The news is by your side.

بے سمتی کے شکار سوالات

آپ کی طرح میرا بھی خیال ہے کہ ایسے نازک وقت میں جب شہری ہونے کے ناطے لوگوں کو …. سیدھے اور براہ راست …. نظام پر سوال اٹھانا چاہیے، تو انھیں بات کرنے کے لیے تسلسل اور تواتر کے ساتھ ایسے موضوعات فراہم کر دیے جاتے ہیں جن کا رُخ خاص سمت میں ہوتا ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے اب عالمی سیاست کے براہ راست اثرات سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتے۔

پاکستان میں ایک تو منتخب جمہوری حکومت بھی عسکری مداخلت سے پاک نہیں ہوا کرتی، دوم اگر یہ کوئی نگراں حکومت ہو اور موجودہ نگراں حکومت ہو، تو یہ نہ سوچنا کہ یہ آمریت کی ایک اور ’بد نما صورت‘ ہے، اپنے آپ کو بغیر کسی وجہ کے بے خبر رکھنا، اور اپنی شہری ذمہ داری کے بوجھ سے آزاد رکھنا ہے۔

ایسے میں جہاں ایک طرف غزہ پر صہیونی جارحیت کو لے کر شہریوں کے درمیان ’مؤقف کی لڑائی‘ جاری ہے، اور دھول اڑ رہی ہے، دوسری طرف افغان پناہ گزینوں کے ملک سے نکالے جانے کے معاملے پر ’مؤقف کا ٹکراؤ‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہے، وہاں لمز جیسے ادارے میں ’جرأت مندانہ سوال اٹھانے‘ کا ایک موضوع فراہم ہوا ہے۔ اور بہ ظاہر ایسا لگ رہا ہے جیسے شہری پہلی مرتبہ ’شعور کے تحرک‘ سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔ کوئی حیرت نہیں کہ یہ واقعہ بھی اسی ’مؤقف کی لڑائی‘ کی صورت اختیار کر گیا ہے اور پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین ایک دوسرے کے ’شعور‘ کو لے کر ایک دوسرے پر لفظی حملے کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ بھی سکے کے دو واضح رخوں میں بٹا ہوا ہے؛ ایک گروہ کو اس میں ’شعور‘ کی بیداری دکھائی دیتی ہے، دوسرے کے لیے یہ ’بے شعوری‘ کی علامت ہے۔

اب مندرجہ بالا تین نکات کو مربوط کر کے دیکھیں: جب ہمیں نظام پر سوال اٹھانا چاہیے ہم کسی چھوٹے جُز کو اپنے تند و تیز سوالات کا ہدف بنا لیتے ہیں۔ عالمی سیاست بھی اب ہمیں واضح طور پر تقسیم کرتی ہے اور ہم ایک دوسرے پر نفرت اور غصے سے بھرے سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جب ہمیں اپنے سروں پر مسلط عبوری ’انتظامیہ‘ کی اصل اور کریہہ شکل کو سوال کی زد پر لینا چاہیے، ہم لمز جیسے سطحی واقعے میں الجھے نظر آتے ہیں۔ مجموعی فضا کو دیکھا جائے تو ہمارے سوال بے سمتی کا شکار نظر آتے ہیں، اور لمز جیسے واقعے کو دیکھیں تو یک رُخی سمت پر ہمارے سوال بہتے دکھائی دیتے ہیں۔

اب یہ دیکھا جانا بھی ضروری ہے کہ اس واقعے کا رُخ کس طرف ہے۔ یہ ایک سوسائٹل ایونٹ ہے اس لیے اس کی سوشل انکوائری سے اس کے پس منظر کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ واقعے کا ایک فریق وہ ہے جو خالص سیاسی پس منظر رکھتا ہے، سیاست دان ہے، اور اس کا تعلق بلوچستان جیسے ’ناراض‘ صوبے سے ہے اور اس سیاست دان نے بھی یونیورسٹی سطح سے قبل کی تعلیم ایلیٹ کلاس کے ملٹری کالج سے حاصل کی۔

دوسرا فریق وہ سویلین شہری ہے جس کا تعلق بھی ایلیٹ کلاس کی یونیورسٹی سے ہے۔ وہ نوجوان ہے۔ تعلیم کے دوران ہی اسے بہت اچھے سے یہ احساس دلایا گیا ہے کہ سوال اٹھاتے ہوئے بہ طور سویلین اس کی حدود کیا ہیں۔ اور اسے گزشتہ ایک عشرے میں اچھے سے یہ بتایا، سمجھایا اور سکھایا گیا ہے کہ بہ طور نوجوان نسل اس کے اندر ’تبدیلی کا جوش‘ موجود ہونا چاہیے۔ اس نوجوان کو اِس تبدیلی کے جوش کا ہدف بھی دکھایا جا چکا ہے؛ یہ ہدف ہے سیاست دان اور ملک کا ٹوٹا پھوٹا، کرپشن زدہ سیاسی نظام …. جمہوریت۔ اس ٹوٹے پھوٹے سیاسی نظام میں فوجی مداخلت کے قصے اب زبان زد عام ہو چکے ہیں۔

اس پس منظر میں یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا کہ نوجوانوں کے ’جرأت رندانہ‘ کے پردے میں دراصل اُسی تسلسل کو برقرار رکھا جا رہا ہے، جس نے ابھی گزشتہ بہ ظاہر منتخب جمہوری حکومت کے روپ میں سیاسی سیٹ اپ کو بڑا چیلنج فراہم کر دیا تھا، اور قابل فکر امر یہ ہے کہ جو آنے والے دنوں میں بھی ایک اور شکل میں سیاسی سیٹ اپس کے استقلال کو چیلنجز فراہم کرے گا۔ یہاں میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب معاشرے میں سیاسی سیٹ اپس کو اگر کسی حریف قوت کا سامنا ہوگا تو وہ دراصل نوجوانوں کے ’زہریلے سوالات‘ کی صورت نمودار ہونے والی قوت ہوگی۔ زہریلے اس لیے کیوں کہ یہ سوالات کہیں بے سمتی کا شکار ہیں، تو کہیں یہ یک رُخی ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں