فیض صاحب کی شہرہ آفاق نظم ’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘ در حقیقت ان کی وطن سے شدید محبت اور ان کے امن پسند نظرئیے کا اظہار ہے، شاید وہ چاہتے تھے کہ آزادی کے سفر میں کوئی کشت وخون نہ ہو اور انتقال آبادی پرامن طریقہ سے طے ہوجائے لیکن ہوا اسکے برعکس اور بیس لاکھ سے زیادہ انسان درندگی کا شکار ہوئے اور کم و بیش ایک کروڑ افراد بے گھر ہوئے۔
اس دوران انسانیت کی ایسی تذلیل ہوئی کہ روح کانپ اٹھتی ہے ۔ ان دنوں ہونے والے فسادات میں انسان وحشی بن گیا اور صدیوں پرانے رشتے اور تعلقات کو یکسر بھلاکے درندگی پر اتر آیا ۔ افسوس یہ کہ یہ سب کچھ مذہب اور دھرم کے نام پر کیا گیا ۔
فیض صاحب بٹوارے کے دوران سرحد پار مشرقی پنجاب کا بھی دورہ کرچکے تھے جہاں انہوں نے پاکستانیوں کی سفاکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا کہ کس طرح پاکستان سے بھارت جانے والے شرنارتھیوں کو خون میں نہلادیا گیا اور کس طرح اور کن حالات میں وہ اپنے بسے بسائے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ بالکل اسی طرح بھارتی ’سکھ اور ہندو سورماؤں” کے خون آشام جتھوں کے مہاجرین کے قافلوں پر حملوں کے روح فرسا مناظر کا مشاہدہ بھی فیض صاحب نے کیا ۔ انہوں نے ہندوستان سے آنیوالی ٹرینیں کو بھی دیکھا ہوگا کہ کیسے آگ اور خون کے دریا پار کرکے لاہور پہنچیں اکثر ٹرینیں تو صرف خون آلود لاشوں اور کٹے پھٹے انسانی جسموں کو لے کر ہی پہنچ پاتیں ۔
المیہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ لاہور اور کھوکھرا پار پہنچنے والے لٹے پھٹے مہاجرین کو کیمپوں میں مزید صعوبتوں اور آلام کا سامنا کرنا پڑا جہاں انسانیت سسک رہی تھی ۔چاروں طرف وحشت اور بربادی کا راج تھا اور مورخ تاریخ رقم کررہا ہوگا کہ کس طرح ’اعلیٰ مقاصد ‘ کے حصول کی خاطر انسان شیطان بن گیا ۔ ان تکلیف دہ تجربات اور مشاہدات کے بعد ایک حساس شاعر کس طرع آزادی کا جشن مناتا ۔ کیسے دئیے روشن کرتا ،لہذا اپنے اس کرب کا اظہار انہوں نے اپنی نظم ’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘ میں کیا اور حکومتی عتاب کا شکار بھی ہوئے ۔
تقسیم ہند کے دوران ہونے والی بربریت پر اور انسانیت سوز واقعات پر
نہ صرف فیض صاحب بلکہ اس دور کا ہر ادیب اور شاعر چیخ اٹھا
منٹو نے اپنے افسانوں میں یہی سب لکھا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو اور دیگر کہانیاں ان ہی واقعات پر مبنی ہیں ۔ منٹو کی کہانیوں نے سماج کے درماندہ طبقے کے کرب اور ان کے سلگتے ہوئے مسائل اور نام نہاد انسانیت اور تہزہب کے پردے کے پیچھے چھپی منافقتوں کو ننگا کردیا اور معاشرے کے جسم پر لگے زخم اور پیپ اگلتے زخموں پر کاری نشتر لگائے اور باغی ٹھرا۔
کرشن چندر اپنے شاہکار افسانوں میں انہی واقعات پر کڑھتا رہا ۔ اپنی کہانی ’غدار‘ میں کرشن نے سرحد کے دونوں طرف ہونے والے مظالم کی خوب عکاسی کی اور سوال اٹھاتا رہا کہ ایسا کیوں ہوا محتیں کہاں گئیں انسانیت کو کیسے گہن لگ گیا جس کا جواب تاحال کسی کے پاس نہیں۔
امرتا پریتم بھی اپنی کہانیوں میں اس درندگی پر روتی رہیں ۔ امرتا پنجاب کی تقسیم اور راوی کو خون خون ہوتا دیکھ کر وارث شاہ سے سوال کرتی اور دہائی دیتی رہیں ’اج اکھاں وارث شاہ نوں ‘ لیکن شاید جواب وارث شاہ کے پاس بھی نہیں تھا۔ ان کی شاعری اور کہانیاں پنجاب کی مٹی میں گندھی ہوئی ہیں دھرتی کے سینے پر خون سے کھینچے گئی لکیر ان کے سینے کا گھاؤ بن گئی اور وہ ساری زندگی بین ہی کرتی رہیں۔
ساحر اپنی نظموں سے ذہنوں کو جھجھوڑتا رہا اور امن عالم کا خواب ہی دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے ناآسودہ چلا گیا۔ ساحر کی بیشتر نظمیں دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاروں اور انسانی جانوں کے ضیاں اور پھر تقسیم ہند اور اسکے نتیجے میں ہونے والی ہولناکیوں اور درندگی نے حساس شاعر کو ہلا کے رکھ دیا وہ ظلم و استحصال کے خلاف آواز اٹھاتا رہا اور اپنا ٹوٹا ہوا بربط اٹھائے امن و تہذیب کی بھیک مانگتا رہا۔
اس زمانے میں بہترین ادب تخلیق ہوا ۔ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے بٹوارے کے دوران قتل وغارت گری اور انسانیت سوز واقعات کی ایسی منظر کشی کی کہ لوگوں کو خون کے آنسو رلادئیے ۔ منٹو ، عصمت چغتائی ، مجروح ، سجاد ظہیر ، اوپندر ناتھ اشک ۔ راجندر سنگھ بیدی اور بہت سے دوسرے ترقی پسند ادیب اور شاعر اپنے اپنے طور اور اپنے اپنے انداز میں انسانیت کی اس تذلیل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور سب ہی محروم جواب رہے اور اکثر معطون بھی ہوئے ۔
آج کے مایہ ناز شاعر گلزار بھی سرحد پر لگے خاردار تاروں کے درمیان الجھ کر رہ گئے ۔ انہوں نے بھی بٹوارے کے عذاب کو خود سہا اور اپنی شاعری میں اس کرب کو اجاگر کیا ۔ کبھی وہ منٹو کے بشن سنگھ کے پاس واہگہ بارڈر پر لگی تاروں کے درمیان جا کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی اپنے آبائی وطن جہلم کی تحصیل دینہ سے واپسی پر رلانے دینے والی نظم’ماں میں آیا تھا‘ میں تقسیم کے اس انسانی المیہ پر نوحہ کناں دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے پاس بھی وہی تاسف اور وہی سوال جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
افسوس کہ دونوں فریقین نے اس قتل عام کو اپنی اپنی شہادت سے تعبیر کیا اور اسے گلوریفائی بھی کیا لیکن دونوں طرف کے لوگ آج تک اس صدمہ کو نہ تو بھلا پائے اور نہ ہی ان کے دلوں سے اپنی سابقہ مٹی کی محبت کم ہوئی .. میں بہت سے ہندو اور سکھوں سے ملا جو اب بھارتی شہری ہیں لیکن انکے دلوں میں ابتک لاہور ،گجرانوالہ، سیالکوٹ، لاڑکانہ ، سکھر اور سندھ میں اپنی وہ آبائی جگہیں جہاں سے انہوں نے یا ان کے بزرگوں نے ہجرت کی گئی تھی آباد ہیں۔ اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے خوابوں میں بھی لکھنئو، دلی اور حیدرآباد ستر سال گزرنے کے بعد بھی سجے ہوئے ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں نے کئی جنگیں لڑیں اور مزید خونریزی ہوئی اور اس کے ختم ہونے کے کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی ۔ دونوں ملک جوہری طاقت ہونے کے بعد ایک دوسرے کو فنا کردینے کی دھمکی دیتے رہتے اور فرسٹ اسٹرائک اور کاؤنٹر اسٹرائیک کی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ شاید ان کو ادراک ہی نہیں کہ ایٹمی حملہ ہوتا کیا ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ اس جنگ کے بعد لاشیں اٹھانے والا بھی نہیں ملے گا یہاں تک کہ کتے اور گدھ بھی لاشوں کو نوچنے کے لیے باقی نہیں بچیں گے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ آج دونوں ملکوں کے پاس بنیادی فرسٹ ایڈ اور ایک گھریلو یا انڈسٹریل آتشزدگی سے نبٹنے کی صلاحیت تو ہے نہیں اور بات کرتے ہیں ایٹمی حملہ کی۔ کیا اگر لاہور یا کراچی پر ایٹمی حملہ ہوا تو تابکاری اثرات سے دہلی اور بمبئی محفوظ رہیں گے اسی طرع اگر دہلی یا بمبئی کو ایٹمی نشانہ بنا یا گیا تو کراچی اور لاہور بچ جائیں گے ؟۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ دونوں طرف کی قیادتیں مل بیٹھیں اور سرحد کے دونوں طرف جنگی جنون کو ختم کرکے ایک نئے باب کا آغاز کریں جو بقائے باہمی اور امن کو فروغ دے ۔ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کیا جائے۔ جو ہوگیا اسے ایک بھیانک خواب سمحھ کر بھلادیں اور آنے والے کل کو بہتر بنائیں پر توجہ دیں ۔ جانتا ہوں کہ یہ آسان نہ ہوگا سرحد کے دونوں طرف کچھ سر پھرے اور خون آشام گروہ سادہ لوح عوام کو نفرت اور دیوانگی کی ترغیب دے رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ خطہ میں امن قائم ہو۔
وہی نہیں چند ترقی یافتہ ممالک بھی برصغیر میں جنگی ماحول اور کشیدگی قائم رکھنا چاہتے ہیں ان کی اسلحہ ساز فیکٹریاں ہماری دشمنی پر قائم ہیں اگر امن ہوگا تو بوفور توپیں ۔ ایف سولہ طیارے اور جیگوار کون خریدے گا ۔۔۔۔ برصغیر جو آج ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ بن چکا ہے ایک ذرا سی نادانی یا غلطی سے بھک سے اڑجائیگا پھر نہ کوئی فاتح ہوگا نہ مفتوح ۔۔۔۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئیے مل بیٹھیں اور امن و آتشی کا پیغام عام کریں ۔
بقول فیض صاحب ۔۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ۔ یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی