The news is by your side.

پاکستان کے ’’غریب عوام‘‘ کہاں جائیں؟

دنیا ’اے آئی‘ کے ذریعے روز نت نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے مگر پاکستانی قوم اسی فکر میں مبتلا ہے کہ وہ فائلر ہے یا نان فائلر۔ حکومت کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں سے فائلر اور نان فائلر کا باجا اس زور سے بجایا گیا ہے کہ ہر جانب اسی کی گونج ہے۔ گھر ہو یا دفتر، شادی کی محفل ہو یا میت کا مجمع، سب اسی فکر میں ہلکان ہو رہے ہیں کہ ان کا شمار کس خانے میں ہوتا ہے۔

ایف بی آر کو محصولات میں کمی کے بعد جہاں منی بجٹ کی گھنٹی بجنے لگی، وہیں محصولات بڑھانے اور غریبوں کو شکنجے میں کسنے کے لیے حکومت نے 50 ہزار تنخواہ پانے والے ملازم کو فائلر قرار دیتے ہوئے اس بات کا بھی پابند کر دیا ہے کہ اب وہ اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے، بصورت دیگر اسے کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان پابندیوں میں بینک اکاؤنٹ اور موبائل فون کی سِم کی بندش سے لے کر بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی منقطع اور گھر، گاڑی کی خریداری اور بیرون ملک سفر جیسی سہولتوں کے حصول سے روکنے کا انتباہ بھی شامل ہے۔ ایف بی آر کے مطابق بینک اکاؤنٹ اور سم کی بندش کے فیصلے پر عمدرآمد یکم اکتوبر سے شروع کر دیا جائے گا اور اس سے وہ لوگ بھی متاثر ہوں گے جن کی تنخواہوں سے براہ راست انکم ٹیکس کی کٹوتی ہو جاتی ہے، لیکن وہ کیونکہ گوشوارے نہیں بھرتے تو نان فائلر کے زمرے میں شمار ہوں گے۔ اب اس دھمکی پر کس حد تک عمل ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن حکومتی اقدامات نے ملک کے غریب عوام کا ناطقہ بند کر دیا ہے اور وہ یہ سوچ رہا ہے کہ پابندیوں کے پیچ در پیچ پھندے سے بچنے کے لیے آخر وہ کیا کرے اور کہاں جائے؟

اگر دیکھا جائے تو ملک کی 100 فیصد آبادی علاوہ (حکمراں اور اشرافیہ طبقہ) ٹیکس دہندہ ہے۔ کوئی بچہ 10 روپے کا بسکٹ، چاکلیٹ، ٹافی بھی لینے جاتا ہے تو وہ بلواسطہ ٹیکس دیتا ہے۔ شیر خوار بچے کا دودھ بغیر ٹیکس کے نہیں مل سکتا۔ سینئر ریٹائرڈ سٹیزن، جن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، ان کی دوا بغیر ٹیکس کے نہیں مل سکتی۔ گھروں میں امور خانہ داری اور کوئی ذرائع آمدن نہ رکھنے والی خواتین کچھ بھی بلواسطہ ٹیکس دیے بغیر کچھ خریدنے کی جرات نہیں کر سکتیں، تو پھر فائلر اور نان فائلر کا جھگڑا کہاں سے آگیا؟ بقول سابق چیئرمین ایف بی آر کہ دنیا میں کہیں بھی فائلر اور نان فائلر کی کٹیگری نہیں ہوتی، پاکستان میں یہ غیر منطقی ہے۔ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ فائلر اور نان فائلر شریف برادران کے پسندیدہ الفاظ ہیں۔ بہرحال اگر فائلر اور نان فائلر، اتنا ہی ضروری ہے تو جو براہ راست اپنی تںخواہ سے ٹیکس دے رہا ہے وہ اگر حکومتی ریکارڈ میں نان فائلر ہے تو یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی نا اہلی کچھ اندرون خانہ معاملات کہے جا سکتے ہیں کہ جب ٹیکس دینے کے باوجود اگر وہ ریکارڈ پر نہیں آتا تو اس کو کیا کہیں گے؟ ویسے بھی ہمارے سرکاری ادارے تو کرپشن کرنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے سوال ہے کہ جس 50 ہزار آمدن والے غریب شخص سے، جس کی تنخواہ سے پہلے ہی ٹیکس کٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ باقی ماندہ تنخواہ جو گھر لے جاتا ہے، اس سے بھی ہر چیز کی خریداری پر ایڈوانس ٹیکس کے وصول کیا جاتا ہے۔ اس پر اب ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کی شرط قابل عمل ہے؟ کیا اس کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ ہر ماہ ٹیکس کٹوتی کے ساتھ دنوں کے حساب سے بڑھتی مہنگائی کا بھی مقابلہ کرے اور پھر سال میں ایک بار ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کر کے اضافی رقم بھی خرچ کرے؟

محترم وزیر اس کے ساتھ ہی زیادہ نہیں چار افراد کے گھرانے کا 50 ہزار میں بجٹ بنا کر دکھا دیں اور دیکھیں کہ اس بجٹ میں گھر کا کرایہ، خوراک، تعلیم، علاج، بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کے بعد کچھ بچتا بھی ہے یا نہیں۔ غریب تنخواہ دار کی تو حالت یہ ہے کہ تنخواہ ہاتھ میں آتے ہی اس کے لبوں سے اس مشہور زمانہ نغمے کا مصرع کچھ تحریف کے ساتھ اس طرح جاری ہونے لگتا ہے کہ ’’آئی ہو ابھی، بیٹھو تو سہی، جانے کی باتیں جانے دو۔‘‘ اور حسب حال ہے بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ تنخواہ جس کا کوئی تنخواہ دار ملازم اور اس کے اہل خانہ مہینہ بھر انتظار کرتے ہیں وہ صرف چند دن کی مہمان ہوتی ہے اور پھر اخراجات کے لیے قرض کا کاسہ پھیلانا پڑتا ہے، ایسے میں وہ فائلر بننے کے لیے اضافی خرچ کہاں سے لائے گا اور کس کے آگے کاسہ گدائی پھیلائے گا؟

جہاں تک بات پابندیوں کی ہے کہ تو حکومت سے کوئی ارسطو بتائے گا کہ 50 ہزار ماہانہ آمدن کمانے والا آج گھر کا ماہانہ بجٹ نہیں بنا سکتا تو وہ گھر یا گاڑی خریدنے کا جاگتی آنکھوں کبھی نہ پورا ہونے والا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ رہی بات اکاؤنٹ اور سِم بند کرنے کی تو ان ہی بینک اکاؤنٹ میں آنے والی سیلری سے حکومت کو براہ راست ٹیکس جاتا ہے اگر یہ بند کر دیا تو اس شخص سے زیادہ یہ حکومت کا ہی نقصان ہوگا۔ ہاں اگر پابندیوں پر عمل ہوا تو اس سے غریب کی یہ ملک کی ایلیٹ حکمراں طبقے میں شمولیت کی خواہش ضرور پوری ہو سکتی ہے کیونکہ بیرون ملک جانے پر پابندی کا مطلب نام ای سی ایل میں آنا ہے اور اس فہرست میں اب تک تو صرف حکمرانوں اور بیورو کریٹس اشرافیہ کے نام ہی آتے رہے ہیں۔

جس طرح سے فائلر اور نان فائلر کی گردان اور انہیں حاصل سہولتوں اور پابندیوں کی میٹھے لہجے میں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لوگوں کو تو اب یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں فائلر اور نان فائلر کے قبرستان الگ الگ نہ کر دیے جائیں۔ یا ان کے شادی کرنے پر ہی پابندی عائد نہ کر دی جائے، اگر ایسا ہوگیا تو یہ بھی ملک کے مفاد میں ہوگا کہ پاکستان کی آبادی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جو 2.5 کے تناسب سے تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کی روک تھام میں مدد مل سکے گی۔

آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے تین سالہ قرض پروگرام منظور ہونے اور پہلی قسط ملنے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور فخر سے بتایا جا رہا ہے کہ قرض کی پہلی قسط ملتے ہی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گیا ہے، لیکن اس کے عوض کڑی شرائط کے ساتھ ہونے والی مہنگائی سے غریب عوام کی جیب جو خالی ہو رہی ہے، کیا اس کی کسی کو فکر ہے۔ اس قرض پروگرام کی جو حکومت پاکستان کی جانب سے منظور کی گئی کڑی شرائط سامنے آئی ہے اس پر عملدرآمد سے تو عوام کا مزید کچومر نکل جائے گا۔ ان شرائط میں یہ بھی ہے کہ بجلی قیمتوں میں ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ حکومت غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین تک نہیں کر سکے گی۔ ضمنی گرانٹس بھی جاری نہیں کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی اسٹرکچر میں نظر ثانی کی بھی تاکید ہے لیکن کبھی تو آئی ایم ایف واضح طور پر کہہ دے کہ حکمراں اور مقتدر طبقے، اشرافیہ، بیورو کریٹس جن کی تنخواہیں لاکھوں میں اور مراعات اس سے کئی گنا زائد ہیں وہ مفت میں ہزاروں یونٹس بجلی، گھر، پٹرول، گاڑی، علاج، تعلیم کی سہولتیں لے رہے ہیں اس کو بھی مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

یہ بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ غریب عوام (جو پہلے ہی ایسی چادر پہنی ہے جو سر پر اوڑھتی ہے تو پیر کھلتے ہیں اور پیر ڈھکتی ہے تو سر ننگا ہوتا ہے) کو کفایت شعاری کا درس اور فوائد بتاتی ہے لیکن جب عوام ان سیاسی مبلغین کا طرز رہائش دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ کفایت شعاری ان کے قریب سے نہیں گزرتی۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کبھی شادی کی تقریبات میں کھانے پر پابندی لگاتا ہے لیکن اپنی تقریبات میں انواع و اقسام کے کھانے سجاتا ہے۔ غریبوں سے ان کی آمدنی سے زیادہ بجلی اور گیس کے بل اور ٹیکسز وصول کرتا ہے لیکن لاکھوں کی آمدنی کے باوجود یہ سب مراعات مفت پاتا ہے۔

حکومت کی جانب سے بھی عوام پر قدغن لگانے والے حکومتی اقدامات تو مسلسل سامنے آتے ہیں، لیکن اب تک مبہم اعلان کے علاوہ کبھی اس پر عملدرآمد نہیں ہوا جس میں حکمراں، اشرافیہ، مقتدر طبقے اور بیورو کریٹ س کی مفت بجلی، پٹرول، گھر، نوکر چاکر، علاج، بیرون ملک سفری سہولتیں اور پرتعیش قیام و طعام کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا گیا ہو۔ کیونکہ اس سے خود حکمرانوں اور ان ہی کے قبیل کے لوگوں کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

وقت آگیا ہے کہ جب آئی ایم ایف ہی کی منظوری سے ملک کے بجٹ بن رہے ہیں تو یہ عالمی مالیاتی ادارہ جس طرح غریب عوام پر سبسڈی حرام قرار دیتا ہے، اسی طرح بیک جنبش قلم حکمراں اور ایلیٹ کلاس کی تمام مراعات اور مفت سہولتوں پر بھی نشان تنسیخ کھینچ دے کہ اب شاید واحد یہی چیز رہتی ہے جو ملک کے غریب عوام کو کچھ سکون کا سانس فراہم کر سکتی ہے۔

(یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

شاید آپ یہ بھی پسند کریں