The news is by your side.

دھرنے کی کہانی باغی کی زبانی

پاکستانی سیاست کا باغی جاوید ہاشمی جس نے ہراس موقعے پربغاوت کی ہے جب بھی سیاستدانوں نے مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کی ہے۔ اس باغی نے ہربادشاہ وقت کے دربارمیں سر اٹھانے کی جرات کی ہے جب دوسرے خوشامدی درباری صرف چکنی چپڑی باتوں سے بادشاہ کی مدح سرائی میں مصروف رہے۔

ہردور کے مطلق العنان حکمرانوں کو سچ کی طاقت کے ساتھ للکارا اور انہیں آئینہ دکھایا۔ نوازشریف کی جلا وطنی کے دوران ایک فوجی آمر کے سامنے ڈٹا رہا اور پورے ملک میں مسلم لیگ ن کے وجود کو قائم رکھا لیکن جب نواز شریف کی وطن واپسی پرانہیں بھی خوشامدی درباریوں نے اپنے حصار میں لے لیا تو جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن سے کنارہ کشی اختیار کرگئے۔ اس کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکی لیکن کچھ عرصے بعد اس کو بھی چھوڑ گئے۔ تحریک انصاف سے علحیدگی کے پیچھے کیا محرکات تھے اس پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے اے آروائی کے پروگرام پاورپلے میں جاوید ہاشمی نے تہلکہ خیزانکشافات کیے۔

جاوید ہاشمی کے مطابق دہشت گردی سے نڈھال عوام کو کرکٹ کے سابق کپتان اورآکسفورڈ سے ڈگری یافتہ شخص کی باتیں زیادہ متاثر کررہی تھیں جن میں وہ انقلاب اور تبدیلی کا تذکرہ کرتا تھا۔ ایک ایسی تبدیلی جو پاکستان کے غریب عوام کے لئے ہوگی۔ باغی کو اورکیا چاہیے فرسودہ نظام سے نجات اس لیےمیں نے بھی عوام کے لیے تبدیلی لانے والوں کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ عمران خان نے مجھے تحریک انصاف کا صدر مقرر کردیا۔ الیکشن میں ہرپارٹی نے جیت کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اقتدار کا ہما نوازشریف کے سرپربیٹھ گیا۔ عمران خان اپنے جلسوں کے کامیابی کے بعد اس بات پرسو فیصد ایمان لاچکے تھے کہ وہ ہی اس ملک کے اگلے وزیر اعظم ہیں لیکن عوام نے فیصلہ مسلم لیگ ن کے حق میں کرڈالا۔ یہاں سے شور شروع ہوا دھاندلی کا جس میں مسلم لیگ کی حکومت، سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری، جسٹس (ر) رمدے، ریٹرنگ آفیسر، نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی اور نجی ٹی وی پربھی دھاندلی کا الزام عاید کردیا گیا۔

عوام کو ایک بار پھر سے انقلاب اورنئے پاکستان کے سبزباغ دکھانا شروع کئے گئے۔ اس سب کے پیچھے مقصد حکومت کا تختہ الٹناتھا۔ جاوید ہاشمی کے سامنے سب صورتحال واضح ہونے لگی۔ نیا پاکستان انقلاب یا عوام کے لئے نہیں بلکہ صرف اقتدار میں آنے جنگ ہے۔ جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد وہ سب دیکھا کہ کاش نہ ہی دیکھا ہوتا۔ عمران خان کہتے تھے کہ میں جنرل کیانی اورجنرل پاشا سے رابطے میں ہوں۔ جو شخص بھی تحریک انصاف میں آتا تو اس کو کہا جاتا کہ میں آپ کی خود بات جنرل پاشا سے کراؤں گا۔ عمران خان نے دھرنے سے پہلے یہ تاثر سب کو دیا کہ ہمیں اقتدار میں ایجنسیاں اور فوج لائیں گی۔ جاویدہاشمی کہتے ہیں کہ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ دھرنا جنرل پاشا کا برین پلان تھا۔ کور کمیٹی میں اس کی مخالفت ہوئی۔ عارف علوی، اسد عمر، حامد خان، جسٹس (ر) وجہیہ الدین اور شیریں مزاری نے اس کی مخالفت کی لیکن جہانگیرترین، اسحاق خاکوانی اورشاہ محمود عمران کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ جنرل پاشا نے بتایا کہ لاہورآیا تھا شفقت محمود کے گھرگیا لیکن وہ دھرنے کا خلاف ہے اور جانا نہیں چاہتا۔ عمران خان کو یہ گمان تھا کہ لاہور سے نکلتے ہی نواز شریف کا تختہ الٹ دیا جائے گالیکن لوگ اس تعداد میں باہرنا آئے کہ انقلاب آجاتا۔ عمران خان بھی عوام کی کم تعداد دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ میں نے عمران خان کو کہا کہ ان کا پلان خطرناک ہے کہیں ملک میں مارشل لاء نا لگ جائے۔ عمران خان نے مجھے کہا کہ چیف جسٹس اسمبلی توڑدیں گے اورچیف ہی ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنا کرالیکشن کروائیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ طاہرالقادری اسمبلی پرحملہ کرے گا اور ہم کہیں گے نہ کرو جہانگر ترین نے کہا کہ طاہرالقادری کے حملے اور پارلیمان پرقابض ہونے کے بعد ہم نے جاناتھا۔

جاوید ہاشمی نے پاور پلے میں مزید بتایا کہ میں یہ سب پلان دیکھ کرملتان واپس چلا گیا کیونکہ میں کسی بھی جمہوریت دشمن سازش کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ میرے ناراض ہونے پرعمران خان نے ٹیکینوکریٹ والا بیان واپس لے لیا۔ دھرنے میں لوگوں کی تعداد کم ہونے پرتمام قیادت پریشان ہونے لگی۔ جہانگر ترین نے کہا ہم نے کمٹمنٹ پوری نہیں کی اس لئے وزیر عظم سے استعفیٰ نہیں لیا گیا۔ ہم نے ڈھائی لاکھ لوگ کرآنے تھے اتنی ہی تعداد میں طاہرالقادری نے لوگوں کو لے کر آناتھا۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ چونکہ ہم نے وعدے پورے نہیں کیے اس لیے امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی۔ میں نے عمران خان کو کہا کوئی امپائرنہیں ہے۔ فیس سیونگ کے لیے پارٹی نے گارنٹر مانگا تاکہ دھرنا ختم کیا جائے اورگارنٹر کے طور پرراحیل شریف کا نام تجویزکیا۔ اس دوران عمران خان نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مزید آگے نہیں جائیں گے لیکن جنرل پاشا اورسابق کمانڈوز نے عمران خان کی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش کو خوب استعمال کیا۔ عمران خان خود کو وزیر اعظم کے طور پردیکھنے لگے ۔ میری پریس کانفرنس کے بعد جنرل پاشا نے مجھے فون کیا اور کہا میرے بارے میں غلط بات کی میں نے کہا آپ مجھے دھمکی نا دیں۔ جنرل پاشا نے کہا میں نواز شریف، خواجہ آصف اور چوہدری نثار کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں نےان کو کہا کہ اس طرح دھمکیاں نہ دیں ناہی میں ڈرنے والوں میں سے ہوں۔ عمران خان نے جنرل راحیل سے ملاقات کی اور ہم سب کو کہا کہ گارنٹی مل گی۔ عارف علوی، شاہ محمود قریشی، اسد عمراورجہانگیر ترین کی موجودگی میں کہا کہ ہم آگے نہیں جائیں گے اگران لوگوں ضمیر زندہ ہیں تو گواہی دیں۔ جمہوریت کو جنرل راحیل شریف نے بچا لیا۔ ورنہ نظام پلٹنے کا منصوبہ بنانے والے جنرل پاشا اورچند سابق کور کمانڈرعمران خان کو مجبور کرتے اور وہ وزیر اعظم بننے کی لالچ میں استعمال ہوتے رہتے۔ جاوید ہاشمی نے اے آر وائی کے پروگرام پاورپلے میں کہا کہ جنرل راحیل شریف کو چاہیے کہ وہ ان تمام فوجی افسران کے خلاف کاروائی کریں جو اس پلان کا حصہ تھے۔ پاشا اور اس کے ساتھیوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام بنایا اس کا مرکزی کردار عمران خان تھے لیکن یہ پلان اور دھرنا بری طرح فلاپ ہوگے۔ تحریک انصاف میں وجہیہ الدین جیسے لوگوں کو دیکھ کراس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جسٹس وجہیہ الدین کی رپورٹ بلکل درست ہےجوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ بھی پارٹی کا اپنا نہیں اب بھی پارٹی میں فیصلے وہی ٹیم کررہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ میرے دل پہ پاکستان سے محبت کا داغ ہے جہں بھی آئین سے ہٹ کرراستہ اختیارکیا گیا میں بغاوت کا جھنڈا لے کر کھڑا ہوجاوٗں گا صرف میں نے ہی اصل استعفیٰ دیا اورباقی سب کے استعفے جھوٹے تھے تاریخ نے ثابت کردیا کون باغی ہے اورکون داغی۔–