ۔اسکول میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب اور اسکول کے مخصوص مونوگرام والی کاپیاں وہاں سے ہی خریدنے پر اصرار کیا جاتا ہے، جیسا کہ اسکول کا یونیفارم کسی خاص دکان سے خریدنے کی پرزور تاکید کی جاتی ہے کیوں؟ کیوں کہ یہ بھی اکثر اسکول مالکان کے ہی جز وقتی کاروبار ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں نجی اسکول مالکان کے پاس والدین کی جیبوں سے رقم نکلوانے کے اور بھی کئی حربے ہیں جن کی بدولت یہ لوگ اس قدر پھل پھول رہے ہیں کہ ایک اسکول سے متعدد اسکول بنا لیے ہیں ۔

کچھ بہت معتبر اور نام والے اسکولز کی شاخیں تو ملک میں ہر جگہ ہیں لیکن ان کی اس تیز رفتار ترقی کا سبب ان کے تعلیمی نظام میں نظم و ضبط ہے، ملک بھر میں پھیلی ہوئی ان کی تمام تعلیمی شاخوں میں سلیبس ایک ساتھ ایک ہی ٹائم ٹیبل کے تحت پڑھایا جاتا ہے مثال کے طور پر اگر آج اس اسکول کی کراچی ریجن کی شاخوں میں سبق نمبر چھ پڑھایا گیا ہے تو ملک کے ہر ریجن میں وہ ہی سبق پڑھایا گیا ہوگا ۔کتنا اچھا ہو کہ ایسی ہم آہنگی نجی اور سرکاری تمام اسکولوں میں پیدا ہوجائے ۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ طلبا کو ہوگا۔ ان کا تعلیمی معیار بہتر اور یکساں ہوجائےگا جس سے میرٹ یعنی اہلیت کو فروغ ملے گا اور نا انصافی کا خاتمہ ہوگا اور یہ اصول صرف اسی ایک اسکول کی شاخوں کے لیے اور نجی طور پر نہ ہو بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس اچھے اصول کو حکومت سرکاری اسکولوں میں بھی رائج کرے ،اسی طرح تعلیمی شعبے میں بیشتر بدعنوانیوں اور نا ہمواریوں کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا۔

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں