The news is by your side.

قرآنی انسائیکلوپیڈیا – عصرِ حاضر کی اہم ترین ضرورت

مشہور فلسفی اور طبیب بوعلی سینا نے 57 برس عمرپائی، انہوں نےفلسفے اور طب سے متعلق 240 کتب تحریر کیں۔ معروف مفکر اور متکلم امام غزالی 53 سال زندہ رہے۔ تصوف، قانون، فقہ اور فلسفے کے موضوعات پر 72 سے زائد کتابیں لکھیں۔ فلسفی، ریاضی دان، ماہر فلکیات و طب اور مقنن ابن رشد نے 73 برس عمر پائی اور 67 کتابیں تحریر کیں۔ ابن الہیثم 75 برس جیے۔ طب، فلسفہ، الٰہیات، فلکیات، ریاضی اور طبیعیات پر 45 کتابیں نذرِ قلم کیں۔ 77 برس کی عمر پانے والے ابوریحان محمد البیرونی کی تاریخ، لسانیات، طبیعیات، ریاضی اور فلکیات پر صرف 14 کتابیں وقت موجود میں ریکارڈ پر ہیں۔ الکندی نے 70 برس کی زندگی میں فلسفہ، نجوم، فلکیات، موسیقی، ریاضی، سیاست، طبیعیات پر 200 سے زائد مخطوطات لکھے لیکن مطبوعہ کتب کی تعداد 8 ہے۔

بے شک یہ اور متعدد دیگر اپنے وقت کی جید علمی ہستیاں تھیں لیکن جنہوں نے تصانیف لکھیں، وہ خطابات نہیں کرتے تھے۔ جو خطیب تھے ان کی تدریس نظر نہیں آتی۔ جنہوں نے تدریس کی وہ عامتہ الناس کی منظم روحانی تربیت نہیں کرتے تھے۔ مگر ہم آج ایک ایسی عہد سازعظیم علمی شخصیت کے دور میں زندہ ہیں جنہوں نے یہ سب کام بیک وقت اور بہت اونچے پیمانے پر کیے۔ ان کی کتابیں سیکٹروں میں، خطابات ہزاروں موضوعات پر، ان کی پرائیویٹ یونیورسٹی کا الحاق نہ صرف عالم اسلام کی سب سے معتبر، الازہر یونیورسٹی کے ساتھ ہے بلکہ الازہر نے ان کی یونیورسٹی کی ڈگری اپنی یونیورسٹی کے برابر تسلیم کی اور پاکستان میں نہ صرف یہ چارٹرڈ کی جاچکی ہے بلکہ ایچ ای سی کمیشن نے اس کی ڈگری کو ڈبل ایم اے (عربی، اسلامیات) کے برابر تسلیم کیا ہے۔ پاکستان سمیت نوے ممالک میں ان کا جاندار منظم روحانی تربیتی نظام کام کررہا ہے۔ ساٹھ سے ستر علمی میدانوں میں ان کا علمی کام رہتی دنیا تک انسانیت اور خصوصاً مسلمانوں کے کام آتا رہے گا۔ اس شخصیت کا ذکر کچھ بعد میں آئے گا۔

مسلم اسکالرز سے بہت عرصے سے یہ بات سنتے آئے ہیں کہ سائنسی دریافتوں کے جو دعوے سائنسدان آج کر رہے ہیں، ان کا اعلان قرآن مجید چودہ سو سال پہلے کر چکا ہے جن میں سے چند ایک کے ثبوت منظر عام پر آئے۔ لیکن ایسی تصنیف دستیاب نہیں تھی جو نہ صرف اس دعوے کی تصدیق کرسکے بلکہ تمام جدید سائنسی علوم سے متعلق براہ راست قرآن کی متعلقہ آیات تک بذریعہ آسان انڈیکس ایسی رہنمائی بھی دے سکے جس کی بدولت عربی زبان سے نابلد لوگ بھی استفادہ کرسکیں۔ ڈاکٹر طاہر القاردی کے ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ نے یہ کمی دور کردی۔ انہوں نے اسلاف کی طرح علوم القرآن، علوم الحديث، ایمانیات، عبادات، اعتقادیات (اصول و فروع)، سیرت، فقہیات، اخلاق و تصوف، دستوریات و قانونیات، اور فکریات پر تو کتابیں لکھیں لیکن تقابلِ ادیان، اقتصادیات، اسلام اور سائنس، حقوق انسانی اور عصریات پر بھی کتابیں تحریر کیں جو ایسے شعبے ہیں جن میں مذکورہ بالا اسکالرز نے طبع آزمائی نہیں کی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی کتب 35 سال سے لاہور، بیروت، دمشق اور قاہرہ سے چھپ رہی ہیں۔ انہوں نے عربی میں 36، انگلش میں 81، اور اردو میں 716 کتب لکھیں جن میں سے اس وقت ان کی 551 کتب چھپ کر نہ صرف مارکیٹ میں دستیاب ہیں بلکہ اکثر کتب آن لائن مطالعے کےلیے انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی 449 کتب مکمل ہوچکی اور طباعت کے مراحل میں ہیں۔ حدیث کے موضوع پر تقریباً 150 کتب ہیں لیکن 15 جلدوں پر مشتمل ’’معارج السنن‘‘ اور 25000 احادیث پر مرتب کردہ ان کی عربی کتاب ’’جامع السنہ‘‘ بہت معروف ہوئی جو آٹھ جلدوں میں بیروت سے چھپی۔ 14 جلدوں پر محیط ’’سیرت الرسولﷺ‘‘ اس کےعلاوہ ہے۔

ویسے تو انہوں نے قرآنیات پر 100 سے زائد کتب لکھیں اور ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے ان کا ترجمہ قرآن کریم بہت معروف ہے جس کے 50 سے زائد ری پرنٹس چھپ چکے ہیں لیکن ان کی قرآن پر صرف ایک تصنیف ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ کا ذکر آگے قدرے تفصیل سے آئے گا کیونکہ آج کے حالات میں اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ عوام الناس کو بالعموم اور پڑھے لکھے طبقے کو بالخصوص قرآن فہمی کی طرف راغب کیا جائے۔

اس مقصد کےلیے آیاتِ قرآنی میں موجود مضامین و مطالب کو جدید اور آسان پیرائے میں اس طرح نظم دیا جائے کہ غیر عربی داں طبقہ بھی ان تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکے اور امورِ حیات میں ان سے بھرپور رہنمائی لے سکے نیزنوجوان نسل جو عربی زبان سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے قرآنی تعلیمات سے دور ہوتی جا رہی ہے، اسے بھی قرآن مجید کے حیات آفریں پیغام سے جوڑا جاسکے۔

’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ علوم القرآن کا ایسا ذخیرہ ہے جو صدیوں تک امت مسلمہ اور نوع انسانی کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ یہ اسلامی علوم پر تحقیق کرنے والے محققین کےلیے نسخہ کیمیا تو ہے ہی، لیکن اس کے مطالعے سے ہر طبقہ فکر کے افراد کو رہنمائی ملے گی۔ عربی زبان کا علم رکھے بغیرقرآن کریم کے مطلوبہ مقام تک پہنچنا اور مطلوبہ حقائق کی بہ آسانی رہنمائی پالینا اس تصنیف کا اعجازہے۔ کیونکہ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو سمجھنے کےلیے نہ علوم شریعہ کا طالب علم ہونا ضروری ہے اور نہ عربی زبان کا علم۔ یہ ان لوگوں کو بہت کو مدد دے گا جو متعلقہ موضوع کا علم تو قرآن سے چاہتے ہیں لیکن خود تلاش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؛ کیونکہ کوئی لفظ یا موضوع قرآن میں کب، کہاں کیسے استعمال ہوا، اس کا انڈیکس اس تصنیف کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔

8 جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا 5000 موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ جلد اول میں صرف موضوعاتی فہرست 400 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ سائیکالوجی، بایوٹیکنالوجی، مواخذہ و احتساب، نظام کائنات پر بات کی گئی ہے۔ جلد دوم میں انسانی عقل کی رسائی، مرد و عورت کے مساوی حقوق، فنگر پرنٹ کی تخلیق کے موضوعات ہیں۔ تیسری جلد میں بگ بینگ تھیوری، فنگرپرنٹ، آرکیالوجی (آثارِ قدیمہ)، نظریہ اضافیت، باٹنی (علم نباتات)، جیالوجی (ارضیات)، رحم مادر کا علم، ایسٹرونومی (فلکیات)، بلیک ہولز، روشنی کی رفتار، سمندروں کا علم، جنگلات کا علم، خلا کے متعلق علوم، گلیکسی (کہکشائیں)، کوانٹم فزکس، مدارج حیات انسانی، علم جغرافیہ، سیاروں کا نظام، اناٹومی (علم الابدان)، علم حیوانات، بیالوجی (علم الحیات)، موسمیات، پرندے اور حشرات، کیمسٹری (علم کیمیا) اور اِسلامی معیشت میں ٹیکسوں کا تصور جیسے موضوعات موجود ہیں۔

چوتھی جلد میں مرج البحرین، بین المذاہب رواداری، زراعت کا علم، آرکیٹکچر (فن تعمیر)، کرمنالوجی (جرائم)، برتھ کنٹرول، سوشل ورک، سمتوں کا علم، اور انسانی تخلیق کے مراحل سے متعلق آیات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پانچویں جلد میں مورگیج سسٹم (رہن)، آئین و قانون، کمیونزم، علم الاعداد و شماریات، معاشی پھیلاؤ، وکالت پر قرآنی آیات، فارن پالیسی، ریسرچ، کامرس، سیر و سیاحت، سوشل سائنسز، بزنس ایڈمنسٹریشن، کمیونی کیشن (علم مواصلات) اور ہائیڈرولوجی (آبیات) جیسے موضوعات کا احاطہ ہے۔

قرآن مجید میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اور الفاظ کے مطالب و مفاہیم کےلیے اِس کی آخری تین جلدیں مختص کی گئی ہیں۔ ہر لفظ کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے تاکہ عربی زبان سے واقف اور ناواقف یکساں استفادہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ موضوعات کا ابجدی مشہور فلسفی اور طبیب بوعلی سینا نے 57 برس عمرپائی، انہوں نےفلسفے اور طب سے متعلق 240 کتب تحریر کیں۔ معروف مفکر اور متکلم امام غزالی 53 سال زندہ رہے۔ تصوف، قانون، فقہ اور فلسفے کے موضوعات پر 72 سے زائد کتابیں لکھیں۔ فلسفی، ریاضی دان، ماہر فلکیات و طب اور مقنن ابن رشد نے 73 برس عمر پائی اور 67 کتابیں تحریر کیں۔ ابن الہیثم 75 برس جیے۔ طب، فلسفہ، الٰہیات، فلکیات، ریاضی اور طبیعیات پر 45 کتابیں نذرِ قلم کیں۔ 77 برس کی عمر پانے والے ابوریحان محمد البیرونی کی تاریخ، لسانیات، طبیعیات، ریاضی اور فلکیات پر صرف 14 کتابیں وقت موجود میں ریکارڈ پر ہیں۔ الکندی نے 70 برس کی زندگی میں فلسفہ، نجوم، فلکیات، موسیقی، ریاضی، سیاست، طبیعیات پر 200 سے زائد مخطوطات لکھے لیکن مطبوعہ کتب کی تعداد 8 ہے۔

بے شک یہ اور متعدد دیگر اپنے وقت کی جید علمی ہستیاں تھیں لیکن جنہوں نے تصانیف لکھیں، وہ خطابات نہیں کرتے تھے۔ جو خطیب تھے ان کی تدریس نظر نہیں آتی۔ جنہوں نے تدریس کی وہ عامتہ الناس کی منظم روحانی تربیت نہیں کرتے تھے۔ مگر ہم آج ایک ایسی عہد سازعظیم علمی شخصیت کے دور میں زندہ ہیں جنہوں نے یہ سب کام بیک وقت اور بہت اونچے پیمانے پر کیے۔ ان کی کتابیں سیکٹروں میں، خطابات ہزاروں موضوعات پر، ان کی پرائیویٹ یونیورسٹی کا الحاق نہ صرف عالم اسلام کی سب سے معتبر، الازہر یونیورسٹی کے ساتھ ہے بلکہ الازہر نے ان کی یونیورسٹی کی ڈگری اپنی یونیورسٹی کے برابر تسلیم کی اور پاکستان میں نہ صرف یہ چارٹرڈ کی جاچکی ہے بلکہ ایچ ای سی کمیشن نے اس کی ڈگری کو ڈبل ایم اے (عربی، اسلامیات) کے برابر تسلیم کیا ہے۔ پاکستان سمیت نوے ممالک میں ان کا جاندار منظم روحانی تربیتی نظام کام کررہا ہے۔ ساٹھ سے ستر علمی میدانوں میں ان کا علمی کام رہتی دنیا تک انسانیت اور خصوصاً مسلمانوں کے کام آتا رہے گا۔ اس شخصیت کا ذکر کچھ بعد میں آئے گا۔

مسلم اسکالرز سے بہت عرصے سے یہ بات سنتے آئے ہیں کہ سائنسی دریافتوں کے جو دعوے ساٸنسدان آج کر رہے ہیں، ان کا اعلان قرآن مجید چودہ سو سال پہلے کر چکا ہے جن میں سے چند ایک کے ثبوت منظر عام پر آئے۔ لیکن ایسی تصنیف دستیاب نہیں تھی جو نہ صرف اس دعوے کی تصدیق کرسکے بلکہ تمام جدید سائنسی علوم سے متعلق براہ راست قرآن کی متعلقہ آیات تک بذریعہ آسان انڈیکس ایسی رہنمائی بھی دے سکے جس کی بدولت عربی زبان سے نابلد لوگ بھی استفادہ کرسکیں۔ ڈاکٹر طاہر القاردی کے ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ نے یہ کمی دور کردی۔ انہوں نے اسلاف کی طرح علوم القرآن، علوم الحديث، ایمانیات، عبادات، اعتقادیات (اصول و فروع)، سیرت، فقہیات، اخلاق و تصوف، دستوریات و قانونیات، اور فکریات پر تو کتابیں لکھیں لیکن تقابلِ ادیان، اقتصادیات، اسلام اور سائنس، حقوق انسانی اور عصریات پر بھی کتابیں تحریر کیں جو ایسے شعبے ہیں جن میں مذکورہ بالا اسکالرز نے طبع آزمائی نہیں کی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی کتب 35 سال سے لاہور، بیروت، دمشق اور قاہرہ سے چھپ رہی ہیں۔ انہوں نے عربی میں 36، انگلش میں 81، اور اردو میں 716 کتب لکھیں جن میں سے اس وقت ان کی 551 کتب چھپ کر نہ صرف مارکیٹ میں دستیاب ہیں بلکہ اکثر کتب آن لائن مطالعے کےلیے انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی 449 کتب مکمل ہوچکی اور طباعت کے مراحل میں ہیں۔ حدیث کے موضوع پر تقریباً 150 کتب ہیں لیکن 15 جلدوں پر مشتمل ’’معارج السنن‘‘ اور 25000 احادیث پر مرتب کردہ ان کی عربی کتاب ’’جامع السنہ‘‘ بہت معروف ہوئی جو آٹھ جلدوں میں بیروت سے چھپی۔ 14 جلدوں پر محیط ’’سیرت الرسولﷺ‘‘ اس کےعلاوہ ہے۔

ویسے تو انہوں نے قرآنیات پر 100 سے زائد کتب لکھیں اور ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے ان کا ترجمہ قرآن کریم بہت معروف ہے جس کے 50 سے زائد ری پرنٹس چھپ چکے ہیں لیکن ان کی قرآن پر صرف ایک تصنیف ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ کا ذکر آگے قدرے تفصیل سے آئے گا کیونکہ آج کے حالات میں اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ عوام الناس کو بالعموم اور پڑھے لکھے طبقے کو بالخصوص قرآن فہمی کی طرف راغب کیا جائے۔

اس مقصد کےلیے آیاتِ قرآنی میں موجود مضامین و مطالب کو جدید اور آسان پیرائے میں اس طرح نظم دیا جائے کہ غیر عربی داں طبقہ بھی ان تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکے اور امورِ حیات میں ان سے بھرپور رہنمائی لے سکے نیزنوجوان نسل جو عربی زبان سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے قرآنی تعلیمات سے دور ہوتی جا رہی ہے، اسے بھی قرآن مجید کے حیات آفریں پیغام سے جوڑا جاسکے۔

’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ علوم القرآن کا ایسا ذخیرہ ہے جو صدیوں تک امت مسلمہ اور نوع انسانی کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ یہ اسلامی علوم پر تحقیق کرنے والے محققین کےلیے نسخہ کیمیا تو ہے ہی، لیکن اس کے مطالعے سے ہر طبقہ فکر کے افراد کو رہنمائی ملے گی۔ عربی زبان کا علم رکھے بغیرقرآن کریم کے مطلوبہ مقام تک پہنچنا اور مطلوبہ حقائق کی بہ آسانی رہنمائی پالینا اس تصنیف کا اعجازہے۔ کیونکہ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو سمجھنے کےلیے نہ علوم شریعہ کا طالب علم ہونا ضروری ہے اور نہ عربی زبان کا علم۔ یہ ان لوگوں کو بہت کو مدد دے گا جو متعلقہ موضوع کا علم تو قرآن سے چاہتے ہیں لیکن خود تلاش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؛ کیونکہ کوئی لفظ یا موضوع قرآن میں کب، کہاں کیسے استعمال ہوا، اس کا انڈیکس اس تصنیف کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔

8 جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا 5000 موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ جلد اول میں صرف موضوعاتی فہرست 400 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ سائیکالوجی، بایوٹیکنالوجی، مواخذہ و احتساب، نظام کائنات پر بات کی گئی ہے۔ جلد دوم میں انسانی عقل کی رسائی، مرد و عورت کے مساوی حقوق، فنگر پرنٹ کی تخلیق کے موضوعات ہیں۔ تیسری جلد میں بگ بینگ تھیوری، فنگرپرنٹ، آرکیالوجی (آثارِ قدیمہ)، نظریہ اضافیت، باٹنی (علم نباتات)، جیالوجی (ارضیات)، رحم مادر کا علم، ایسٹرونومی (فلکیات)، بلیک ہولز، روشنی کی رفتار، سمندروں کا علم، جنگلات کا علم، خلا کے متعلق علوم، گلیکسی (کہکشائیں)، کوانٹم فزکس، مدارج حیات انسانی، علم جغرافیہ، سیاروں کا نظام، اناٹومی (علم الابدان)، علم حیوانات، بیالوجی (علم الحیات)، موسمیات، پرندے اور حشرات، کیمسٹری (علم کیمیا) اور اِسلامی معیشت میں ٹیکسوں کا تصور جیسے موضوعات موجود ہیں۔

چوتھی جلد میں مرج البحرین، بین المذاہب رواداری، زراعت کا علم، آرکیٹکچر (فن تعمیر)، کرمنالوجی (جرائم)، برتھ کنٹرول، سوشل ورک، سمتوں کا علم، اور انسانی تخلیق کے مراحل سے متعلق آیات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پانچویں جلد میں مورگیج سسٹم (رہن)، آئین و قانون، کمیونزم، علم الاعداد و شماریات، معاشی پھیلاؤ، وکالت پر قرآنی آیات، فارن پالیسی، ریسرچ، کامرس، سیر و سیاحت، سوشل سائنسز، بزنس ایڈمنسٹریشن، کمیونی کیشن (علم مواصلات) اور ہائیڈرولوجی (آبیات) جیسے موضوعات کا احاطہ ہے۔

قرآن مجید میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اور الفاظ کے مطالب و مفاہیم کےلیے اِس کی آخری تین جلدیں مختص کی گئی ہیں۔ ہر لفظ کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے تاکہ عربی زبان سے واقف اور ناواقف یکساں استفادہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ موضوعات کا ابجدی (Alphabatic) اشاریہ اس انسائیکلو پیڈیا سے قارئین کے استفادے کو مزید آسان بنا دیتا ہے۔ یہ اشاریہ دراصل بیان ہونے والے ہر موضوع کی یک لفظی فہرست ہے جسے حروفِ تہجی کی ترتیب سے تشکیل دیا گیا ہے۔ قاری صرف ایک لفظ کو دیکھ کر اپنے متعلقہ موضوع تک رسائی کرسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص تخلیقِ کائنات کو اس انسائیکلوپیڈیا میں تلاش کرنا چاہتا ہے تو وہ حرفِ ت کے تحت ’’تخلیق‘‘ کا لفظ دیکھ سکے گا؛ اور یوں متعلقہ مضامین تک پہنچ جائے گا۔ اگرچہ الفاظِ قرآن کی معاجم پہلے بھی موجود ہیں تاہم یہ اپنی نوعیت کی الگ معجم ہے، جس سے استفادہ ہر خاص و عام کےلیے نسبتًا آسان ہے کیونکہ دیگر معاجم سے استفادے کےلیے مطلوبہ لفظ کے مادۂ اشتقاق (root word) كا معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے، جو عربی زبان جاننے والے کےلیے بھی بسا اوقات مشکل ہوتا ہے۔

یہ انسائیکلو پیڈیا قاری کو اس ضرورت سے آزاد کرتا ہے وہ جس بھی قرآنی لفظ کے معنی دیکھنا چاہتا ہے، اس کے صرف پہلے حرف کے ذریعے مطلوبہ لفظ تک پہنچ سکتا ہے۔ مثلاً اگر ’’يَعلَمُونَ‘‘ کے معنی دیکھنا ہوں تو ’ی‘ سے شروع ہونے والے الفاظ میں جاکر اس کے معنی بھی دیکھ سکتا ہے اور یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں کل کتنی بار اور کن کن آیات میں آیا ہے۔

آخری تین جلدیں الفاظ پر مشتمل آیات کی یکجا تجميع سے نئے موضوعات کا فائدہ بھی دیتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو ایسی آیات درکار ہیں جن میں علم، کتاب، قلم، لباس، پانی، آگ، دریا، انسان، جن، جانور، جنت، جہنم، محبت، غضب، گھوڑا، کتا، کشتی، ہوا، سورج، چاند، ستارہ، آسمان، زمین، فضا، بادل، بارش، گرج، چمک، کڑک، بجلی، روشنی، اندھیرا، صبح، شام، زندگی، موت، ہنسنا، رونا، خوف، سکون، سونا، جاگنا وغیرہ جیسے متعدد الفاظ کا استعمال ہوا ہے، تو اسے ایسی ساری آیات اس اشاریے میں یکجا مل جائیں گی۔

