The news is by your side.

کیا اقبالؔ کی شاعری بے عملی کی طرف لے جاتی ہے؟

علامہ اقبالؒ بلاشبہ ہر بڑی صاحبِ فکر شخصیت کی طرح فکری ارتقا کے مراحل سے گزرے تھے جس کا اندازہ ان کے اردو مجموعہ ہائے کلام سے ہوتا ہے۔ وطنیت سے آفاقیت تک کا سفر مرحلہ وار طے کر کے اقبال نے برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں شہرت پائی۔ اقبال شناسی اور اقبال فہمی ہندوستان بالخصوص پاکستان کے اہلِ علم و فلسفہ کا مشغلہ رہا ہے۔

اسی طرح دنیا بھر میں اشتراکیت پسند، لبرل اور دیگر فکری رجحانات اور نظریات سے وابستہ شخصیات نے بھی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کو اپنے اپنے انداز سے دیکھنے کی کوشش کی اور ان کے فلسفے، اسلامی فکر اور شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا۔ کئی اہلِ نقد و نظر ان سے متأثر ہوئے اور بعض ایسے بھی تھے جنھوں نے اقبال کی فکر کو بے سود اور انھیں‌ رجعت پسند ثابت کرنے کی کوشش کی۔ پیشِ نظر تحریر میں ہم یہ جانیں گے کہ مغربی فکر سے متاثر دانش وروں‌ اور ترقی پسند ادب سے وابستہ اہلِ قلم اقبال پر کیا نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔

اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے دل میں ایمان کی روشنی اور ان کے خیالات پر اسلامی تصوّرِ حیات کے غلبہ کے سوا کوئی فکر شامل نہیں‌ رہی، لیکن یہ بھی درست ہے کہ انھوں نے ہر قوم کے فرد کو پیہم جدوجہد کرتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا پیغام دیا جب کہ مسلمانوں‌ بالخصوص نوجوانوں‌ کو درسِ خودی دے کر علم و عمل کے ذریعے دنیا میں‌ اپنے اسلاف کی طرح سر بلندی اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور اسے سمجھنے کی کوشش میں‌ ناکام ہوجانے والے بعض دانش وروں اور اہلِ قلم نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ آج اگرچہ یہ سلسلہ تمام ہوچکا ہے اور اقبال شناسی کے میدان میں اور ان کی شاعری کی نئی جہات اور دورِ جدید میں‌ اس سے استفادہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی جارہی، لیکن آج بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ اقبال محض ایک شاعر نہیں‌ تھے بلکہ اسلامی دانش، فکر و فلسفہ کے ایسے پرچارک تھے جس نے عالمِ اسلام میں‌ اخلاقی پستی، بے عملی کی نشان دہی کرتے ہوئے اس سے نکلنے کا راستہ بھی سجھایا۔

یہاں ہم معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذکی المیلاد کے ایک مضمون سے چند سطور بھی نقل کریں گے جو ہمیں‌ فکرِ اقبال کی اہمیت اور ان کے پیغام کی آفاقیت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ دراصل علّامہ اقبال کا فکر و فلسفہ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہے۔ اقبال کے اس فلسفے کی اہمیت عربوں اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ جرمن دانشوروں نے بھی اجاگر کی ہے۔ ڈاکٹر ذکی المیلاد کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کا رتبہ ان کے یہاں جرمنی، انگلینڈ، فرانس بلکہ پورے یورپ کے فلسفیوں سے کسی درجہ کم نہیں۔ علامہ اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنے افکار و نظریات اور فلسفیانہ خیالات کے باب میں کسی مغربی فلسفی کے خوشہ چیں نہیں۔ وہ مغرب زدہ مفکر بن سکتے تھے، وہ یورپی ثقافت کے کام یاب شاگرد کے طور پر خود کو منوا سکتے تھے۔ مسلم عرب دنیا کے بہت سارے لوگوں نے یہ کام کیا لیکن علامہ اقبال نے اپنی آزاد شخصیت تشکیل دی۔ انہوں نے فلسفیانہ علوم کے مطالعے میں گہرائی اور گیرائی سے کام لیا اور اپنے روحانی تشخص کو برقرار رکھا۔ لیکن دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے نہ صرف علامہ اقبال جیسی قد آورشخصیت کے فلسفیانہ رتبے کا انکار کیا بلکہ ان کو رجعت پسند کہہ کر ان کی فکرِ‌ و تعلیم کو معاشرے کے حق میں‌ بے سود ثابت کرنے کی کوشش کی۔

