’’خط آدھی ملاقات ہوتی ہے۔‘‘
سیاست کے میدان میں ایک خط کا بہت شور ہوا تھا جس کے متن سے تو عوام آج بھی واقف نہیں، لیکن اسے “قطری خط”کہہ کر اس پر گرما گرم تبصرے اور ہنسی ٹھٹھا ضرور کرتے رہے ہیں۔ آج وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے بھی اپنے جلسے میں ایک خط لہرا کر بتایا ہے کہ انھیں تحریری “دھمکی” دی گئی ہے۔ فریسندہ کا نام نہیں بتایا اور یوں مکتوب نگار اب تک “نامعلوم” ہے۔ شاید یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہو اس لیے ہمیں بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن کیاحزب اختلاف کی جماعتیں اسے نہیں کریدیں گی؟
چند سال پہلے تک ایک نسل مشاہیر سے کر محبوباؤں تک کے خطوط تعلیمی نصاب کی ضرورت اور ہجر و وصال کی لذّت یا آزار کے لیے ضرور پڑھتی رہی ہے، لیکن موجودہ دور میں سیاست دان جن خطوط کی بنیاد پر عوام کی ہمدردی یا توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں کبھی عوام اور ووٹروں کے سامنے نہیں رکھا جاتا۔ خیر، یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تو صرف اس تحریر کی بات کررہے ہیں جو صفحہ دو صفحہ پر مشتمل ہو اور اسے مکتوب، رقعہ، ہدایت نامہ کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔
خط رومانوی ہو تو واردات قلبی ، تخلیق کار کا ہو تو علمی اور ادبی بحث اور سیاسی ہو تو سیاسی بحث چھیڑ دیتا ہے۔ایسے کسی خط کے ذریعے کوئی بااثر حکم راں کسی سیاست دان، کسی ملک کی حکومت یا ادارہ تک اپنی بات اور جذبات با آسانی پہنچاسکتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں یہ کام فون کال کے ذریعے زیادہ بہتر طریقے سے انجام پاسکتا ہے تو مکتوب نگاری کا شوق کیوں فرمایاجائے؟ بہرحال جب ایسی کوئی تحریر سیاست میں کسی من چاہی تبدیلی پر اصرار کرنے کے لیے ہو تو یہ تاریخ رقم کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے اور اس کی نوعیت غیرمعمولی ہوتی ہے۔
جس طرح سے دنیا، ملکوں کی سیاست اور مفادات بدلتے ہیں، اسی طرح ضرورت پڑنے پر کسی کو منانے، ہٹانے اور اسی قسم کے معاملات طے کرنے یا کروانے کے لیے کسی زور آور کا فون کال پر لہجہ یا اس کے خط کی عبارت رنگین اور سنگین ہوسکتی ہے۔
یاد آیا کہ اُردو خطوط نگاری کو وقعت دینے میں مرزا غالب کا نام سب سے اونچا ہے۔ ان کے خطوط فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں دستیاب ہیں۔ اسی طرح علّامہ اقبال کے خطوط بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسیات کے طالبِ علموں کے لیے قطری خط کے بعد عمران خان کو موصول ہونے والا خط کسی طرح دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا، لیکن ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اب خطوط کم ہی لکھے جاتے ہیں۔ پھر بھی قطری خط اور اب یہ ‘دھمکی خط’ (شاید یہ نام موزوں ہو) پاکستان میں سیاسی خطوط نگاری کے ارتقا اور فروغ کا ذریعہ بھی بنیں اور ان کی مدد سے سیاسی صورتِ حال اور ملکوں کے مابین تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لینا ممکن ہو۔
رومانوی خط لکھنے کا شوق کئی عاشقوں کی ذلّت و رسوائی کا سبب بھی بنا ہے اور اکثر پریمی خط یا رقعہ پکڑے جانے پر بری طرح پھسنے اور پٹے بھی ہیں۔ کئی مشاہیر اور مکتوب الیہ بھی اپنے خطوط کی وجہ سے رسوا ہوئے ہیں۔ اسی طرح سیاسی خطوط بھی موجبِ رسوائی بن سکتے ہیں۔
پاکستانی عوام وزیرِاعظم کو موصول ہونے والے خط سے متعلق جاننے کے لیے بیتاب ہیں اور خط کے متن سے متعلق قیاس آرائیوں کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ آنے والے دنوں میں شاید حکومت یا پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے اس خط پر تفصیل سے بات کرکے عوام کی بے چینی دور کردی جائے۔