The news is by your side.

ورلڈ کپ : پاکستان کی بھارت سے ’’ہار کی روایت‘‘ برقرار، مگر ایسا کب تک؟

سارے دعوے، خوشیاں اور قوم کے جشن منانے کے انتظامات حسبِ سابق دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ میں روایتی حریف بھارت سے ہارنے کی روایت برقرار رکھی مگر اس بار اس روایت کو بڑے شرمناک انداز میں دہرایا ہے۔

احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ اسٹیڈیم میں جب اوپنرز کی ناکامی کے بعد کپتان بابر اعظم اور سری لنکا کے خلاف میچ کے ہیرو محمد رضوان نے پاکستان کی بیٹنگ کو سنبھالا دیا جب 155 رنز پر دو وکٹیں گری ہوئی تھیں کہ ایسے میں کپتان اپنی نصف سنچری مکمل کرتے ہی جیسے آؤٹ ہوکر پویلین لوٹے تو ایسا لگا کہ پاکستان کی ٹاپ کلاس بیٹنگ لائن خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑنے لگی اور جو ٹیم 2 وکٹوں کے نقصان پر 155 رنز بنا چکی تھی اگلی 8 وکٹیں صرف 36 رنز پر گنوا کر بھارت کو میچ ٹرے میں سجا کر پیش کر دیا جو میگا ایونٹ میں بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل 8 ویں فتح ہے۔

جس طرح ہمارے بلے باز آؤٹ ہوئے تو ایک موقع پر ایسا لگا کہ جیسے آف دی فیلڈ ہماری ٹیم کے کھلاڑی اپنے کپتان بابر اعظم سے اظہار یکجہتی کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح میدان بدر ہونے کے بعد قائد سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے خود بھی میدان سے واپس جاتے رہے جس کو دیکھ کر 90 کی دہائی کی معروف بھارتی فلم کا مشہور زمانہ نغمہ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ’’تو چل میں آیا‘‘ فوری طور پر ذہن میں آیا۔

اس ہار کے ساتھ ہی پاکستان ٹیم کی ابتدائی دو جیت بھی دھندلا گئیں اور پھر ٹیم میں دوستوں کی بھرتی کی باتیں بھی ہونے لگیں اور کیوں نہ ہوں جب مسلسل کئی ماہ سے فلاپ نائب کپتان شاداب خان، محمد نواز اور امام الحق کو مسلسل مواقع دیے جائیں گے تو سوالات تو اٹھیں گے ہی نا۔

اسپن آل راؤنڈر شاداب اور نواز دونوں ایشیا کپ میں فلاپ ہوئے۔ جہاں قومی ٹیم کے نائب کپتان نے 5 میچوں میں 6 وکٹیں لیں ان میں بھی 4 کمزور ترین حریف نیپال کے خلاف تھیں جب کہ محمد نواز تین میچ میں ایک وکٹ لینے کے ساتھ اپنے بلے سے صرف 12 رنز ہی بنا سکے لیکن کپتان کا بھروسہ ان پر ختم نہ ہوا اور دونوں میگا ایونٹ کے ابتدائی تینوں میچز میں نظر آئے جہاں ان کی کارکردگی کے اعداد وشمار ماہرین کرکٹ کے ساتھ عام شائقین کرکٹ کو تنقید کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ میگا ایونٹ میں نواز کی 70 اور شاداب کی 65 کی اوسط نے ان کی سلیکشن پر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔

صرف دونوں آل راؤنڈرز ہی نہیں بلکہ اوپنر امام الحق کی ٹیم میں مستقل جگہ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‌ تو بالکل جائز ہیں کیونکہ ایشیا کپ گیا اور ورلڈ کپ آگیا لیکن ان کے بلے سے رنز نہ آئے۔ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے اوپنر نے تو لگتا ہے کہ بھارت کے خلاف پرفارم نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ اب تک روایتی حریف کے خلاف 6 میچز میں 12 کی شرمناک اوسط سے صرف 64 رنز بنائے ہوئے ہیں، اس کے باوجود انہیں اتنے بڑے میچ کے لیے ترجیح دینا کپتان کے ساتھ چیف سلیکٹر انضمام الحق جو کہ امام الحق کے چچا بھی ہیں پر انگلیاں اٹھنا تو واجب ہے۔

لیکن ایسا پہلی بار نہیں کہ پاکستان بھارت سے ورلڈ کپ میں ہارا ہو۔ میگا ایونٹ کی تاریخ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آتا ہے تاہم اتنی شرمناک اور ذلت آمیز شکست بھی اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی جس نے شائقین کرکٹ کو سیخ پا کر دیا ہے۔

ورلڈ کپ کی یوں تو تاریخ 52 سال پرانی ہے لیکن میگا ایونٹ میں پاک بھارت ٹاکرے کی تاریخ صرف 31 سال پرانی ہے کیونکہ ابتدائی 19 سال میں ہونے والے چار ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں رکھا گیا۔ 1987 کا ورلڈ کپ جو پاکستان اور بھارت کی مشترکہ میزبانی میں کھیلا گیا تھا اور ایونٹ میں مجموعی کارکردگی کے ساتھ فائنل فور میں دونوں حریفوں کے جگہ بنانے کے بعد شائقین کرکٹ فائنل میں پاک بھارت ٹاکرے کا ذہن بنا چکے تھے لیکن غیر متوقع طور پر آسٹریلیا نے پاکستان اور انگلینڈ نے بھارت کو سیمی فائنل سے باہر کرکے میزبان ٹیموں اور ان کے شائقین کے ارمان ٹھنڈے کر دیے۔

پاکستان اور بھارت کا میگا ایونٹ میں پہلا ٹاکرا پانچویں ورلڈ کپ میں ہوا جو 1992 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا جو پاکستان کے ورلڈ چیمپئن بننے کی وجہ سے ہمیشہ ایک خوشگوار یاد کے طور پر ہر پاکستانی کے ذہنوں میں رہے گا۔ اولین مقابلے کے بعد سے سوائے 2007 (وہ بھی دونوں ٹیموں کے اپنے ناقص کھیل کی وجہ سے) اب تک ہر مقابلے میں آئی سی سی ان کے درمیان میچ ضرور رکھتی ہے جو اپنی سیاسی اور روایتی وجوہات کی بنا پر ایک جنگ جب کہ آئی سی سی اور دونوں کرکٹ بورڈ کے خزانے بھرنے کے لیے کھل جا سم سم کا دروازہ ہوتا ہے۔

تو بات ہو رہی تھی 1992 میں ورلڈ کپ میں پاک بھارت ٹاکرے کی جو پہلی بار عالمی کپ کے میدان میں ٹکرائے تو جیت بھارت نے اپنے نام کی۔ اس میچ کی خاص بات بھارتی جو آج تک شائقین کرکٹ خصوصا پاک بھارت شائقین کے ذہنوں نے محو نہیں ہو سکتی وہ بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے اور کریز پر بیٹنگ کے لیے موجود جاوید میانداد کے درمیان دلچسپ نوک جھونک اور لیجنڈ بیٹر کا بچوں کی طرح وکٹ پر اچھلنا تھا۔

اگلے ورلڈ کپ میں پاکستان دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے شریک ہوا اور پاک بھارت ٹیمیں بنگلورو کے چنا سوامی اسٹیڈیم میں کوارٹر فائنل میں ٹکرائیں جو جذبات سے بھرا اعصاب شکن میچ تھا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرکے 288 رنز کا ٹارگیٹ دیا لیکن پاکستان یہ میچ 39 رنز سے ہار گیا۔ ایک موقع پر پاکستان جیت کی جانب گامزن تھا تو عامر سہیل کی پرشاد سے ہونے والی تکرار جس کے بعد عامر سہیل اپنا بیٹنگ ٹیمپو کھو بیٹھے اور کریز پر سیٹ ہونے کے بعد اگلی ہی گیند پر آؤٹ ہوکر پاکستان کو شکست کے گڑھے میں گرا گئے جس کو آنے والے دیگر بلے باز بھی نہ اٹھا سکے یوں ورلڈ کپ پاکستان کے ہاتھ سے پھسل گیا اور ٹیم کو کئی الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ورلڈ کپ کے ساتویں ایڈیشن جو 1999 میں انگلینڈ میں کھیلا گیا پاکستان نے روایت نہ توڑنے کی قسم کھاتے ہوئے بھارت کو فتح سے ہمکنار کرا دیا جب کہ 2003 کے ورلڈ کپ میں سعید انور کی سنچری کے باوجود بھارت سے فتح کا خواب پورا نہ ہو سکا۔

پھر آیا 2007 کا ورلڈ کپ جو ویسٹ انڈیز میں کھیلا گیا۔ آئی سی سی کے لیے سونے کی چڑیا ہمیشہ کی طرح پاک بھارت ٹاکرا تھا اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ایسا اسٹیج سجایا کہ میگا ایونٹ کے اگلے مرحلے میں پاک بھارت ٹاکرا لازمی ہونا تھا لیکن شومئی قسمت کہ بھارت اور پاکستان ورلڈ کپ میں اب تک اپنی ناقص ترین پرفارمنس کے باعث ذلت و رسوا کن انداز میں میگا ایونٹ کے پہلے راؤنڈ سے ہی باہر ہوگئیں۔

بھارت میں کھیلے گئے 2011 کے ورلڈ کپ میں پاک بھارت ٹاکرا اب تک کے میگا ایونٹ کا سب سے بڑا ٹاکرا گردانا جاتا ہے کیونکہ وہ فائنل سے پہلے فائنل یعنی سیمی فائنل تھا جس میں پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے بھارت کو 262 رنز تک محدود کیا لیکن مصباح الحق کی ٹک ٹک کی بدولت پاکستان یہ میچ 31 رنز کے معمولی فرق سے ہار گیا یوں بھارت کو اس کی سر زمین پر ہرانے کا ایک نادر موقع گنوا دیا گیا۔ 2015 کے عالمی کپ میں بھارت نے 74 رنز کے بڑے مارجن سے ہرایا جب کہ 2019 میں کھلاڑی بدلے لیکن نتیجہ نہ بدلا اور 89 رنز کی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

ورلڈ کپ میں پے درپے شکستوں سے تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ 1992 کے ورلڈ کپ میں گرین شرٹس نے بلیو شرٹس کا جو ’’ہوّا‘‘ اپنے سر پر سوار کیا اس سے آگے نکلنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہر میگا ایونٹ میں قومی ٹیم نئے جوش وجذبے اور وعدوں کے ساتھ بھارت کے خلاف میدان میں اترتی ہے لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات کے مترادف ہوتا ہے۔

اگرچہ پاکستان بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھی شکست دے چکا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی دھول چٹا چکا ہے جب کہ مجموعی باہمی میچز میں بھی گرین شرٹس کا پلڑا بھارت کے خلاف بھاری ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ سارے ریکارڈ جو ان کے جیت کے جذبے کو جلا بخش سکتے ہیں وہ ہر ون ڈے ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف میچ کے دن قومی کرکٹرز کے دل ودماغ سے کیوں اوجھل ہو جاتے ہیں اور کیوں وہ یہ اعصاب شکن میچز جیتنے میں اب تک ناکام ہیں۔

اب تو شائقین کرکٹ کی بڑی تعداد بھی یہ بات کرنے لگی ہے کہ بھارت نے 1992 میں پہلی جیت حاصل کرکے جو برتری پائی وہ پاکستان نے اسی میگا ایونٹ میں عالمی چیمپئن بننے کے باوجود ایسا اپنے سر پر سوار کیا کہ اب لگتا ہے کہ مدمقابل انسانوں پر مشتمل کوئی بھارتی ٹیم نہیں بلکہ بھوت کھیل رہے ہوتے ہیں جن کے آگے قومی ٹیم کی بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ کے ساتھ جوش وجذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔

اس صورتحال پر پی سی بی حکام کو بھی توجہ دینا چاہیے کہ آخر یہ شکستوں کا سلسلہ کب تک دراز رہے گا کبھی نہ کبھی تو ورلڈ کپ میچ میں انڈیا نامی اس خوف کے بت کو توڑنا ہوگا اس کے لیے قومی کھلاڑیوں کو صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ نفسیاتی ماہرین کی مدد سے اعصاب شکن مقابلے کا بوجھ برداشت کرنے کی سعی کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ اسی میگا ایونٹ میں پھر ایک اور پاک بھارت ٹاکرے میں پاکستان پہلی بار جیت کر 25 کروڑ پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر سکیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں