”دی نائٹ ایجنٹ“ : وائٹ ہاؤس میں ڈیوٹی پر مامور خفیہ ایجنسی کے اہلکار کی کہانی
امریکی ویب سیریزجو پاکستان میں کئی دنوں سے نیٹ فلیکس ٹاپ 10 چارٹ میں پہلی پوزیشن پر موجود ہے
آپ جانتے ہیں، نیٹ فلیکس پر تین طرح کے میڈیموں میں، تخلیقی کام ناظرین کے لیے پیش کیا جاتا ہے، جنہیں ہم بالتّرتیب فیچر فلمیں، ویب سیریز اور دستاویزی فلمیں کہتے ہیں۔ ہم نے اس بار جس میڈیم کا انتخاب کیا، وہ ”ویب سیریز“ ہے۔ یہ ڈراما سیریز کی متبادل اصطلاح ہے۔ اس میڈیم کی مقبول ترین ویب سیریز کا نام”دی نائٹ ایجنٹ“ ہے، جو ان دنوں پاکستان میں بہت زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔
یہ ایک تجسس سے بھرپور امریکی ویب سیریز ہے، جو ایک ناول کی کہانی سے ماخوذ ہے۔ اس کا تفصیلی تبصرہ اور ناقدانہ جائزہ پیش خدمت ہے۔
کہانی۔ اسکرین پلے
اس ویب سیریز کے خالق”شون رائن“ ہیں، جو ایک معروف امریکی اسکرین پلے رائٹر اور ڈراما پروڈیوسر ہیں۔ انہوں نے اس کہانی کو ایک ناول سے مستعار لیا، جس کے نام پر ہی ویب سیریز کا نام رکھا گیا ہے۔ اس ناول کے مصنّف ”میتھیو کوائر“ امریکا کے ممتاز ناول نگار اور پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ اس کہانی میں یہ دکھایا گیا ہے کہ امریکا کی صدارتی عمارت، جس کو وائٹ ہاؤس کہا جاتا ہے، اس کی حفاظت کے لیے کئی طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے تہہ خانے میں ایک کمرہ ہے، جہاں ایک ہائی پروفائل فون لائن کا سیٹ اپ کیا گیا ہے۔
اس فون لائن کو سننے کے لیے امریکا کی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے کم رینک والے اہلکار کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے، وہ اس کمرے میں رات بھر رہے اور انتظار کرے، کیونکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی جاسوس، جن کو نائٹ ایجنٹ کہا جاتا ہے، ان میں سے کسی کی جان کو شدید خطرہ ہوا، تو وہ اسی فون نمبر پر رابطہ کرے گا اور یہ فون برسوں سے خاموش ہے۔
پھر ایک دن اس فون کی گھنٹی بجتی ہے اور خفیہ ایجنسی کا یہ اہلکار اس کال کرنے والے کی مدد کرتے ہوئے حادثاتی طور پر ایک گمبھیر مسئلے میں ملوث ہو جاتا ہے، جس کا تعلق اس کے ملک کی سیکورٹی اور سلامتی سے ہوتا ہے۔
کہانی کا آغاز بہت اچھا ہے، لیکن دس قسطوں پر مشتمل یہ کہانی، ابتدائی دو تین قسطوں تک، سست روی کا شکار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ناظرین اس کو دیکھتے ہوئے اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد کہانی اور کردار جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں، یہ دلچسپ ہونے لگتی ہے۔
یکے بعد دیگرے کہانی میں پُرتجسس موڑ آنے لگتے ہیں اور کرداروں کا تانا بانا ایسا بنا گیا ہے کہ آپ کو انہیں سمجھنے کے لیے توجہ سے دیکھنا پڑے گا، البتہ کہانی میں کئی مقامات کمزور ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے، ناول نگار کی بہ نسبت ویب سیریز کے خالق کی کہانی پر اس طرح گرفت نہیں ہے، جس طرح ناول میں کہانی مضبوطی سے پیش کی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی کہانی کو بصری طور پر پیش کرنا بہرحال مشکل ہے، ناول میں ایسی کوئی قید نہیں ہے، وہاں تصور کے زور پر آپ کہیں بھی نکل سکتے ہیں۔ میں کہانی کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، اس لیے آپ آگے کی کہانی جاننے کے لیے خود یہ ویب سیریز ملاحظہ کیجیے۔
پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری
مجموعی طور پر ایک اچھا پروڈکشن ڈیزائن بنایا گیا ہے، لیکن ہدایت کاری کے معاملے میں کافی جھول ہیں، مثال کے طور پر ویب سیریز کی ابتدائی اقساط میں دکھایا گیا ہے کہ کہانی کے ہیرو پر خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں اور وائٹ ہاؤس کے کرتا دھرتا لوگوں کی کافی نظر ہے، اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے، قدم قدم پر اس کی جانچ کی جا رہی ہے، لیکن دوسری طرف دو دہشت گرد، جو ایک خاتون اور مرد ہیں، وہ ہر طرح آزاد ہیں اور شہر بھر میں قتل و غارت کرتے پھر رہے ہیں اور ان کو نہ پولیس پکڑ پا رہی ہے اور نہ ہی خفیہ ادارے، یہ اس ویب سیریز کا ایک کمزور پہلو ہے۔
اس ویب سیریز میں جہاں دیگر پہلوؤں کا تذکرہ ہے، جن میں لوکیشنز، سینماٹو گرافی، بیک گراؤنڈ میوزک، کاسٹیوم، ویژول ایفیکٹس اور دیگر شعبے ہیں، ان میں پیشہ ورانہ تقاضوں کا خیال رکھا گیا، اسی لیے مجموعی طور پر ویب سیریز دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتی ہے، البتہ اس ویب سیریز کے خالق کو اسے مزید سیزن تک لے جانا پڑا، تو ان پہلوؤں پر کافی کام کرنا پڑے گا۔
اداکاری
اس ویب سیریز کے مرکزی کردار”گبریل باسو“ نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ وہ امریکی شوبز میں نئی نسل سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت اداکار ہیں، جب کہ ان کے مدمقابل اداکارہ نے بھی اچھا کام کیا، ان کا نام”لوسیانی بوکانن“ ہے، جن کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے۔ ان کی اداکاری میں بہتری کی خاصی گنجائش ہے، کیونکہ پوری فلم میں کہانی کے نشیب وفراز کے ساتھ، وہ خود کو مدغم نہیں کرسکیں، یہی وجہ ہے، ان پر عکس بند کیے گئے مناظر میں کافی یکسانیت محسوس ہوئی۔ ان کو مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
دیگر کرداروں میں، جنہوں نے بہترین کام کیا ہے، ان میں برطانوی اداکارہ ”فولا ایون ایکنگ بولا“ تھائی اداکارہ”ہونگ چاؤ“ امریکی اداکار”ڈی بی ووڈ سائیڈ“ کینڈین نژاد امریکی اداکار”کرسٹوفر شیئر“ کے ساتھ ساتھ، کینیڈا سے تعلق رکھنے والی”کیری میچ ایٹ“ شامل ہیں، جنہوں نے اس میں خاتون امریکی صدر کا کردار عمدگی سے نبھایا ہے۔ آسڑیلوی اداکار”فینکس ریئے“ اور کینیڈین اداکار”کرٹس لیم“ نے بھی مختصر کردار میں اچھی اداکاری کی ہے۔
مقبولیت کا تناسب
یہ ویب سیریز پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے سے نمبر ون پر کھڑی ہے، جب کہ ٹاپ ٹین کے چارٹس میں دیگر کئی نمبرز پر بھی یہ دیکھی جاتی رہی ہے، لیکن اس وقت مقبول ترین ویب سیریز کا اعزاز اسی کے پاس ہے، کیونکہ عمومی طورپر اتنے دن اوّل پوزیشن پر بہت کم ویب سیریز ٹک پاتی ہیں، جتنے دن سے یہ وہاں موجود ہے۔ فلموں کی معروف ویب سائٹ، آئی ایم ڈی بی پر اس کی ریٹنگ 7.6 ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز پر 67 فیصد اور کامن سینس میڈیا کے چارٹ پر 5 میں سے 3 ستارے حاصل کرنے والی، اس ویب سیریز کی مزید مقبولیت کا امکان برقرار ہے۔
اسی طرح میٹا کریٹک ویب سائٹ نے اس کو 100 میں سے 68 نمبر دیے ہیں۔ برطانوی اخبار دی گارجین کے مبصر نے اس کو 5 میں سے 4 اسٹارز کے قابل سمجھا اور نیویارک ٹائمز میں بھی مجموعی طور پر اسے ایک اچھی ویب سیریز گردانا گیا۔ گزشتہ دو ہفتوں میں اس کی ریلیز کے بعد، اب تک اس ویب سیریز کو کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں اور یہ نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی تیسری ایسی ویب سیریز بن گئی ہے، جس کو بہت زیادہ اور تیزی سے دیکھا گیا۔
حرف آخر
امریکا کی مقبول ہوتی یہ ویب سیریز، جس کو کینیڈا اور برطانوی کولمبیا میں عکس بند کیا گیا۔ اس کے ذریعے ایک ایسے ایف بی آئی ایجنٹ کی کہانی سنائی گئی، جو باصلاحیت تھا، لیکن عہدے کے لحاظ سے کم درجے پر فائز تھا، جس کی وجہ سے اس کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جیسے ہمارے ہاں کسی عام پولیس والے کے ساتھ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ اگر امتیازی سلوک کو سمجھنا ہے، تو یہ ویب سیریز دیکھیے، کس طرح باصلاحیت اہلکار نے اس رویے کے مدمقابل فتح حاصل کی۔ حالات کے پیشِ نظر خود کو اہل اور درست انتخاب ثابت کیا اور اپنے ملک کے لیے فخر کا باعث بنا۔ تجسس پر مبنی یہ ویب سیریز مہم جوئی پسند کرنے والوں کے لیے بہترین انتخاب ہے۔