پاکستان وہ ملک ہے جہاں سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں لسانیات پرسیاست کر رہی ہیں، علاقائی سیاست کر رہی ہیں۔ مذہبی جماعتیں مسالک میں تقسیم کرنے کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں غیرسرکاری تنظیموں کی گنتی کرنا مشکل ہے۔ پاکستان میں فلاحی اور رفاعی اداروں کا شمار ناممکن ہے۔ کتنے ہی اداروں کی درسگاہیں ہیں جو تعلیم کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ ادارے مختلف شعبوں میں اپنی اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں جیسا کہ آنکھوں کی امراض سے متعلق، سماعت کے لئے، گردوں کہ کے لئے، اگر یہ لکھا جائے کہ انسانی جسم کے ہر حصے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
مدارس ایک طرف تو دینی فرائض اور احکامات کی بالادستی کے لئے برسرِپیکارہیں تو دوسری طرف یہ مدارس دارالامان جیسی اہم ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔۔ان مدارس میں جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام ہے وہیں یہ مدارس لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو کپڑا، کھانا اوررہاہش جیسی اہم ترین بنیادی سہولیات فراہم کیے ہوئے ہیں (جو اصولی طور پر ریاست کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے)۔
تینوں اوقات میں کھانے کا مفت بندوبست جگہ جگہ کیا گیا ہے، مختلف ادارے دسترخوان لگائے بیٹھے ہیں اوربلا تفریق کھانا کھلا رہے ہیں، کہیں کوئی لڑکیوں کہ جہز اور شادی سے متعلق دیگر امور سرانجام دے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام ادارے اورافراد انسانیت کی بھلائی کے لئے برسرِپیکار ہیں۔بڑھ چڑھ کراپنے اپنے امور میں سبقت لینے میں سردھڑکی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ یقینا یہ لوگ ان تمام نیک کاموں کہ عوض قدرت سے جنت کے متمنی ہیں۔ ان تمام اداروں کو چلانے کے لئے خطیر رقم جو چندے کی صورت میں لوگ دے رہے ہیں۔ محرومی کتنے بڑے پردے میں پوشیدہ ہو کر کسی بھی شکل میں ہمارے سامنے ہو اس سے نمٹنے کے لئے ہم سب تیار ہیں۔ اپنااپنا حصہ کم یا زیادہ ڈال رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ کچھ ہوتا نظرنہیں آرہا۔ بالکل آپ خود جاکران اداروں کا جائزہ لیں تاکہ ہمارے ذہنوں میں اٹھنے والے تمام سوالوں کہ جواب اپنی آنکھوں کہ سامنے نظر آجائیں۔
خدمت کو عبادت سمجھنے والے اورخدمت کہ جذبے سے سرشار لوگ بغیر کسی تفریق اور تعصب کہ بغیر کسی سیاسی وابستگی کہ ، بغیرکسی مذہبی رجحان کہ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ نہیں پوچھتے یہ کون سی زبان بولتا ہے ، کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے، انہوں نے اپنے آپ کو خدائی فوجدار بنا رکھا ہے۔
قلم کار بھی معاشرے کو راستے کے پیچ و خم سمجھانے میں مصروف ہیں۔ اچھے برے میں تفریق کرنے کی صلاحیتیں فراہم کررہے ہیں۔ وقت وحالات سے باخبر رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں، ان میں سے کئی افراداپنی قیمتی زندگیوں کا نظرانہ پیش کرچکے ہیں۔ یہ اپنا کام بہت احسن طریقے سے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں پیدا ہونے والی نفسا نفسی کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوامی نمائندوں کو ان کے علاقوں کہ مسائل سے بھی آگاہ کرتے ہیں تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے کا بھی دھیان وہاں لے جاتے ہیں جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بغیر کسی عنوان کے قلمی فوجدار ہوتے ہیں جو آگہی کی مشعل لیے آگے سب سے آگے چلتے نظر آتے ہیں۔ کیا ان کی قدر کرنا معاشرے پرایسے ہی لازم نہیں جیسے ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قدر ہے۔
قلم کاروں کی بھی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ وہ فساد سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھیں۔ بلاتفریق ایسے معاشرتی عوامل منظرِعام پرلاتے رہنا چاہیں کہ آج کے دور میں قلمکاروں کو کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا جارہا ہے۔ کوئی قصیدے لکھنے کا پابند بنابیٹھا ہے تو کوئی دنیا کی ترقی میں پوشیدہ رازوں پر سے پردے اٹھا رہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ اپنا کام بہت احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک ضابطہ اخلاق کے تحت ان کے لئے سالانہ ایوارڈ کا انعقاد ہونا چاہئے۔ قلم کاروں کی خدمات کو بھی بھرپور طرح سے قومی سطح پر سراہا جانا چاہئے اور انہیں خوب سے خوب تر کی تلاش پراکسانا چاہیئے۔
قلم کارمعاشرے میں ایکتا اور سدھار کے لیے اپنے لہو سے تحریریں رقم کر رہے ہیں۔۔۔۔ہم بھی وہی سب کر رہے ہیں جو اس ملک کے رفاعی ادارے کررہے ہیں بس ان کے کرنے میں اور ہمارے کرنے میں فرق اتنا ہے وہ بہت آسانیوں کہ ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ ہم قلم کار سیاہی کی جگہ اپنا لہو استعمال کررہے ہیں، ’’بس ہمارے عزم کا کوئی عنوان نہیں ہے‘‘۔