The news is by your side.

پولیو ویکسین سے بچوں کو نقصان پہنچنے کی افواہ، مستقبل میں حکایت بن جائے گی

12 مارچ1913کی روشن صبح تھی، امریکہ کے شہر کولمبس کے چھوٹے سے قصبے اوہائیو جس کی آبادی اڑھائی ہزار کے قریب تھی ،میں زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی، کسان کھیتی باڑی میں مصروف تھے جبکہ قصبے کے چھوٹے سے بازار کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں خریدوفروخت جاری تھی ۔اچانک مغرب کی جانب سے گھوڑے پر سوار ایک ادھیڑ عمر شخص نمودار ہوا اور شوروغوغا شروع کردیا کہ ڈیم ٹوٹ گیا ہے۔

ادھیڑ عمر شخص کے منہ سے نکلے الفاظ قصبے میں موجود افراد کے کانوں سے ٹکرانے کی دیر تھی کہ بازار میں افراتفری مچ گئی۔ دکانیں آناً فاناً بند ہوگئیں،لوگ گھروں کی طرف لپکے، بھگدڑ مچی اور پلک جھپکتے ہی اڑھائی ہزار افراد گھروں سے سڑک پر آئے اور مشرق کی جانب دیوانہ وار دوڑنا شروع کردیا ۔ گردوغبار کے بادلوں میں فلک شگاف چیخیں، گرتے پڑتے ،ایک دوسرے کو کچلتے اور دھکے مارتے گھبراہٹ کا شکار دیہاتی بغیر تصدیق کئے دوڑتے چلے گئے حتی کہ 12میل تک کا طویل سفر طے کرکے محفوظ اونچے مقام پر پناہ لے لی۔کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جب ڈیم کے پانی سے سیلاب نہ آیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ڈیم ٹوٹنے کی بات محض افواہ تھی۔

بعدازاں پولیس پہنچی اور تمام شہریوں کو باور کرایا کہ یہ صرف ایک افواہ تھی اور ڈیم صحیح سلامت ہے۔پولیس کی یقین دہانی پرمیلوں دوڑ نے والے تھکے ہارے افراد گھروں کو واپس لوٹ گئے، لیکن یہ واقعہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

22اپریل 2019 کو پشاور میں بھی زندگی روزمرہ معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ شہر میں گہماگہمی تھی، بازاروں کی دکانوں میں خریدوفروخت کا عمل جاری تھا۔ بچے درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے تھے کہ پھر اچانک بڈھ بیر کے علاقہ ماشوخیل میں مبینہ طور پر پولیو کے قطرے پینے سے بچوں کی حالت غیر ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔اس سے قبل کہ بچوں کی حالت خراب ہونے کی خبر کی تصدیق کی جاتی، مساجد کے لاؤڈ سپیکرز سے اعلانات کرادیئے گئے کہ پولیو قطرے پینے والے تمام بچے بے ہوش ہوگئے ہیں۔

دیہاتیوں کو خبر ہوئی تو وہ دیوانہ وار گھروں کی جانب لپکے اورجو ہاتھ لگا، اٹھا کر بغیر کسی تصدیق کے علاقے کے واحد بی ایچ یوپر حملہ آور ہوگئے۔ توڑ پھوڑ کی، سامان جلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے بی ایچ یو کو کھنڈر میں تبدیل کردیا اور اس کے بعد فضاءدیہاتیوں کے فاتحانہ فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔

میڈیا پر خبر چلی تو سرکاری ملازم نذر محمد نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اداکارانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرکے اس پورے عمل میں جلتی پر تیل کا کام کرکے میڈیا کو بیان دیا کہ پولیو قطروں میں زہر ملا ہوا ہے اور قطرے پینے والے تمام بچے بے ہوش ہورہے ہیں ۔ خبر پھیلنے کی دیر تھی کہ شہر بھر کے ہسپتالوں میں افراتفری مچ گئی۔ بچوں کو رکشوں، سوزوکیوں ،موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں میں جوق درجوق ہسپتالوں کی طرف دوڑایا گیا۔مبینہ مریضوں کا ہجوم ہسپتال پہنچا تو عملے کےساتھ ساتھ ادویات کا بھی فقدان ہوگیا ،ہزاروں افراد کے اسپتال آنے پرحبس کی صورتحال پیدا ہوئی اور چیخ و پکار نے تندرست بچوں کو بھی بیمار کردیا ۔ بچوں کی حالت غیر ہوتی دیکھ والدین بپھر گئے اور نہ صرف اسپتال انتظامیہ بلکہ میڈیا سے بھی ہاتھا پائی کیلئے تیارہوگئے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایک دن میں 25000سے زائد بچوں کو طبی امداد کیلئے ہسپتال لایا گیا ۔طبی عملہ والدین کو سمجھاتا رہا کہ بچوں کی حالت نارمل ہے انہیں کسی دوا کی ضرورت نہیں، لیکن والدین بضدرہے کہ بچوں کو کوئی نہ کوئی دوا ضرور دی جائے تاکہ مبینہ زہریلی پولیو ویکیسن کا اثر ختم ہوسکے۔ مرتے کیا نہ کرتے ،ڈاکٹروں نے بھی بچوں کو انجکشن لگانے شروع کردیئے۔

بعد ازاں انتظامیہ کی مداخلت اور والدین کو یقین دہانیوں پر حالات معمول پر آئے اور ہسپتالوں میں آیا ہجوم گھروں کو واپس لوٹ گیا۔ ان دونوں رونما ہونے والے واقعات میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے تصدیق کا نہ ہونا۔ انسان کی فطرت ہے وہ سنی سنائی بات بغیر تصدیق کے آگے پہنچا دیتا ہے اوریہ ایک حدیث کے مطابق ہمارے جھوٹے ہونے کیلئے کافی ہے۔

اوہائیو ٹاؤن میں پیش آنے والے واقعے سے قبل نزدیکی ٹاؤن اور اوہائیو کے کچھ حصے میں سیلاب نے تباہی مچائی تھی جس کے بعد ٹاؤن کے تھانے میں الرٹ سسٹم بنادیا گیا تھا اور شہریوں کو خبردار کردیاگیا تھا کہ سیلابی صورتحال کی بھنک لگتے ہی تھانے میں لگی گھنٹی الارم کے طور پر بجا دی جائیگی۔لیکن اوہائیو کے رہائشیوں نے نہ گھنٹی سنی اور نہ ہی تصدیق کیلئے تھانے کا رخ کیا بلکہ صرف ایک شخص کے کہنے پر نہ صرف خودبلکہ اپنے گھروالوں اور پورے قصبے کو مصیبت میں ڈال دیا۔

پشاور میں بھی کچھ یہی ہوا، شہریوں نے نہ بچوں سے ان کی صحت کے بارے دریافت کیا نہ ہی انتظامیہ کے اعلانات پر کان دھرا،بس رخ کیاتو اسپتالوں کا۔ بعد ازاں ملزم نذر محمد کی گرفتاری اور اس کی اداکاری کی ویڈیو دیکھ کر والدین کو یقین آیا کہ ویکسین محفوظ تھی۔ یہ دونوں واقعات کبھی پیش نہ آتے اگر ہم میں شعور اور سنی سنائی بات کی تصدیق کرنے کی صلاحیت ہوتی۔ڈر ہے کہیں 22اپریل 2019کا یہ واقعہ بھی ( دی ڈے دی ڈیم بروک) کی طرح آئندہ نسلوں کو بطور سبق آموز قصے کے نہ سنایا جانے لگے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں