صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کے جس نعرے پر برسراقتدار آئی تھی وہ تبدیلی تاحال جاری و ساری ہے۔
کرپٹ نظام کی تبدیلی کے لئےصوبائی سطح پر دو سال قبل جس آزاد اور خودمختار احتساب کمیشن کی بنیاد رکھی گئی تھی ایک موجودہ (ضیا اللہ آفریدی)اور دوسابق صوبائی وزراء( لیاقت شباب ، محمود زیب ) اور کئی بیوروکریٹس کی کرپشن اوراختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں گرفتاری کے بعد وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سمیت صوبائی کابینہ کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان کی سربراہی میں اس کمیشن کی تبدیلی کی جانب تیزی سے بڑھتے قدم شاید اس لئے اچھے نہیں لگے کہ کل وزیراعلیٰ سمیت کابینہ میں شامل دیگر وزراء کی باری بھی آسکتی ہے.
کیونکہ ڈائریکٹر جنرل نے زیرلب وزیراعلیٰ سمیت دیگر طاقتور وزراء کے خلاف بھی انکوائری کا عندیہ دے دیا تھا جس پر گزشتہ سال کے آخر میں صوبائی حکومت نے ڈائریکٹر جنرل احتساب کمیشن کے لگام ڈالنے کے لئے ان کے اختیارات میں کمی کرنے کی ترمیم لانے پر غور شروع کر دیا.
جس کے تحت کسی بھی بدعنوان شخص کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ بھرتیوں کے حوالے سے بھی حاصل تمام تر اختیارات ڈی جی سے لے کر احتساب کمیشن کے حوالے کئے جانے تھے، جس کی خبر ملنے کے بعد سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان نے بھر پور مزاحمت کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سمیت وزیر اعلی پرویز خٹک کو بھی خط لکھ دیئے.
جس میں کہا گیا کہ ایک ایسے وقت میں جب احتساب کمیشن بعض سینیئر وزرا، مشیروں اور اعلیٰ افسران کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کی تحقیق اور تفتیش میں مصروف ہے ایسے میں احتساب کمیشن کے ڈائرئکٹر جنرل کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش تحریک انصاف کی حکومت کی بدعنوانی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی نیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے مطالبہ کیا ہے کہ احتساب کے عمل کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی خاطر کابینہ کی منظور کردہ ترامیم کو واپس لیا جائے۔ مگر ڈی جی کی عرضی پر غور تو کیا انہیں کوئی جواب تک دینا بھی گوارا نہیں کیا گیا اور تو اور وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ نے تو خط کے طریقہ کار کو ہی غلط قرر دے دیا اور پھر رواں سال فروری میں ایک آرڈیننس کے ذریعے احتساب کمیشن ایکٹ میں ہونے والی ان ترامیم کو قانونی شکل دے دی گئی جس پر ڈی جی نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور گھر چلے گئے .
حالانکہ انہی ڈی جی کی قیادت میں اس کڑے احتسابی عمل سے 2014 میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مالی بدعنوانی میں خیبرپختونخوا کا نمبرکافی نیچے آ گیاتھا جب کہ دوسری طرف ،کچھ حکومتی حلقوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی احتسابی عمل کا ایک نقصان ترقیاتی عمل کامتاثر ہونابھی تھا کیونکہ دو سال تک کرپشن کے خوف سے 70 فیصد تک ترقیاتی فنڈز استعمال میں ہی نہیں لائے گئے۔
یہ سب تبدیلیاں تو ماضی کا قصہ بن چکی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے تبدیلی کا دعویٰ پورے زور شور سے ابھی بھی کیا جارہاہے جس میں سچائی بھی ہے کیونکہ حکومت نے ایک بار پھر احتساب کمیشن ایکٹ میں ترامیم لانے کا اٹل فیصلہ کر لیا ہے جس کو شاید جمعہ کے روز خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیشی کے بعد منظور بھی کر لیا جائے اور یوں یہ نئے ترامیم بھی اس احتساب کمیشن ایکٹ کا حصہ بن جائیں گے جس کے بعد یہ آزاد اور خودمختار احتساب کمیشن مزید پابندیوں میں جکڑ لیا جائے گا.
ان نئی ترامیم کے بعد اب احتساب کمیشن صوبائی حکومت کے جاری منصوبوں میں ہونے والی کوتاہیوں پر کوئی کارروائی کرنے کی مجاز نہیں رہے گی۔
اسی طرح اب احتساب کمیشن کا دائرہ اختیار بھی محدود کرتے ہوئے اسے پانچ کروڑ روپے سے کم مالیت کی کرپشن پر کسی قسم کی کارروائی سے بھی روک دیا گیا کیونکہ اب پانچ کروڑ سے کم مالیت کی کرپشن کی تحقیقات انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔
بات یہیں آکر نہیں رکتی چونکہ احتساب کمیشن کے تمام تر ملازمین جو مختلف کیسوں کی تحقیقات کررہے ہیں وہ سب کے سب سابقہ ڈی جی کے دور میں بھرتی کئے گئے اس لئے اب نئی ترمیم کے تحت ان تمام ملازمین کی اسکروٹنی بھی کی جائے گی.
اسی طرح نئی ترامیم میں کسی بھی بدعنوانی کی انکوائری کے لئے دو جبکہ جامع تحقیقات کے لئے تین ماہ کی قلیل مدت بھی رکھ گئی ہے جبکہ انکوائری کو جامع تحقیقات میں بدلنے کے لئے بھی ڈی جی کی اجازت لازمی قرار دی گئی ہے، احتساب کمیشن ایکٹ میں ہونے والی ترامیم کی رو سے اب چیف احتساب کمشنر کی تعیناتی کا اختیار بھی سرچ اینڈ اسکروٹنی کمیٹی سے لے لیا گیا ہے اوراب تمام پانچ کے پانچ کمشنرز خود ہی مل بیٹھ کرچیف احتساب کمشنر کا چناؤ کرینگے.
صوبائی حکومت نے ڈائریکٹر جنرل کو مزید بے اختیار بنانے کے لئے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے قیام کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کی سربراہی بظاہر تو ڈی جی ہی کرینگے مگر ان سے فیصلہ کا اختیار لیتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل سمیت تمام شعبوں کے ڈائریکٹرز کو بھی ان کے ساتھ شریک کردیا گیا ہے.
سو اب ان نئی ترامیم کے بعد اگر کوئی وزیر مشیر یا بیوروکریٹ کسی جاری منصوبے میں کوتاہی کے نام پر کچھ ہیر پھیر کرنا چاہے تو کرسکتا ہے جبکہ پانچ کروڑسےکم کرپشن کرنے والے بھی اب احتساب کے شکنجے مین نہیں جکڑے جا سکیں گے اس لئے اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ احتساب مگر کس کا؟؟؟؟؟