قرآنی انسائیکلوپیڈیا نے جدید تعلیم یافتہ طبقات اور طلبہ و طالبات کےلیے قرآن مجید کے ہزاروں مضامین تک براہِ راست رسائی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس انسائیکلو پیڈیا کو ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری کی زینت بننا چاہیے تاکہ کالج یونیورسٹی کے طلبا اور محققین کو کوئی بھی سبجیکٹ پڑھتے ہوئے جو چیز دماغ میں آئے، اسے تلاش کریں اور اس تک پہنچ جائیں؛ اور قرآنی علوم سے ہماری دنیا منور ہوتی چلی جائے۔ اشاریہ اس انسائیکلو پیڈیا سے قارئین کے استفادے کو مزید آسان بنا دیتا ہے۔ یہ اشاریہ دراصل بیان ہونے والے ہر موضوع کی یک لفظی فہرست ہے جسے حروفِ تہجی کی ترتیب سے تشکیل دیا گیا ہے۔ قاری صرف ایک لفظ کو دیکھ کر اپنے متعلقہ موضوع تک رسائی کرسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص تخلیقِ کائنات کو اس انسائیکلوپیڈیا میں تلاش کرنا چاہتا ہے تو وہ حرفِ ت کے تحت ’’تخلیق‘‘ کا لفظ دیکھ سکے گا؛ اور یوں متعلقہ مضامین تک پہنچ جائے گا۔ اگرچہ الفاظِ قرآن کی معاجم پہلے بھی موجود ہیں تاہم یہ اپنی نوعیت کی الگ معجم ہے، جس سے استفادہ ہر خاص و عام کےلیے نسبتًا آسان ہے کیونکہ دیگر معاجم سے استفادے کےلیے مطلوبہ لفظ کے مادۂ اشتقاق (root word) كا معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے، جو عربی زبان جاننے والے کےلیے بھی بسا اوقات مشکل ہوتا ہے۔

یہ انسائیکلو پیڈیا قاری کو اس ضرورت سے آزاد کرتا ہے وہ جس بھی قرآنی لفظ کے معنی دیکھنا چاہتا ہے، اس کے صرف پہلے حرف کے ذریعے مطلوبہ لفظ تک پہنچ سکتا ہے۔ مثلاً اگر ’’يَعلَمُونَ‘‘ کے معنی دیکھنا ہوں تو ’ی‘ سے شروع ہونے والے الفاظ میں جاکر اس کے معنی بھی دیکھ سکتا ہے اور یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں کل کتنی بار اور کن کن آیات میں آیا ہے۔

آخری تین جلدیں الفاظ پر مشتمل آیات کی یکجا تجميع سے نئے موضوعات کا فائدہ بھی دیتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو ایسی آیات درکار ہیں جن میں علم، کتاب، قلم، لباس، پانی، آگ، دریا، انسان، جن، جانور، جنت، جہنم، محبت، غضب، گھوڑا، کتا، کشتی، ہوا، سورج، چاند، ستارہ، آسمان، زمین، فضا، بادل، بارش، گرج، چمک، کڑک، بجلی، روشنی، اندھیرا، صبح، شام، زندگی، موت، ہنسنا، رونا، خوف، سکون، سونا، جاگنا وغیرہ جیسے متعدد الفاظ کا استعمال ہوا ہے، تو اسے ایسی ساری آیات اس اشاریے میں یکجا مل جائیں گی۔

قرآنی انسائیکلوپیڈیا نے جدید تعلیم یافتہ طبقات اور طلبہ و طالبات کےلیے قرآن مجید کے ہزاروں مضامین تک براہِ راست رسائی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس انسائیکلو پیڈیا کو ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری کی زینت بننا چاہیے تاکہ کالج یونیورسٹی کے طلبا اور محققین کو کوئی بھی سبجیکٹ پڑھتے ہوئے جو چیز دماغ میں آئے، اسے تلاش کریں اور اس تک پہنچ جائیں؛ اور قرآنی علوم سے ہماری دنیا منور ہوتی چلی جائے۔

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں