The news is by your side.

2023 : قومی کرکٹ ٹیم تنزلی اور ترقی کے درمیان جھولتی رہی

ہماری زندگی کا ایک اور سال 2023 کی صورت اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اس سال سے جڑی کئی اچھی بری یادیں اور واقعات ذہن کے پردے پر نقش ہو گئے ہیں۔ کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اور یہ سال کرکٹ کے حوالے سے پنڈولم کی طرح جھولتا ثابت ہوا۔ خاص طور پر ٹیم رینکنگ کے حوالے سے قومی ٹیم نے تنزلی سے ترقی اور پھر تنزلی کا سفر اتنی تیزی سے طے کیا کہ نمبر ون اور نمبر ٹو کی گردان کرتی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔

ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستانی ٹیم کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے جو کبھی بھی اور کہیں بھی بڑی سے بڑی ٹیم کو ہرا سکتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی ٹیم سے شکست کھا سکتی ہے اور کئی مواقع پر کرکٹ پنڈتوں کی یہ رائے درست ثابت ہوئی ہے۔ یہاں ہم بات کر رہے ہیں پورے سال میں پاکستان کرکٹ کو درپیش حالات کی جس نے بعض اوقات تو ایسی تیزی سے رنگ بدلے کہ گرگٹ بھی پریشان ہو گیا ہو گا۔

یہ سال ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی بدترین بلکہ شرمناک کارکردگی، میگا ایونٹ کے دوران کرپشن اسکینڈل، کرکٹ بورڈ اور منیجمنٹ میں کئی بار توڑ پھوڑ کے حوالے سے ذہنوں میں محفوظ رہے گا۔ اس سال پاکستانی کرکٹرز اپنی کارکردگی سے زیادہ اپنی شادیوں کے حوالے سے موضوع بحث رہے اور آدھی ٹیم کنواروں سے شادی شدہ کھلاڑیوں میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی نے پاکستان کا نام روشن کیا لیکن بطور ٹیم یونٹ ایسی کارکردگی سامنے نہ آسکی جو پاکستان کرکٹ کے لیے یادگار ثابت ہوتی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے 2023 کا آغاز نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ کی ہوم سیریز ڈرا اور ون ڈے سیریز ہارنے سے کیا تو آسٹریلیا میں سال کا اختتام بھی شکست کے ساتھ ہی کیا یوں ٹیم نے سال کے آغاز اور انجام تفریق کو روا نہ رکھا بلکہ ہار کی یکسانیت کو برقرار رکھا۔ قومی ٹیم کو میدان میں تین ماہ سے پے در پے اتنی شکستیں ہو چکی ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ گلے کا ہار بن گئی ہیں یا پھر جونک کی طرح چمٹ گئی ہیں کہ کھلاڑی کوششوں کے باوجود ٹیم کو شکستوں کے بھنور سے نکال نہیں پا رہے ہیں۔

بابر اعظم کے ہاتھ سے تو کپتانی ورلڈ کپ میں ٹیم کی شرمناک کارکردگی کے بعد گئی لیکن کپتانی کی آنکھ مچولی کا یہ کھیل تو سال کے آغاز پر ہی ہوگیا تھا جب نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی ہوم سیریز ڈرا ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد ہی قومی ٹیم میں کپتانی کے تنازع نے سر اٹھایا اور حسب روایت افواہوں کا زور چل گیا تھا۔ پی سی بی نے افغانستان کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی ہوم سیریز کے لیے بابر اعظم کی جگہ شاداب خان کے کاندھوں پر قیادت کی ذمے داری ڈالی وہ تو اپنے پہلے اسائنمنٹ میں بری طرح ناکام رہے اور افغانستان نے پہلی بار گرین شرٹس کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز جیت کر تاریخ رقم کر کے پاکستان کرکٹ پر شرمناک شکست کا داغ لگا دیا، اگر نیتجہ اس کے الٹ ہوتا تو شاید بابر کو کپتانی کا بوجھ سال کے آخر تک نہ اٹھانا پڑتا۔

پاکستان نے اس سال نیوزی لینڈ کو پانچ ون ڈے میچوں کی ہوم سیریز میں چار صفر سے شکست دے کر جہاں 12 سال بعد سیریز جیتنے میں کامیابی حاصل کی وہیں سری لنکا کو ٹیسٹ سیریز اور افغانستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش کیا لیکن ان کامیابیوں کے بعد ناکامی کی ایسی ہوا چلی کہ پھر ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں تاریخ کی شرمناک کارکردگی سامنے آئی جس نے پہلے کی کامیابیوں کو گہنا کر رکھ دیا۔

سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز جیت کر پاکستان جہاں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ 2025 کے سائیکل کے پوائنٹس ٹیبل میں ٹاپ ٹیم بنی وہیں ون ڈے کی بھی آئی سی سی نمبر ایک ٹیم بنی لیکن یہی پوزیشن پاکستان کرکٹ کے لیے سارا سال مذاق بنی رہی کیونکہ یہ پوزیشن مستحکم رہنے کے بجائے پنڈولم کی طرح جھولتی رہی اور ہر چند دن بعد پوزیشن بدلتی رہی۔

نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی رینکنگ پنڈولم کی طرح جھولتی رہی اگر اس کو روٹھی محبوبہ سے تعبیر کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ یہ بالکل محبوبہ کی طرح کبھی روٹھتی اور کبھی مانتی رہی۔ سیریز کے آغاز سے قبل گرین شرٹس آئی سی سی ٹیم رینکنگ میں تیسرے نمبر پر تھی۔ مسلسل چوتھا میچ جیت کر ون ڈے کی نمبر ایک ٹیم بنی۔ آخری میچ جیت نہ قومی ٹیم نہ صرف نیوزی لینڈ کی بی ٹیم کے خلاف کلین سوئپ کر سکتی تھی بلکہ نمبر ون پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکتی تھی تاہم یہ موقع آخری میچ ہار کر گنوا دیا گیا اور آسٹریلیا ایک بار پھر نمبر ون ٹیم بن گیا۔

اگلے ماہ پاکستان نے سری لنکا میں افغانستان کو تین ایک روزہ میچوں میں وائٹ واش کر کے آئی سی سی رینکنگ میں پھر نمبر ون پوزیشن حاصل کی لیکن یہ اعزاز صرف دو ہفتے کا مہمان ثابت ہوا کیونکہ آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو مسلسل دو ون ڈے میچز ہرا کر اپنی پہلی پوزیشن دوبارہ چھین لی لیکن قسمت ایک بار پھر مہربان ہوئی کہ جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو ون ڈے سیریز کے آخری میچ میں شکست دے دی۔ یوں پاکستان ٹیم جو اپنی ناقص کارکردگی کے باعث تیسرے نمبر پر آ چکی تھی وہ چند روز بعد دوبارہ نمبر ون بن گئی لیکن ورلڈ کپ سے قبل نمبر ون پوزیشن کی یہ محبوبہ پاکستان کے دیرینہ رقیب بھارت کے پاس چلی گئی اور ہم نے اس سال کا اختتام چوتھی محبوبہ مطلب چوتھی پوزیشن پر کیا ہے۔

ٹیم کی مجموعی کارکردگی کے برعکس کھلاڑیوں نے کئی انفرادی ریکارڈز اپنے نام کیے۔ سابق کپتان بابر اعظم نے کئی قومی اور بین الاقوامی ریکارڈ بنائے۔ آئی سی سی رینکنگ میں مسلسل ڈیڑھ سال سے زائد عرصے تک نمبر ون بیٹر رہنے کے بعد نومبر میں تنزلی کا شکار ہوکر دوسرے نمبر پر پہنچ گئے تھے تاہم سال جاتے جاتے انہیں واپس نمبر ایک پوزیشن واپس دلا کر جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شاہین شاہ نے ٹیسٹ میں 100 وکٹوں کا سنگ میل عبور کیا۔ نوجوان بیٹر سعود شکیل نے ڈبل سنچری اسکور کر کے سری لنکن سر زمین پر ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی کرکٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کلین سوئپ کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکن سر زمین پر سب سے کامیاب ٹیم بھی بنی گئی جس نے اب تک پانچ ٹیسٹ سیریز آئی لینڈرز کی سر زمین پر جیت لی ہیں جب کہ دنیا کی دیگر بڑی ٹیمیں اس حوالے سے قومی ٹیم کے پیچھے ہیں جس میں آسٹریلیا اور انگلینڈ چار چار، بھارت تین جب کہ جنوبی افریقہ دو سیریز جیتا ہے۔ پاکستان نے اسی سال 500 ون ڈے میچز جیتنے والی دنیا کی تیسری ٹیم بننے کا اعزاز بھی پایا۔

ایشیا کپ کا میزبان پاکستان تھا لیکن بھارت نے کیا گُل کھلائے اور سازشوں سے کس طرح اس ایونٹ کو ہائی جیک کیا یہ بات پرانی ہو چکی اب تو بھارت کی نظریں 2025 میں پاکستان کو ملنے والی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی سے محروم کرنے پر ہیں اور اس کے لیے بی سی سی آئی نے درپردہ سازشیں شروع بھی کر دی ہیں جب کہ انڈین میڈیا اس کو ہوا دے رہا ہے۔ اگر پی سی بی نے پہلے کی طرح روایتی تساہل پسندی کا مظاہرہ کیا تو یہ پاکستان کرکٹ کے حق میں برا فال ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں تبدیلی روایت بن چکی ہے۔ 2023 شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی پی سی بی میں رمیز راجا کی جگہ نجم سیٹھی لے چکے تھے لیکن چند ماہ بعد اس کرسی پر ذکا اشرف آ گئے لیکن ان کی پوزیشن بھی مستحکم نہیں ہے فروری میں الیکشن کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کے قیام کے بعد ان کی تبدلی کی افواہیں ابھی سے گونج رہی ہیں۔ دوسری جانب وطن ورلڈ کپ کے بعد قیادت سمیت پوری ٹیم منیجمنٹ ہی تبدیل ہو چکی ہے اب نتائج کیا تبدیل ہوتے ہیں اس کا انتظار ہے۔

سال 2023 میں کئی کرکٹرز نے کرکٹ کے میدانوں کو بطور کھلاڑی خیرباد کہہ دیا فاسٹ بولرز سہیل تنویر، وہاب ریاض، سہیل خان، آل راؤنڈر عماد وسیم، بیٹر اسد شفیق نے مستعفی ہوکر انٹرنیشنل کرکٹ سے رخصتی لے لی۔ ان میں وہاب ریاض جو پنجاب کی نگراں حکومت میں مشیر کھیل بھی ہیں کو چیف سلیکٹر کا عہدہ مل چکا ہے۔ سہیل تنویر کو جونیئر کرکٹ میں ذمے داریاں مل گئیں اوراسد شفیق کو بھی ٹیم منیجمنٹ میں اہم عہدے کی پیشکش کی گئی ہے جب کہ عماد وسیم نے بورڈ کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ قومی ویمن کرکٹر ناہیدہ وسیم نے بھی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔

اگر اس سال کرکٹ کے میدانوں سے کوئی حقیقی خوشی آئی تو وہ خواتین کرکٹرز کی مرہون منت رہی۔ دنیائے کرکٹ میں پاکستان مینز ٹیم تو معروف اور خطرناک سمجھی جاتی ہے لیکن ویمنز ٹیم اپنی سابقہ کارکردگی کی بدولت وہ مقام نہیں پا سکی جو مینز ٹیم کا ہے لیکن سال 2023 اس لیے یادگار رہا کہ پاکستانی خواتین نے اپنے سے دو بڑی ٹیموں کے خلاف سیریز جیت کر تاریخ رقم کی۔

ویمنز ٹیم نے پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کلین سوئٹ کر کے تاریخ رقم کی تاہم ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم کو پروٹیز کے خلاف دو ایک سے شکست ہوئی۔ سال کے آخر میں پاکستان ویمنز ٹیم نے نیوزی لینڈ جا کر کیویز کو ان کے ہی دیس میں ہرایا اور پہلی بار بیرون ملک کوئی سیریز جیتی۔ پاکستان ویمنز ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دو ایک سے کامیابی حاصل کی جب کہ تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلی ہے۔ قومی خواتین ٹیم گو کہ کیویز سے ون ڈے سیریز دو ایک سے ہار گئیں لیکن مقابلے کانٹے کے ہوئے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں