اب سے چند دہائی پہلے ہر محلے اور گلی کے نکڑ پر ایک دو لائبریری ضرور ہوا کرتی تھیں جہاں سے ہرموضوع پر چار آنے یا آٹھ آنے روز کرایہ پر عمدہ اور معلوماتی کتب آسانی سے دستیاب ہوجاتی تھیں ۔ مجھے ناظم آباد میں ’معیز لائبریری‘ اب تک یاد ہے۔ دستگیر سوسائٹی میں بھی ایک اچھا کتب خانہ’مسرور لائبریری‘ کے نام سےہوا کرتا تھا ۔ یہیں سے مجھے بھی کتب بینی کا چسکا پڑا ۔ ان لاِئبریروں کی بدولت عوام میں کتابیں عام ہوئیں اور کتب بینی کو بہت فروغ ملا ۔ مرد ۔ خواتین اور بچوں کو آسانی سے ان کے ذوق کے مطابق کتابیں پڑھنے کو مل جاتیں ۔ ان محلے اور گلی کے نکڑ پر قائم لائبریریوں اور یہاں سے حاصل کردہ کتابوں کا ایک بڑا احسان یہ ہوا کہ ا ن کی وجہ سے ہمیں اپنے معاشرے اور اقدار کو سمجھنے کا موقع ملا اور ہم اپنی تہذیب و تاریخ سے بڑی حد تک جڑے بھی رہے ۔ ان لائبریریوں کے علاوہ بھی ان دنوں تقریباً ہر اوسط درجے کے گھانے میں کتابیں اور رسائل ضرور نظر آتے تھے اور کتاب ہر گھر کا ایک لازمی حصہ تھی ۔
میرا تعلق بھی ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا ۔ جہاں علم و ادب سے گھر کے ہر فرد کو لگاو ٔتھا ۔ میں نے بچپن سے یہی دیکھا کہ گھر کے ہر فرد کے ہاتھ میں اس کی پسند اور دلچسپی کی کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ ضرور ہوتا ۔
والد مرحوم جماعت اسلامی کے بانی اراکین میں سے تھے لہذا ’ترجمان القرآن ‘ اور جماعت کے کئی دوسرے جریدے گھر پر پابندی سے آتے تھے۔ کلام اقبال پر ابا کو بہت دسترس تھی ۔ وہ علامہ کے اردو اور فارسی کلام بہت لہک کر پڑھا کرتے تھے ’تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست ‘اور’رازی ہو کہ رومی ہو عرفی ہو غزالی ہو ۔۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی ‘ ایک وجد کے عالم میں باآواز بلند پڑھتے اور ہم سب کو اس کا مطلب بھی بتاتے ۔ والد مرحوم اردو اور انگریزی کے علاوہ فارسی پر مکمل دسترس اور عبور رکھتے تھے ۔ ان کی تحریر اکثر ’خط شکستہ‘ میں ہوتی جو ایک زمانے میں اہل علم حضرات کی پہچان تھی اب تو یہ تحریر اکثر لوگ پڑھ ہی نہی پاتے ۔ اس زمانے میں اردو ’مفرس ‘ یعنی فارسی زدہ اور’معرب ‘ یعنی عربی زدہ بولنا اور لکھنا تعلیم یافتہ لوگوں اور تہذیب یافتہ گھرانوں کی پہچان تھی ( مفرس اور معرب میں’ر ‘ تشدید کے ساتھ پڑھیں )۔
اماں کے علمی ذوق کے کیا کہنے ،ان کو شاہنامہ اسلام کے علاوہ رضیہ بٹ ، اے آر خاتون، منٹو، عصمت چغتائی، مجاز اورجذبی کو پڑھتے دیکھا ۔ ابن صفی کی جاسوسی دنیا اور ہر قسم کا ادب بھی پڑھتیں۔ انہوں نے محلے کی لائبریری کی تمام کتب پڑھ ڈالیں تھیں ہم روز ان کے لئے لائبریری سے کتابیں لاتے لیکن جو کتاب لاؤ اماں کہتیں یہ تو ہم پڑھ چکے ہیں اور ہم پھر دوسری کتاب لانے چلے جاتے ۔ زچ آکر لائبریری والا اپنا رجسٹر ہی گھر بھجوادیتا کہ اماں خود دیکھ لیں کونسی کتاب نہیں پڑھی وہ منگوالیں ۔ اماں مثنوی زہر عشق ۔ مثنوی گل بکاؤلی اور نجانے کیا کیا یاد کیے ہوئے تھیں۔ مثنوی زہر عشق کا مشہور مصرعہ ’جس محلے میں تھا ہمارا گھر وہیں رہتا تھا ایک سوداگر ‘ پہلی مرتبہ انہی کی زبانی سنا تھا۔ شعر بھی بے تحاشہ یاد تھے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی شعر جڑ دیتیں ۔
میری عادت تھی کہ گھر آتے ہی پہلے اماں کے پاس کچھ دیر بیٹھتا پھر اپنے کمرے میں جاتا ۔ ایک دن میں رات دیر سے گھر آیا حسب معمول سب سے پہلے ان کے پاس گیا اور دیر سے آنے کی کچھ نا معقول سی وجوہات پیش کرنے لگا تو انہوں نے ایک شعر پڑھ دیا ۔۔’ نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے ۔۔۔ پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے‘ میں گڑ بڑا کر رہ گیا اور اپنے کمرے میں چلے جانے ہی میں عافیت سمجھی ۔ اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ ادبی ذوق ان گھریلو خواتین کا تھا جنہوں نے بمشکل چند جماعتیں ہی پڑھی ہوں گی ۔
- پیدا کہاں ایسے پرا گندہ طبع لوگ
بڑے بھائی مرحوم آفاق احمد صحافت سے منسلک تھے۔ وہ ریڈیو پر ڈرامے بھی کرتے لیکن ابا سے چھپ کر ۔ اس زمانے میں ریڈیو پر اسٹوڈیو نمبر نو سے بہت اعلی ٰکھیل پیش کیے جاتے اور وہ اکثر ان کا حصہ ہوتے ۔ مجھے آج بھی ان کا ایک ڈرامہ ’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘ ہلکا سا یاد ہے جو شاید آغا ناصر کا لکھا ہوا تھا ۔ ان دنوں ڈرامے ڈائرکٹ آن ایر ہوتے اور کھیل کے آخر میں صدا کاروں کے نام بھی نشر ہوتے ۔جس دن ان کا ڈرامہ ہوتا ہم سب سنتے لیکن ہمیں ان کی یہ ہدایت تھی کہ ڈرامہ ختم ہوتے ہی ریڈیو کی آواز کم کر دیں یا اسے بند کردیا جاے کہ کہیں ابا ان کا نام نہ سن لیں ۔ بھائی صاحب کی اخباری ملازمت کی وجہ سے ہمارے گھر ان کے اپنے اخبار کے علاوہ روزانہ کئی دوسرے اخبارات بھی آتے ۔ اس کے علاوہ بھی رات کو جب وہ واپس گھر آتے تو کئی ایوننگ پیپرز جیسے لیڈر،ڈیلی نیوزاور اردو روزنامے بھی ساتھ لاتے ۔ بھائی صاحب کا رجحان سوشلزم کی طرف تھا لہذا گھر میں اشتراکی ادب بھی دیکھا ، کارل مارکس ، چیخوف اور ٹالسٹائی کے علاوہ خلیل جبران کی تصانیف گھر میں نظر آتیں۔
دوسرے بھائی اقبال فیصل صاحب پروفیشنل آرٹسٹ تھے۔ ان کی اپنی دنیا تھی ان کی وجہ سے صادقین ،پکاسو ، مائیکل انجیلو اور چغتائی کے ناموں سے ہمارے کان آشنا ہوئے ۔ بھائی صاحب کے پاس مختلف فنکاروں کی سوانح اور تصاویر کا ذخیرہ تھا اس کے علاوہ ان کی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ اور آئل کلر گھر میں جابجا بکھرے نظر آتے ان رنگوں کی بو اب تک ناک میں محسوس ہوتی ہے ۔ بھائی صاحب کافی عرصہ عظیم آرٹسٹ صادقین کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے ۔ آج بھی کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں صادقین صاحب کی بہت سی نادر پینٹنگز آویزاں ہیں جن کی تخلیق میں میرے مرحوم بھائی کی کاوش بھی شامل ہے ۔ بھائی کو صادقین صاحب سے ایک عقیدت تھی انکے ساتھ کام کرنے کو وہ ایک اعزاز سمجھتے ۔۔ بھائی کے تجریدی آرٹ اور خطاطی میں صادقین مرحوم کا رنگ جھلکتا ہے ۔ انکی قرآنی آیات پر مشتمل کیلی گرافی اور تجریری آرٹ میں بنائی گئی نیم عریاں تصاویر بھی اسی چھوٹے سے گھر کا حصہ تھیں جن کو وہ ابا سے چھپا کر بناتے اور رکھتے اور جب کبھی ابا کی نظر ان تصاویر پر پڑجاتی تو وہ نہایت ناگواری سےاستغفراللہ کہ کر وہاں سے چلے جاتے۔
گھر چھوٹا پڑنے لگا تو وہ الگ گھر میں منتقل ہوگئے جو انہیں اسٹیٹ بینک کی طرف سے ملا تھا اس کے باہری کمرے میں انہوں نے اپنا اسٹوڈیو بنا لیا وہاں ان کے ہم خیال دوست اور دوسرے آرٹسٹ کا بھی آنا جانا رھتا ۔ اقبال مہدی ، جمی انجینئر ، گوپال داس اور ایک کرسچن آرٹسٹ جیمس بھی آیا کرتے سب مل کر تصاویر بناتے آتے اور بھابھی کے ہاتھ کا کھانا کھاتے تھے۔ ایک شام ایک دلچسپ واقعہ ہوا عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا بھائی صاحب اپنے مصور دوستوں کے ہمراہ اسی اسٹوڈیو میں کسی پینٹنگ پر کام کررہے تھے ۔ چاروں طرف رنگ اور برش پھیلے ہوئے تھے کہ اچانک کال بل بجی انہوں نے دروازہ کھولا تو سامنے تبلیغی جماعت کی ٹیم تھی۔ قبل اس کے کی وہ اپنی تبلیغی بیان شروع کرتے بھائی صاحب ان کو اندر لے آئے اور اپنے دوستوں کا تعارف کرایا کہ یہ گوپال داس ہندو ہیں ۔ جمی انجینیر پارسی ہیں ۔ پھر جیمس کا تعارف کرایا ان کے بعد اقبال مہدی کے ’خیالات‘پر روشنی ڈالی اور کہا ان پر تبلیغ کرلیں اور راہ راست پر لے آئیں اور میری فکر نہ کریں میں اپنا جواب خود دے لوں گا ۔
تبلیغی جماعت نے شاید اسی کمرے کے کسی گوشے میں مغربی مشروب کی بھی بو سونگھ لی تھی جس کے بغیر بقول فنکار ’فن باہر ہی نہیں آتا‘ ۔ ۔ بیچارے تبلیغی لاحول پڑھتے اور اپنے ایمان کو بچا کر کمرے سے باہر نکل گئے اور پھر کبھی ان کے گھر کا رخ نہیں کیا۔ اقبال بھائی ہر قسم کی کتابیں پڑھتے لیکن وہ ابن صفی کے بہت رسیا تھے ۔ انکی کوئی کتاب ایسی نہ تھی جو انہوں نے نا پڑھی ہو، ا ن کی اپنی دنیا تھی اور جدیدیت کے قائل تھے لیکن تاریخِ اسلام اور سیدنا عمر کے مداح تھے ۔انہوں نے اسلامی تاریخ میں ایم۔اے کیا تھا۔
مجھ سے بڑے جاوید بھائی اچھی خاصی شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ وہ بھی تاریخ کے دلدادہ تھے ان کے مطالعے میں نسیم حجازی ، منٹو عصمت ، کرشن چندر وغیرہ رہتے ۔ ابن صفی مرحوم تو خیر گھر میں سب ہی پڑھتے اور وہ بھی ۔ جاوید بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے اور مجھے بچوں کی دنیا، تعلیمو تربیت اور بہت سی کہانی کی کتابیں لائبریری سے کرایہ پر لا کر دیتے اور پڑھواتے بھی۔ ان کی مجھ سے محبت اور انسیت بے مثال تھی ۔ افسوس کہ وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ میرے بھائی سے زیادہ میرے دوست تھے۔ ان کی کمی اور خلا کبھی پورا نہیں ہوگا۔ آج بھی جب یاد آتے ہیں تو دل کٹ سا جاتا ہے ۔
میں گھر کا سب سے کم علم فرد تھا ۔ بچپن میں تو بچوں کی دنیا ، تعلیم و تربیت اور کامکس پڑھتے گزرا ۔ دوسری کتابوں کا شوق بھی تھا لیکن کم کم ، ذرا بڑے ہوئے تو فکشن سے رغبت ہوئی پھر اشتراکی ادب اور انگریزی ادب کا شوق چرایا اور ہیرالڈ روبنس ۔ اگاتھا کرسٹی ۔ جیمز ہیڈ لے چیز ۔سارتر اور نجانے کیا کیا پڑھ ڈالا ۔ اردو سے مجھے کوئی خاص رغبت نہ تھی ۔ انگریزی اخبار و رسالے پڑھتا ۔ انگریزی کاؤ بوائے فلمیں اور دوسری جنگ عظیم پر بنی فلمیں دیکھتا ۔ راک ہڈسن، جیری لوئیسم گریگری پیک کی شاید ہی کوئی فلم چھوڑی ہو ۔۔۔۔۔ اردو کی طرف کیسے آنا ہوا ٹھیک سے یاد نہیں ۔ بھلا ہو کرنل محمد خان کی ’بجنگ آمد‘ اور شفیق الرحمان کی تصانیف کا جن کی وجہ سے اردو کی طرف طبیعت مائل ہوئی اور پھر ہر قسم کا ادب پڑھا ۔ منٹو ، کرشن چندر،بیدی، عصمت چغتائی ان کے علاوہ بھی بہت کچھ پڑھا۔ فیض صاحب کی شاعری نے سوچنے اور حق گوئی کی ترغیب دی ۔ فراز اور ترقی پسند ادیب و شاعر ایسے دل کو بھائے کہ انکے سحر میں کھو سا گیا ۔
اب اپنی کم علمی پر افسوس ہوتا ہے کہ کیوں نہ پہلے یہ سب پڑھا۔ میری اپنی زبان، اپنے دانشور ، شاعر اور ادیب۔ میری اپنی موسیقی ،رقص اور تہذیبی ورثہ کیوں اس سے دور رہا ۔ اب تو یہ عالم ہے کہ انگریزی سے دل ایسا اچاٹ ہوا کہ کبھی کوئی کتاب اٹھا لوں تو ختم
کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ بہرحال کتاب اور علم چاہے کسی بھی زبان میں ہو مجھے بے حد عزیز ہیں ۔
بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ محلے کے نکڑ پر قائم لائبریری نے کتاب پڑھنا سکھایا ۔ گھر کے ماحول اور کتابوں کی دستیابی کی وجہ سے کتب بینی کی عادت ہوئی اور ہر قسم کی تحریر پڑھنے کو ملیں جس سے ہم نے بھی کچھ استفادہ حاصل کیا ۔ میرے اپنے گھر میں ہر قسم کے خیالات اور سوچ کے حامل لوگ تھے اور رات گئے تک خوب بحث ہوتی ۔ ابا تاریخِ اسلام اور مسلمانوں کے عظمت رفتہ کی داستان سناتے ، بڑے بھائی صاحب مارکس اور لینن کا فلسفہ بیان کرتے ۔ چچا مجروح سلطان پوری اور مکین احسن کلیم کے بچپنے کے دوست اور لنگوٹیا تھے وہ ترقی پسند ادب کے حوالے دیتے اور ہم لحاف میں دبکے ان کی منطقیں اور بحث سنا کرتے کچھ سمجھتے اور اکثر کچھ پلے نہیں پڑتا لیکن یہ ضرور ہوا کہ ان ادبی بحثوں سے کان آشنا ہوگئے ۔
آج کل جب بچوں کو دیکھتا ہوں تو تکلیف ہوتی ہے کہ نہ انکے اطراف کتابیں ہیں اور نہ ہی ایسے بزرگ جو ان کو کہانی کہانی میں بہت کچھ سمجھادیا کرتے تھے ۔ اب نئی نسل سے کیا شکایت کریں ہم نے ان کو دیا ہی کیا ہے ۔
میرے ننہیال اور ددہیال میں علم کا ہمیشہ چرچا رہا اور بڑے بڑے باعلم بزرگ پیدا ہوئے۔ شاید اسی کا صدقہ ہے کہ بالکل بے بہرہ نہیں رہے علم و ادب سے کچھ شد بد ضرور رہی ۔۔ اب لگتا ہے علم عنقا ہوگیا آج کے دور میں ’تعلیم‘ تو ہے لیکن ’علم ‘ مفقود ہے ۔نوجوان نسل اپنے اجداد کی ادبی اور تہذیبی میراث کو سنبھال نہیں سکی اور ’تعلیم برائے حصول روزگار‘ میں مصروف ہوگئے جو ان بیچاروں کی ضرورت بھی تھی جبکہ’علم برائے کردار سازی‘ کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔یہی وجہ ہے آج تعلیم یافتہ اشخاص کی تو کمی نہیں لیکن با علم افراد ناپید ہیں۔ کتاب ہماری زندگی سے نکل گئی ۔ آج کا نوجوان شاید مہینوں نہیں بلکہ سالوں میں بھی کوئی ایک ایسی کتاب نہیں خرید تا جو ان کی فیلڈ سے متعلق نہ ہو۔
ترقی یافتہ دنیا میں جدید ٹکنالوجی اور کمپیوٹر کی یلغار کے باوجود آج بھی کتاب اور لائبریری امریکی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہر کاؤنٹی میں پبلک لائبریری ہوتی ہیں جہاں ہر ایک کی رسائی ممکن ہے یہاں کی مشہور بک شاپ Barns & Nobel ہے اکثر یہاں چلا جاتا ہوں ۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ ہر موضوع اور ہر عمر کے لوگوں کے لیے بے شمار کتابیں دستیاب ہیں ۔ خریدنا چاہیں تو خرید بھی سکتے ہیں ورنہ وہیں پر بنی کافی شاپ میں تلخ کافی کی چسکیوں میں جو کتاب چاہیں نکال کر پڑھ لیں ہر شخص بہت خاموشی سے مطالعے میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہاں آج بھی کتاب زندہ ہے ۔ وہیں ایک گوشے میں بچوں کا سیکشن ہوتا ہے جہاں کتابوں کے علاوہ ان کے لیے کھلونے اور دوسری تفریحات کا سامان ہوتا ہے ۔ اسکول میں بچوں کو باقاعدگی سے اسکول لائبریری لے جایا جاتا ہے اور ہر بچے کو کتاب ایشو کی جاتی ہے کہ وہ گھر جاکر پڑھے ۔ ویک اینڈ کے اختتام پر بچے سے کتاب کے متعلق سوالات بھی کیے جاتے ہیں جس سے بچہ کتابوں سے مانوس رہتا ہے ۔
اس وقت اشد ضروری ہے کہ فوری طور پر حکومت اور سماجی تنظیمیں سامنے آئیں اور محلہ و یونین کمیٹی کی سطح پے لائبریریاں اور کتاب گھر قائم کریں جہاں ہر عمر کے افراد کے پڑھنے کے لیے بامقصد کتابوں ، اخبارات اور رسائل ہوں ۔ لائبریریوں کو خوشنما بنایا جائے تاکہ لوگ وہاں اپنا وقت صرف کرکے خوش ہوں ۔بچوں کے لیے تعلیمی کھلونے اور دلچسپیاں فرائم کی جائیں ۔ بچوں کا ادب اور کتابیں دلچسپ اور معلوماتی ہوں جس سے ان کو ترغیب ملے کہ وہ بار بار لائبریری جائیں ۔ کتاب اور کتب بینی کو ہنگامی بنیاد کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقا ہے صرف اور صرف علم ہی کے ذریعے ہم آنے والے کل کا حصہ ہوسکیں گے وگرنہ جہالت کا اندھیرا ہمیں نگل لے گا ۔
فنون لطیفہ اور ادب سے لاتعلقی اور کتاب سے دوری کی وجہ سے ہمارے رویوں میں تشدد اور عدم برداشت در آیا ہے ۔چونکہ مطالعہ نہیں ہے لہذا مکالمے کے روایت بھی ختم ہوئی اسکی جگہ کج بحثی اور تکرار نے لے لی جس کے مظاہرے اب ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کی زندگی بھی اب محفوظ نہیں رہی ۔