کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز “ڈارک میٹر” اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔
کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔
سائنس کی دنیا میں “ڈارک میٹر” کیا ہے ؟
ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔
کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔
کہانی/ اسکرپٹ
اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول “ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔
اب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔
ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔
ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔
اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔
پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری
اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔
اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔
اداکاری
اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔
حرفِ آخر
یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:
اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!