پاکستان کوانگنت مسائل درپیش ہیں اورہرمسئلہ سنگین نوعیت کا ہے۔ اس فہرست کا آغاز دہشت گردی جیسے موذی اور لاعلاج مرض سے ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی اعلیٰ قیادت (سیاسی قیادت ہو یا فوجی قیادت) اپنی ساری طاقت اس ناسور نما دہشت گردی سے نمٹنے میں صرف کیے ہوئے ہے۔ ہرپاکستانی اس عزم کے تحت روزو شب گزاررہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے۔ اس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا، ہم داخلی مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہم نے اپنی سرحدوں پرخصوصی دھیان نہیں رکھا۔ اس بے دھیانی کا فائدہ ہمارے پڑوسی ممالک (جو ہماری سالمیت و استحکام سے خوفزدہ رہتے ہیں) اپنے دہشت گردوں کو تخریب کاری کرنے کے لئے ہمارے ملک میں داخل کرتے رہے۔
بھارتی وزیرِاعظم ان دنوں امریکہ کی یاترا پرہیں۔ گزشتہ ایک مہینہ کا جائزہ لیں تویوں لگ رہا ہے کہ مودی سرکار کسی خاص مشن پربھاگتے دوڑتے نظرآرہے ہیں، گوکہ عمر کے اس حصے میں اتنی بھاگ دوڑ صحت کے لئے اچھی نہیں، کبھی عرب امارات میں پائے جاتے ہیں تو کبھی سعودی عرب کہ فرمانروا کے سامنے اعزاز سے نوازے جاتے ہیں۔ افغانستان اورایران ان سے ملاقات کے لیے خود چل کرآئے یا انہیں بلوایا گیا۔اب جناب خود امریکا کہ دورے پرامریکا میں تشریف فرما ہیں0۔آپ دورے کیجئے مگر پاکستان کہ کاندھے پر رکھ کر اپنی سیاست مت چلائیے۔ دوسری طرف امریکی صدر بارک اوباما مودی کی زبان بولتے سنائی دے رہے ہیں۔
آخر یہ پاکستان کی سالمیت سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں ،کیوں پاک چین دوستی کو یہ تمام ” الف ” سے شروع ہونے والے ممالک اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ پاکستان کبھی کسی کی سالمیت کے لئے خطرہ نہیں بنا اورنہ بننا چاہتا ہے لیکن یہ لوگ کیوں پاکستانیوں سے اتنے خوفزدہ ہیں۔
ساری دنیا ہماری قابلیت سے ڈرتی ہے، یقیناً دنیا یہ بھی بہت اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے کہ اس قوم کو پوری طرح کھانے کو نہیں ملتا، گدھا اوردھوکا اس قوم کو کھانے کہ بعد پتہ چلتا ہے، سکون کی نیند میسرنہیں، بجلی گیس پانی جیسے بنیادی مسائل میں گھری رہنے والی قوم،یہ تو قومی غم ہیں یا اجتماعی غم ہے جن پرہمارے ملک کہ شرفاء سیاست کرتے ہیں۔ جس قوم کہ پاس بجلی کا بل دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں اور سیاسی قائدین اربوں روپے ملک سے باہر لے جا کرمحفوظ بنا لیتے ہیں۔ یعنی ڈر تو بے ایمانوں کو ہی ہوگا، ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ قوم ان سے اپنے مسائل کے حل کے لئے یہ پیسہ ان سے چھین نا لے، مگر یہ قوم ان مسائل اور غموں سے باہر نلکل نہیں پاتی کہ دوسری طرف اس طرح کہ چھوٹے بڑے انگنت گھریلو غم ہیں جو یہ قوم جھیل رہی ہے۔
ایک فرانسیسی فلاسفر والٹائر کا کہنا تھا کہ ’’ ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہے جو اپنی زجیروں کی عزت کرتے ہیں‘‘ میں بطور پاکستانی اپنا موازنہ کرنا ہوگا کہ کہیں ہم ایسی کسی زنجیر سے محبت یا عشق تو نہیں کر بیٹھے ہیں جو ہمیں ہماری گزشتہ اورآنے والی نسلوں کو غلامی میں جکڑی ہوئی ہیں۔
اب خودمختاری اوراپنے فیصلوں میں آزادی حاصل کرنے کا وقت ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے، اب امریکہ، ایران، افغانستان اور انڈیا کی سازشیں کھل کرنہ صرف عوام کہ سامنے بلکہ ساری دنیا کہ سامنے خود بہ خود ہی آتی جا رہی ہیں۔ جس طرح پانامالیکس قدرت کی جانب سے دنیا جہاں کے بے ایمانوں اور کرپشن زدہ لوگوں کہ منہ پرسے نقاب ہٹنے کہ مترادف قرار دیا گیا ہے بالکل اسی طرح پاکستان کی سرحدوں سے جڑے پڑوسی ممالک اورایک وہ ملک جس سے قربت بڑھانے میں ہم نے نہ صرف اپنا منہ کالا کروایا (حرفِ عام میں) بلکہ انگنت جانی و مالی نقصان کہ بھی اٹھانا پڑا۔
آج کے آخبارات میں پاکستان کے معمر ترین (ستاسی سالہ) مشیرِ خارجہ نے انڈیا اور امریکہ کہ تعلقات پر سوال اٹھادیا، یہ وہ عمل ہے جو بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ سوال اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں یہ لوگ آپ کے دشمن ہیں اور یہ ہراس عمل کے خلاف ایک ہوتے ہیں جس سے آپ کو کسی قسم کا فائدہ ہوتا نظر آرہا ہو۔ اس وقت باقی ماندہ دنیا کی نظریں تو شاید پاک چین تعلقات کو اتنی اہمیت نہ دے رہی ہوں مگر انڈیا اورامریکہ کی تو ان تعلقات کی وجہ سے لگتا ہے نیندیں اڑی ہوئی ہیں اوراس بات کی تصدیق ہم بھارتی وزیرِ اعظم کہ تازہ ترین بیان کو پڑھ کر بھی بخوبی کرسکتے ہیں کہ ’’پاکستان اور چین خطے کہ چوہدری بننا چاہتے ہیں‘‘۔ یعنی کوئی مودی صاحب کی چوہدراہٹ کو ٹھیس پہنچا رہا ہے۔جب سے پاک چین راہداری پرکام شروع ہوا ہے انڈیا اسی طرح کی بوکھلاہٹ کا شکار نظرآرہا ہے۔ وہ ہرممکن کوشش کے درپہ ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کو روک سکے یا کسی بھی طرح ان تعلقات میں دراڑ ڈال سکے۔
اگر ان کڑیوں کہ تناظر میں آگے بڑھیں تو گزشتہ دنوں ہونے والے دھماکے جس میں ہمارے عزیز دوست ملک چین کے دو باشندے بھی اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھےتو یہ کڑی آپ کو ’’را‘‘ سے جا کرملے گی، کسی کلبھوشن تک ہماری ایجنسیاں ضرور پہنچ جائیں گی یا شائد پہنچ بھی چکی ہوں۔
پاکستانی افواج کی قیادت کا کرداراس سارے معاملے میں بہت اہم ہے کیونکہ یہی وہ ادارہ ہے جس کی بدولت پاکستان کی سالمیت محفوظ ہاتھوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ ہم سب دعا گو ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین وقت کی نزاکت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی مفاد کی بنیاد پر قائم ہے اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی نئ طرز پر مرتب دینی ہوگی۔ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ آپ دشمن کو دشمن کہیں، چاہے کوئی آپ پرالزامات کی بوچھاڑکرنے سے نہیں چوکے۔
میں ذاتی طور پر ان سارے حالات و واقعات کو پاکستان کیلئے بہت سازگار سمجھتا ہوں لیکن صرف اس صورت میں جب ہماری سیاسی اورعسکری قیادت ایک پیج پرہوں۔۔۔اپنے سیاسی معاملات سلجھاتے رہیں مگردنیا کوایک زبان ہوکربتا دیں کہ پاکستان کی بقا ہمارے لئے سب سے مقدم اوراہم ہے۔ دنیا کو اپنی داخلی ایکتا سے ہی منہ توڑجواب دیا جاسکتا ہے۔