دورجدید میں جہاں انسانوں نے اتنی ترقی کی وہاں انسانوں کے ذہنوں نے بھی خود کو جدت پسندی کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا۔ جب انسان پرانے وقتوں کے انسانوں کے بارے میں سوچتا ہے توان سے منسلک ہرچیزاس کو پرانی ، دقیانوسی اور فرسودہ ہی لگتی ہے جیسے پرانے خیالات، پرانا فیشن، پرانی تہذیب، پرانے رسم و رواج ان سب چیزوں میں وہ ایک اورچیز کو بھی پرانا سمجھتا ہے کیونکہ جہاں فیشن، رسم و رواج، زمانہ مزید جدیدیت کی طرف جاتا ہے وہاں وہ ایک چیز وہیں کی وہیں رہتی معلوم ہوتی ہے اوروہ ہے اسکا مذہب، وہ مذہب سے منسلک ہر قسم کی بات کو پرانی تصور کرتا ہے جو چیزیں پیدائش کے وقت بھی ویسی ہی تھی اورآج بھی ویسی ہی ہیں حالانکہ زمانہ بدلا ، سوچ بدلی، فیشن بدلا۔
لیکن مذہب کیوں نہیں ؟؟؟ تبھی انسان مذہب کو جدت پسندی کی طرف مائل کرنا چاہتا ہے اوراس میں گنجائش پیدا کرتا ہے۔
مذہب کو جدیدیت کی طرف لانے میں تین طرح کے گروہ سامنے آتے ہیں۔
ایک طبقہ تو وہ ہے جو کہتا ہے سب کچھ پرانا ہی چلتا رہے کچھ بھی بدلا نہ جائے، کوئی تبدیلی قبول نہ کی جائے ساتویں صدی کا جو اسلام تھا بس اسے ہی ما نا جائے۔ اگراس دورکے لوگ جانوروں کی سواری پرسفرکرتے تھے تو آج بھی جانور ہی سواری کے لئے استعمال کئے جائیں۔ گاڑی ، جہاز، موٹرسائیکل پرسفرکرنا حرام ہے۔
ایک وہ طبقہ ہے جو کہتا ہے ہرتبدیلی کو مذہب میں قبول کرلینا چاہیے جو کہ دور کی ضرورت ہے اسکے لحاظ سے، چاہے وہ تبدیلی اچھی ہو یا بری۔۔۔!!! یہ طبقہ معاشرتی اقتدار اور سوچ کو بدل دیتا ہے،صرف اور صرف اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے، جیسے ہم جنس پرستی۔ خاندان ایک مرد اور عورت سے وجود میں آتا ہے، لیکن اس طبقے کے مطابق خاندان کے لئے دو افراد کا ہونا ضروری ہے ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ دو مرد ہیں یا دونوں عورتیں ، یا پھر مرد یا اس کا فالتو جانور۔!!!
ایک طبقہ وہ ہے جو کچھ جدید تبدیلیاں لے لیتا ہے اور کچھ نہیں ، لیکن اسکا فیصلہ کون کرے گا کہ ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنا ہے یا رد۔۔۔ ؟
اب سوال یہ ہے کہ
” کیا ساتویں صدی کا اسلام اکیسویں صدی کے انسان کے ساتھ چل سکتا ہے ؟”
اسلام ایک اعتدال پسند دین ہے جو کہ زمانے کے ساتھ ساتھ خود میں اتنی لچک رکھتا ہے کہ جدیدیت کوخود میں گھلا ملا لے۔ انسانیت کی فطرت یہ پسند کرتی ہے کہ زمانے کے ساتھ خود کو بھی جدت پسند کرتے رہنا ، کوئی بھی پرانی سوچ کا ہونا، پرانا طرزکا لباس اپنے اوپراوڑھنا پسند نہیں کرتا تواسلام بھی انسانی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام کو جب لوگ پرانے خیالات کا مذہب کہتے ہیں تو وہ اس کی بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا لیتے ہیں، جسے مرد اورعورت ہاتھ نہیں ملا سکتے۔
اسلام کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں جس پرایک انتہائی لچکدارعمارت کھڑی ہے جیسا کہ جب تمباکو نوشی شروع ہوئی تو اس کے بارے میں فکرپیدا ہوئی کہ آیا استعمال کربھی سکتے ہیں یا نہیں تو اسلامی فقہہ میں ایسے اصول دیکھے گئے جو اس سے مناسبت رکھتے ہوں جیسے سگریٹ کے استعمال سے ایک خاص قسم کی بو پیدا ہوتی ہے تو اسلام میں ممانیت ہے کہ جس شخص نے لہسن یا پیاز کھایا ہو وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرے ، کیونکہ اس سے بھی بدبو پیدا ہوتی ہے جس سے ساتھ نماز ادا کرنے والے شخص کو اچھا نہ لگے بدبو کا آنا تو سگرٹ پینے کو نہ پسندیدہ قراردیا گیا، حرام نہیں کیا اسے۔ پھر1979میں جب یہ ریسرچ سامنے آئی کہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر (lungs cancer )ہوتا ہےتوپھراسلامی فقہ میں ایسے قانون دیکھے گئے جو انسان کو خود کو نقصانپہنچانےسے تعلق رکھتے ہوں۔ جیسے خودکشی وغیرہ ، پھرسگریٹ نوشی کرنے کو حرام کردیا گیا یعنی جیسے کوئی جدید بات پیدا ہوئی فوراً اس لحاظ سے ایک رائے پیدا ہوئی کہ آیا یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔
جیسا کہ کچھ معاشرے میں ہوا کہ ان میں جیسے کوئی جدید سوچ پیدا ہوئی تو فوراً اس کو لے لیا گیا اور اسکو لینے کے سلسلے میں لئے اس معاشرےکے کچھ اپنے اقتداراورتہذیب مخالف تھیں توان سب کو بدلنے یا ختم کرنے کو کہا گیا جیسے ہم جنس پرستوں کے حق میں قوانین پاس کروائے گئے کیوں کہ جدیدیت یہی ہے کہ خاندان کے لئے اب دو افراد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ دو مرد، دوعورتیں یا پھرایک مرد اورایک جانورہی کیوں نہ ہوں مثلاً اب ایک شخص اپنے جانور سانپ کے ساتھ رہتا ہے تو یہ ایک خاندان ہے اوراب ان میں وارثت کے قانون عام خاندان کی طرح ہی تقسیم ہوں گی۔
اسلام جدت پسند ہونے کے لئے اقدار کو نہیں بدلتا لیکن جو جدت پسند ہیں وہ انہی اقدار کو بدلنے کا کہتے ہیں اور اگروہ نہ بدلیں تو ان کی سوچ میں وہ مذہب دقیانوس ہے پرانے خیالات کا ہے۔ حالانکہ اس معاشرے نے اپنے اندر کتنا بگاڑ پیدا کرلیا خود کو صرف ایک جدت پسند ہونے کا خطا ب دینے کے لئے۔
ہرچیزاختیارکرلینا جدت پسندی نہیں بلکہ لینے والی چیزمیں تمام عناصرکو مد نظررکھ کرلینا یاچھوڑنا ضرورہے ۔اس لئے ساتویں صدی کا اسلام اکیسویں صدی میں بھی پرانا یا بوسیدہ نہیں ہے۔ یہ جدید دورکے تقاضوں کو پورا کرنا بھی جانتا ہے اور پستی سے بچانا بھی، دقیانوس تو وہ ہیں جو صرف ایک رخ کو اختیار کئے جارہے ہیں بغیر اس کے مستقبل میں ہونے والے اثرات کو جانے بغیر۔