آل احمد سرور اردو ادب کی ایک قدآور شخصیت اور تنقید کا بڑا نام ہیں جنھوں‌ نے “اقبال اور ان کے نکتہ چیں” کے عنوان سے جامع مضمون سپردِ قلم کیا تھا جس میں انھوں نے علامہ اقبال کی فکر اور ان کے فلسفے پر اعتراضات نقل کرتے ہوئے اس کا جواب دیا تھا۔ ان کے مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

“اقبال کو اپنی زندگی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ آج تک کسی شاعر کو نصیب نہ ہوئی۔ قبول عام کلام کی خوبی کا ضامن نہیں سمجھا جاتا مگرغور سے دیکھا جائے تو جمہورد جس کے سر پر تاج رکھ دیتے ہیں، اس کی بادشاہت کی بنیاد بہت دیر پا عناصر پر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جانسن کا قول ہے کہ ’’ادب کی خوبی کا آخری معیار عوام کے قبول کی سند ہے۔‘‘ اس قول میں صداقت ضرور پائی جاتی ہے۔ عوام یوں ہی کسی کو سر پر نہیں بٹھاتے۔ وہ کبھی کبھی سطحی چیزوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے۔ بہت سے لوگ بہت کافی عرصہ تک اسی چیز کی تعریف کرتے ہیں جو تعریف کے قابل ہو۔”

“غرض اقبال اس بارے میں کافی خوش نصیب رہے، وہ جو کہنا چاہتے تھے کہہ چکے تھے۔ ان کا مشن پورا ہو گیا تھا اور اگرچہ یہ یقین ہے کہ وہ زندہ رہتے تو ان کے مرکزی خیالات کی اور وضاحت ہو جاتی۔ مگر پھر بھی جو کچھ انہوں نے چھوڑا ہے وہ ہر حیثیت سے مکمل ہے۔”

“مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ اقبال پر اعتراضات بھی کیے گئے تھے۔ ان اعتراضات کی نوعیت مختلف قسم کی تھی۔”

“بہت دنوں تک اقبال پر جو اعتراضات کیے گئے تھے وہ زبان سے متعلق تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ شاعر کا کلام مقبول ہوا۔ اس کی شاعری کا سونا زندگی کی بھٹی میں تیار ہوا تھا۔ اس لیے اس میں صداقت بھی تھی اور حسن بھی، اب وہ وقت آیا کہ اقبال اپنے دور پر اثر انداز ہوئے۔ ان کا رنگ مقبول ہوا اور دوسرے شعراء غیرشعوری طورپر ان کا اتباع کرنے لگے۔ اردو شاعری میں فلسفیانہ بلند آہنگی پیدا ہوئی۔ زندگی کے مسائل سے قربت حاصل ہوئی۔ پیامیہ رنگ آیا، زندگی کا امید افزا پہلو سامنے رہنے لگا، ملک و قوم میں بیداری شروع ہوئی۔ ذہن و فکر میں انقلاب ہوا۔ اقبال نے اپنی چیزوں سے محبت سکھائی۔ غیروں سے بے نیازی کا سبق دیا۔ فرد کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور ان صلاحیتوں سے جماعت کے مفاد کا کام کیا۔ غرض ایک نئی نسل تیار کی جو ان کی دماغی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔”

اقبال کی فکر اور ان کے فن سے متعلق ان خیالات کا اظہار کرنے کے بعد آل احمد سرور آگے بڑھتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اردو شاعری کو سب سے پہلے اقبالؔ نے زندگی کے مسائل سے آشنا کرایا۔ حالیؔ، اکبرؔ اور چکبستؔ کا کلام نقشِ اوّل ہے۔ اقبال کے یہاں ’’گریۂ ابرِ بہار‘‘ اور ’’خندۂ تیغِ اصیل‘‘ دونوں ملتے ہیں۔ انہوں نے مسائل مہمہ پر رائے زنی بھی کی ہے۔ کبھی خضر کی زباں سے زندگی، سلطنت، سرمایہ داری، مزدور اور دنیائے اسلام کے عقدوں کو حل کیا ہے۔ کبھی شمع کی زبان سے زندگی، گرمی اور سوز و گداز کا پیغام سنایا ہے۔ کبھی نقاب اٹھاکر خود سامنے آتے ہیں۔

بانگِ درا اور بالِ جبریل کی اشاعت میں بارہ تیرہ سال کا فصل ہے۔ اس عرصے میں اقبالؔ کی کئی فارسی کتابیں شائع ہوئیں۔ پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، مسافر وغیرہ۔ ان میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرے ہیں۔ کتاب دل کی تفسیریں اور خواب جوانی کی تعبیریں ہیں۔ جیتی جاگتی، جانی پہچانی زندگی کے مرقعے ہیں۔ اقبالؔ کی کوششوں سے جدید اردو شاعری میں ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا ہوا۔ شاعر شباب، شاعرِ انقلاب ہوگئے۔ اگر اقبالؔ نہ ہوتے تو آپ ’’ناسزاخوانی‘‘ اور ’’جنگل کی شہزادی‘ والے جوشؔ کا کلا م سنتے رہتے۔ ’’نعرۂ شباب‘‘، ’’بغاوت‘‘، ’’کسان‘‘ والے جوشؔ کا وجود ہی نہ ہوتا۔ ’جامن والیاں‘ آپ کو ملتیں۔ لیکن ’ضعیفہ‘ اور مزدور دوشیزہ نہ ہوتیں۔ اسی طرح دوسرے تمام نوجوان شاعر، روش صدیقیؔ، احسان دانشؔ، ساغرؔ، امین حزیںؔ، اثر صہبائی، مجازؔ، حفیظؔ، جمالیاتی احساس کے طلسم میں گرفتار ہوتے۔ ان کے یہاں جو کچھ ہے وہ اس شاعر کی انقلابی آفریں نظموں کی آواز بازگشت ہے۔”

مضمون نگار نے زیرِ نظر پارے میں ایک ترقی پسند نقاد کا حوالہ دیتے ہوئے اقبال کی بلند فکری اور آفاقیت کے حق میں‌ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

“جس نے سب سے پہلے سرمایہ دار اور مزدور کی آویزش کو دیکھ کر مزدور کا ساتھ دیا، جس نے آزادی معنی صرف ہوم رول کے نہ لیے، جس نے مذہب کے بنیادی اور عالم گیر اصولوں پر نظر رکھی اور مذہب کے رواجی اور کاروباری نقطۂ نظر کے خلاف احتجاج کیا، جس کی حریتِ فکر نے قدیم سانچوں کو چھوڑ کر خیال کے نئے سانچے بنائے اور آنے والی نسلوں کے لیے سیکڑوں نشانِ راہ اپنے پیچھے چھوڑے، اس کے خلاف ایک نام نہاد ترقی پسند آرٹ کے ترقی پسند نظریے میں فرماتے ہیں،

’’اقبال کی شاعری حالاں کہ وہ اس سے کہیں زیادہ زور دار ہے، زیادہ خیالی ہے۔ اس ماضی کے عشق میں جو اپنے مردے کبھی کا دفن کر چکا ہے۔ اقبالؔ اسلام کے رنج و محن کے ترانے گاتے ہیں۔ ایک ناممکن اور بے معنی پین اسلامزم کی دعوت دیتے ہیں اور چیختے، چلاتے، روتے، دھمکاتے، قدیم گل و بلبل کے گیت گاتے (اکثر بڑی خوش الحانی کے ساتھ) اس مرکز پر آجاتے ہیں، جو بڑی حد تک اس قسم کی شاعری کے وجود اور الہام کا بانی مبانی ہے، یعنی ’’اسرار خودی‘‘ لیکن باوجود سیکڑوں شکوؤں اور جواب شکوؤں کے، باوجود آہ و بکا اور آنسوؤں اور التجاؤں کے وہ جو تھا کبھی واپس نہیں آسکتا۔ (اقبالؔ تو اس میں کام یاب ہوئے نہیں اور جو حقیقت ہے وہ رہے گی)

ٹیگور اور اقبال کی شاعری بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے اور حقیقت کو بھلانے کی خواہش سے پیدا ہوئی ہے۔ اور باوجود اپنی خوب صورتی کے محض خواب و خیال ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ ہماری قوت تنقید کو ’جگائے‘ بجائے اس کے کہ وہ ترقی کی ان قوتوں کو مدد دے جو سوسائٹی میں کام کر رہی ہیں۔ یہ ہم کو صرف غیر عملی اور بے حرکتی کی طرف کھینچتی ہے اور اس سے زیادہ رجعت پسندانہ ہے۔‘‘ (رسالہ اردو)

میں (آل احمد سرور) نے اقبالؔ کے متعلق پورا اقتباس اس وجہ سے دے دیا ہے کہ تحریف کا شبہ نہ رہے۔ اسے غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آدمی اپنی دلیل کو منوانے کے لیے بعض اوقات کس قدر ناانصافی پر اتر آتا ہے۔ احمد علی صاحب کو اقبال سے یہ شکایت ہے کہ،
(1) اقبالؔ کی شاعری خیالی ہے۔
(2) وہ ایک ناممکن اور بے معنی پین اسلامزم کی دعوت دیتی ہے۔
(3) بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے، اور حقیقت کو بھلانے کی خواہش سے پیدا ہوئی ہے۔
(4) وہ ہم کو بے عملی کی طرف کھینچتی ہے۔
(5) رجعت پسندانہ ہے۔

اس فردِ جرم کو دیکھیے، کوئی بھی اسے تسلیم کر سکتا ہے۔ اقبالؔ اور ٹیگورؔ کا فسلفۂ زندگی بہت مختلف ہے۔ مگر دونوں اپنے دور کی تمام خصوصیات کے آئینہ دار، اپنی نئی نسلوں کے قائد ذہنی ہیں۔ ٹیگورؔ کی شاعری میں مذہبی، رومانی اور صوفیانہ، تینوں پہلو ملتے ہیں۔ کسی رتھ کے آنے کا وہ ہمیشہ منتظر ہے مگر اس کا دل درد سے لبریز اور آنکھیں آنسوؤں سے نمناک ہیں۔ اپنے گرد و پیش سے، ماحول کے تقاضوں سے وہ متاثر ہوتا ہے، اس کی شاعری میں باوجود رومانی اثرات کے واقعیت ملتی ہے۔ من کی دیوی کا یہ پجاری دنیا کے کرب و تکلیف کا علاج ایک روحانی شانتی میں دیکھتا ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ اس میں گرمی اور حرارت موجود ہے۔ ظاہر میں یہ کہتے ہیں کہ ٹیگورؔ الفاظ کے تانے بانے میں خیالی دنیا کے خواب بنتا ہے۔ خود شاعر ایسے لوگوں سے یہ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ ’’ ہتھوڑے کی ضربیں نہیں بلکہ آب رواں کا رقص اپنے نغموں سے سنگ ریزوں کو سڈول بناتا ہے۔ ٹھوکر زمین سے گرد پیدا کر سکتی ہے، اناج نہیں۔‘‘

مگر اقبالؔ پر تو یہ اعتراض وارد ہو ہی نہیں سکتا۔ جس نے شاعری کو خیالی فضاؤں سے نکال کر عمل کی دنیا میں سیر کرائی۔ جس نے زندگی کے مسائل، جہالت، غربت، غلامی کی طرف اپنے سامعین کو متوجہ کیا۔ جس کے تخیل کی رنگ آمیزی سے زندگی کی تصویر اور بھی شوخ ہوگئی ہے۔ اس کی شاعری کو خیالی کہنا ہرگز صحیح نہیں۔ یہاں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے، اس کی تشریح میں یہ داستان بہت طویل ہو جائے گی۔ دوسری چیز چونکہ ایسی ہے جس کے متعلق موافق یا مخالف رائے دی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس پر زیادہ اصرار مناسب نہیں۔ پین اسلامزم ناممکن اور بے معنی ہے۔ یا فطری اور قرین قیاس اس کا جواب سوائے وقت کے اور کوئی نہیں دے سکتا۔ لیکن جس طرح ساری دنیا کے مزدوروں کو ایک شیرازے میں منسلک کرنے کی صدا بے معنی نہیں کہی جاسکتی۔ اسی طرح ایک خدا اور رسول کا کلمہ پڑھنے والوں کو یکجا کرنے کی کوشش بے معنی کیسے ہو سکتی ہے؟

اسلام کی حقیقی تعلیم پر عرب و عجم، روم و تاتار، زنگی و خوارزمی کا پردہ پڑ گیا تھا، وہ اٹھ جائے تو یہ حقیقت پھر سامنے آ جائے گی کہ تمام مسلمانوں کے دل الگ الگ ہوتے ہوئے اور اپنی مخصوص حالت میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی ایک ہی طرح دھڑکتے ہیں۔ شام و فلسطین میں جو زیادتی ہو رہی ہے اس پر نہ صرف آزاد ترکی مضطرب ہے بلکہ غلام ہندوستان اور نیم آزاد عراق و مصر بھی بے چین ہیں۔ اس چنگاری کو شعلہ بنتے کتنی دیر لگتی ہے؟

کیا اقبالؔ کی شاعری بے عملی کی طرف لے جاتی ہے۔ کیا ان کی تعلیم سے قوائے عمل شل ہو جاتے ہیں۔ کیا وہ اپنی بانسری کے نغموں سے راستہ چلتے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں یا ان کی تانوں سے بجھے ہوئے دل جوش میں آجاتے ہیں اور قلب میں گرمی پیدا ہوجاتی ہے؟ ان اشعار کو پڑھیے ان سے مترشح ہوتا ہے۔

یہی آئینِ قدرت ہے یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تُو

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا

یہ دیکھیے کہ ان پر رجعت پسندی کا الزام کہاں تک عائد ہو سکتا ہے۔

رجعت پسندی کسے کہتے ہیں؟ اسمتھ نے ’’ہندوستان میں جدید اسلام‘‘ میں لکھا ہے کہ رجعت پسند وہ ہے جو یہ جان کر کہ اس کی سوسائٹی کا نظام بدل رہا ہے اس کے خلاف رد عمل ظاہر کرے۔ رجعت پسند نہ صرف اجتماعی ترقی کی مخالفت کرتا ہے بلکہ کسی پچھلے نظام کو واپس لانے کی یا دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قدامت پسند محض ہر تبدیلی کی مخالفت کرتا ہے اور موجودہ حالات کو ایسے ہی رہنے دینا چاہتا ہے۔ گویا رجعت پسندی، قدامت پسندی کے بھی آگے اور اس کی آخری خندق ہے۔ اقبالؔ کے اوپر ان میں سے کوئی اصطلاح یوں نہیں صادق آتی کہ وہ ایک پرانے نظام کے اصولوں کو ضرور ملحوظ رکھتے ہیں مگر وہ نئے تجربات اور نئے حالات کے خلاف نہیں ہیں۔

اقبالؔ کے دل میں آزادی کی سچی تڑپ موجود ہے۔ حریتِ فکر پر وہ جان دیتے ہیں۔ سرمایہ دار کے دشمن اور مزدور کے حامی ہیں۔ مولوی اور ملا سے نفرت کرتے ہیں، صوفیوں کی بدمذاقیوں سے نالاں ہیں اور خانقاہوں کے خلاف، ان کا مذہب رسم و رواج نہیں، اسلام ہے، غلامی کی ذلت کا خیال کر کے انہیں شرم آتی ہے۔ پھر بھی انہیں رجعت پسند کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ شاید وہ چیزیں جس میں اشتراکیت، مذہب سے بغاوت اور مادہ پرستی کی تلقین موجود نہ ہو، رجعت پسندانہ ہے۔ ہمارے نام نہاد نقاد خود اسلام کو رجعت پسند کہتے ہیں اس لیے انہیں اقبالؔ بھی ویسے ہی نظر آئے۔ بہرحال میں چند متفرق عنوانات پر کچھ شعر پیش کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ دیکھیے ان سے قدامت ٹپکتی ہے یا جدیدیت، رجعت پسندی یا آزاد خیالی؟ آزادی کی تڑپ دیکھیے،

غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا

وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی کوشش سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

’’رہبانیتِ ملّا‘‘ صوفی اور زاہد کے خلاف اشعار ملاحظہ ہوں،
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا جانیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

آل احمد سرور کے اس مضمون کے آخر میں‌ رقم طراز ہیں:
’بال جبریل‘ میں اقبالؔ نے ایک جگہ اپنے مزاج اور طبیعت کی افتاد کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اگرچہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ اقبالؔ کا فلسفۂ زندگی کیا ہے، لیکن یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ ’’اقبال خود کیا ہیں؟‘‘

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہرِ ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلّی نہ صفاہاں نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

علاّمہ اقبال کے خیالات سے آگاہی حاصل کرنے والا قاری آج بھی انھیں ایک مفکر ماننے لگتا ہے۔ علّامہ اقبال کے افکار کی وسعت اور کلام کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے کئی کتابیں موجود ہیں، اور فکرِ اقبال کی تفہیم آج بھی ضروری ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں