The news is by your side.

سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے اتوار 22 جولائی کو کراچی، حیدر آباد اور ٹھٹھہ میں پولنگ جب کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست 245 پر ضمنی انتخاب بھی 26 جولائی کو ہونا تھا جو اچانک ملتوی کر دیا گیا۔

بلدیاتی الیکشن سے صرف تین روز قبل جب تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، رات گئے اچانک میڈیا پر بلدیاتی اور ضمنی الیکشن ملتوی کیے جانے کی خبر نشر ہوئی اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ شیڈول کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ اس نئے شیڈول کے مطابق اب این اے 245 پر ضمنی الیکشن 21 اگست جب کہ بلدیاتی الیکشن 28 اگست کو ہوں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابات کے اچانک التوا کی وجہ متوقع بارشیں بتائی ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر دو بڑی جماعتوں پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی نے اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک التوا کی وجہ خراب موسم ہے یا پھر کچھ اور؟

اگر متوقع بارشیں ہی اس کی اہم اور واحد وجہ ہیں تو محکمہ موسمیات سمیت دیگر ادارے تو رواں سال کے آغاز سے ہی کئی بار یاد دہانی کراچکے کہ اس سال ملک بھر بالخصوص زیریں سندھ میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ تو جب یہ پیشگوئی کئی ماہ پہلے ہی ہوچکی تھی تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ مون سون کے اس موسم میں انتخابات شیڈول کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پہلے الیکشن شیڈول کا اعلان کر کے کروڑوں روپے انتظامات پر خرچ کیے گئے اور اب صرف 3 روز قبل یہ کہہ کر ملتوی کر دیے گئے کہ بارشوں کا طوفانی اسپیل آ رہا ہے اس لیے الیکشن ممکن نہیں ہوسکیں گے۔ اس اچانک التوا سے ہی ایک رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا اور دوبارہ الیکشن کے انتظامات کے لیے الیکشن کمیشن کو تقریباً 20 کروڑ روپے اضافی خرچ کرنا پڑیں گے۔ اس موقع پر سوال تو یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ درست ہے؟

متنازع ماحول میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن (متنازع اس لیے کہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایم کیو ایم کا ایک کیس سپریم کورٹ میں ہے اور اس کا موقف ہے کہ حلقہ بندیاں درست کیے بغیر بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جائیں، تاہم اس درخواست کے باوجود ایم کیو ایم انتخابی میدان میں موجود ہے) ان حالات میں ہو رہے تھے کہ جب شہر قائد حالیہ برساتوں کے بعد تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بارشوں کے ایک ہی اسپیل نے عروس البلاد کہلانے والے شہر کی رونقیں ایسی اجاڑیں کہ سڑکیں جو پہلے ہی خستہ حال تھیں اب کھنڈر کا نمونہ پیش کررہی ہیں۔ نکاسی آب کے ناقص نظام نے اس برسات میں قیمتی جانوں سمیت شہریوں کی قیمتی املاک بھی تباہ کیں۔

جب ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی بدترین حالات سے گزرے بلکہ گزر رہے ہوں۔ سڑکیں کھنڈر، گلیوں شاہراہوں پر کھڑا پانی لیکن نلکے خالی، صفائی کا ایسا نظام کہ جہاں جاؤ خوشبو کے جھونکے پاؤ۔ ان حالات میں “سندھ ہمارا ہے” کی دعوے دار پی پی پی جس کے پاس بلاشرکت غیرے 14 سال سے سندھ کی حکمرانی ہے اور “کراچی ہمارا ہے” کی دعوے دار ایم کیو ایم جن کے وسیم اختر گزشتہ میئر کراچی تھے کیسے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے کہ نہ سندھ ہمارا ہے کہ دعویداروں نے کبھی اس شہر کے حالات سدھارنے پر اخلاص سے توجہ دی اور نہ ہی شہر پر اپنا حق جتانے والی جماعت ایم کیو ایم اصل معنوں میں اس شہر کے باسیوں کی پُرسان حال بنی۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ گزشتہ میئر کراچی ایم کیو ایم کا تھا لیکن بااختیار نہ بلدیاتی نظام تھا اور نہ ہی میئر تو یہ بات تو 100 فیصد درست ہے۔ حقیقت ہے کہ اس معاملے پر چند ماہ قبل تک ایم کیو ایم بڑی شدومد کے ساتھ احتجاج بھی کرتی رہی اور سندھ حکومت پر الزامات بھی عائد کرتی رہی، لیکن پھر اچانک اسی سندھ حکومت کی اتحادی بن گئی جس نے اس کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا کہ جو جماعت چند روز تک جس کے خلاف احتجاج پر تھی وہ اچانک ہم نوالہ اور ہم پیالہ کیسے ہوگئی؟ یہ مفادات کا ہی کھیل تھا کہ چند ماہ قبل باہم دست و گریباں سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے گلے مل گئیں۔

یہ تو تھی سندھ اور کراچی پر حق جتانے والی دو بڑی جماعتوں کی کارکردگی لیکن الیکشن ملتوی ہونے کی اصل وجہ صرف یہ نہیں تھی بلکہ حال ہی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کی عبرت ناک شکست اور سب کی مشترکہ حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف کی شاندار فتح بھی اور کرتا دھرتاؤں کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ جھاڑو یہاں سندھ میں بھی نہ پھر جائے۔ اس خدشے کا سب سے بڑا سبب گزشتہ ماہ کراچی کے حلقے این اے 240 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ بھی ہے جو موجودہ سیاسی صورتحال کو زیادہ واضح کرتا ہے۔ وہاں گو کہ ایم کیو ایم کے امیدوار نے فتح حاصل کی لیکن یہ فتح انتہائی کم مارجن کے ساتھ تھی اور ایم کیو ایم کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس کے قطعی شایان شان نہیں تھی۔ یہاں دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت تحریک لبیک کا امیدوار ایم کیو ایم کے فاتح امیدوار سے 60 سے 65 ووٹوں سے ہی پیچھے رہا۔ یہ فرق بھی دیکھ لیں کہ یہاں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی میدان میں نہیں تھی اور یہاں ووٹرز ٹرن آؤٹ 15 فیصد کے لگ بھگ تھا جب کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے مساوی 50 فیصد کے قریب رہا۔

انتخابات ملتوی ہونے کے بعد جہاں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں الیکشن کمیشن کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہیں تو وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہے وہ سب کے سامنے کچھ بھی کہیں لیکن دونوں اس التوا پر خوش ہیں۔

اب محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارشیں اس شدت سے برستی بھی ہیں یا نہیں لیکن الیکشن تو ملتوی کردیے گئے ہیں۔ کراچی میں سالوں بعد جو انتخابی ماحول گرم ہوا تھا، وہ ٹھنڈا ہونے کے بعد شہر کی سیاسی فضا میں گھٹن اور حبس بڑھ گیا ہے۔ ملک کو 65 فیصد سے زائد ٹیکس دینے والے شہر کراچی اور اس کے شہری اب حقیقی مسیحائی چاہتے ہیں اب تک اس شہر کو کئی میئر اور مقامی نمائندے مل چکے ہیں جو اس شہر کے بیٹے ہونے کے دعویدار تو تھے، لیکن تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں وہ اس شہر اور یہاں کے باسیوں کو کچھ نہیں دے سکے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں