یہ فلم دراصل ٹینس اسٹار”وینس ولیمز“ اور”سرینا ولیمز“ کی سوانح ہے۔ یہ دونوں بہنیں ٹینس کی دنیا کا روشن ستارہ ہیں جن کی زندگی اور کھیل کی دنیا تک ان کے سفر کو اس فلم میں پیش کیا گیا ہے۔ ”کنگ رچرڈ“ ان دونوں بہنوں کی جدوجہد اور ان کے والد ”رچرڈ ولیمز“ کے جذبے اور محنت کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ فلم ”94 ویں اکادمی ایوارڈز“ کے لیے چھے مختلف زمروں میں نام زد ہوئی اور ”بہترین اداکار“ کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ یہ کردار معروف اداکار”وِل اسمتھ“ نے بڑی کام یابی سے نبھایا ہے جس کی ایک وجہ ”وِل اسمتھ“ کا اپنے والد سے جذباتی لگاؤ ہونا بھی ہے، جس کا اظہار اس نے اپنی سوانح عمری میں کیا ہے۔ اس فلم پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
فلم سازی
اس فلم کو بنانے کا حتمی فیصلہ 2019 میں ہوا، جس کے لیے ہدایت کار اور اداکاروں سمیت تمام آرٹسٹوں سے حتمی معاملات بالترتیب طے کیے گئے۔ اس کی عکس بندی کچھ عرصہ معطل بھیbetist رہی، جس کی وجہ ”کورونا کی وبا“ تھی۔ فلم کو دو بڑی امریکی فلم ساز کمپنیوں نے بنایا، جب کہ پوری دنیا میں اس فلم کی تقسیم کے لیے ”وارنر برادرز پکچرز“ جیسے تقسیم کار ادارے کا انتخاب کیا گیا۔ آن لائن اسٹریمنگ کے لیے ایچ بی او میکس کے ساتھ معاملات طے کیے گئے۔ فلم کے ہدایت کار معروف امریکی سیاہ فام فلم ساز”رینالڈو مارکس گرین“ ہیں، جو امریکا میں نئے فلم سازوں میں نمایاں ہیں۔
مرکزی کردار کے لیے ”وِل اسمتھ“ کو منتخب کیا گیا جو اس فلم کے پروڈیوسرز میں بھی شامل ہیں اور اس فلم میں اپنی شان دار اداکاری کی بدولت آسکر ایوارڈ بھی لے اڑے ہیں۔
اس فلم کی ایگزیکٹیو پروڈیوسرز میں سرینا اور وینس کے نام بھی شامل ہیں۔ اس فلم پر پچاس ملین ڈالرز لاگت آئی ہے اور باکس آفس پر یہ فلم کام یابی سے یہ رقم وصول کر رہی ہے۔ فلم اب تک تیس ملین ڈالرز سے زائد کما چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اس فلم کا پریمئر 2 ستمبر 2021 کو، امریکا میں ”ٹیلیورائڈ فلم فیسٹیول“ میں ہوا، جب کہ 19 نومبر 2021 کو امریکا سمیت پوری دنیا میں اس کی باقاعدہ نمائش ہوئی۔ اسی تاریخ کو فلم آن لائن اسٹریمنگ کے لیے بھی پیش کی گئی تھی۔ 28 مارچ 2022 کو 94 ویں آسکرز میں بہترین اداکار کے ایوارڈ کے علاوہ یہ فلم شوبز کی دنیا کے دوسرے بڑے اعزازات بھی اپنے نام کر چکی ہے، جن کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔
کہانی
اس فلم کی کہانی ایسے باپ کی ہے، جو اپنے بچّوں کو آسمان پر ستاروں کی طرح جگمگاتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا، اور پھر وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں جُت گیا۔ ایک شخص کس طرح اپنی زندگی ایک مقصد کے لیے وقف کر دیتا ہے، یہ فلم اس کی عکاسی کرتی ہے۔ اس باپ نے اپنی دونوں بیٹیوں کی پیدائش کے بعد ان تربیت کا ایک منصوبہ بنایا اور اسی کے مطابق ان کی پرورش کرنے لگا۔ ان کے راستے میں کئی رکاوٹیں آئیں، مگر باپ اور بچّوں کی مسلسل ریاضت کا سلسلہ نہیں ٹوٹ سکا۔ وہ اپنے خواب کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے، آخرکار آسمان کی بلندیوں جیسی شہرت کو چُھو لیا اور زندگی میں کام یاب ہوئے۔
فلم کا اسکرین پلے”زیک بیلن“ نے لکھا ہے۔ فلم کی مجموعی کہانی کی تشکیل میں فلم ساز، رچرڈ ولیمز کے خاندان کے افراد اور چند شائع شدہ کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ فلمی ناقدین اور فلم بینوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے، کہانی کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کیا گیا، مرکزی شخصیت، جس کی کہانی بیان ہو رہی ہے، ان کی ذات سے منسوب کچھ منفی باتیں تھیں، جن کو مخفی رکھا گیا یا کچھ واقعات تبدیل کرکے پیش کیے گئے۔ مثال کے طور پر ٹینس کے کھلاڑی بننے کا خواب دیکھنے والی یہ دو نہیں بلکہ تین بہنیں تھیں، لیکن ایک بہن اپنے کیرئیر کو آگے نہ بڑھا سکی، تو اس فلم کی کہانی میں اس کا ذکر بھی گول کر دیا گیا۔
اس فلم کے بارے میں ٹینس اسٹار بیٹی ”سرینا ولیمز“ کا کہنا ہے، ”اس فلم کی کہانی میرے والد کی حقیقی زندگی سے ممکنہ حد تک قریب ہے اور یہ فلم ایک بہترین موقع تھا کہ ہم دیکھیں، ایک افریقی نژاد امریکی باپ کتنا باصلاحیت ہے، ہمارے ہاں بہت سے سیاہ فام افراد کو اس تناظر میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔“
ہدایت کاری
اس فلم کی ہدایت کاری مناسب ہے، مگر بغور جائزہ لیا جائے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ کہانی طوالت کا شکار ہوئی ہے۔ اس فلم میں بہت سارے جذباتی مناظر پیش کیے جاسکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا، کہانی سیدھی سیدھی آگے بڑھتی اور بغیر کسی کلائمکس کے ختم ہوجاتی ہے۔
کہانی کے دو مرکزی کردار سرینا اور وینس چوں کہ عالمی سطح پر ٹینس کی کھلاڑی کے طور پر بہت معروف ہیں، اس کا فائدہ بھی فلم ساز کو ہوا ہے، مگر ہدایت کاری میں مزید بہتری کی گنجائش تھی۔ اداکاروں کا انتخاب، کہانی کے لیے لوکیشنز اور دیگر تمام لوازمات کا خیال اچھی طرح رکھا گیا ہے، لیکن موسیقی کی بھی کمی محسوس ہوئی۔ باپ بیٹیوں کی اس جذباتی کہانی میں موسیقی سے مناظر کو مزید پُراثر بنایا جاسکتا تھا۔
اداکاری
اس فلم کا سارا بوجھ”رچرڈ ولیمز“ کے کردار پر تھا، جس کو”وِل اسمتھ“ نے بخوبی نبھایا۔ یہ اداکار چوں کہ اپنے والد کے رشتے میں بہت جذباتی رہے ہیں، تو غالباً اس کردار کو نبھاتے ہوئے، ان کے ذہن میں اپنے والد کی آدرش شخصیت اور اپنی زندگی کی جدوجہد بھی تھی، تب ہی وہ فطری اداکاری کرتے دکھائی دیے۔ مسز رچرڈ یعنی ”برانڈی“ کے کردار میں ”آن نیو ایلس“ نے بھی اپنے کردار سے انصاف کیا۔ ان کی دونوں بچیوں کے کرداروں میں، دو کم عمر اداکاراؤں ”ثانیہ سڈنی“ اور”ڈیمی سنگلٹن“ کا کام بھی قابلِ تعریف ہے۔
اداکاری کے اعتبار سے یہ فلم بہتر تھی، اور اسی لیے ”بہترین اداکار“ کا آسکر ایوارڈ بھی اس کا مقدّر بنا۔ مجموعی طور پر دیگر سب اداکاروں نے اپنے کام کو بخوبی نبھایا۔
حرفِ آخر
مغرب میں سوانحی فلمیں بنانے کا چلن بہت زیادہ ہے اور یہ مثبت روش ہے۔ اس طرح آپ فلم بینوں کے ساتھ ساتھ عام اور حساس فرد کو بھی زندگی کے بارے میں ایک بہتر پیغام دے سکتے ہیں۔ یہ فلم بڑی خوب صورتی سے بتاتی ہے کہ زندگی میں طویل منصوبہ بندی کے ساتھ صبر و شکر سے کس طرح اپنے ہدف کی طرف بڑھا جاتا ہے۔
اگر آپ نے بھی کوئی خواب دیکھا ہے جس کی تکمیل میں عرصہ درکار ہے، اور منزل کے تعاقب میں آگے بڑھتے ہوئے فطری طور پر عجلت اور جلد بازی کی عادت سے بھی پریشان ہیں، راستے کی مشکلات اور سفر میں حائل رکاوٹیں آپ کی ہمّت اور حوصلہ پست کررہی ہیں، تو پھر ”کنگ رچرڈ“ آپ ہی کے لیے ہے۔