پاکستان سیکورٹی فورسز نے باقاعدہ افغان حکومت کو آگاہ کر کے پاکستانی سرحد کے 38 کلومیڑاندرگیٹ لگا کر افغانستان سے آنے والے سامان اور افراد کی نقل و حرکت کے لیے کوئی ضابطہ بنانے کا ارادہ کیا مگر یہ بات ہندوستان اورافغانستان کوہضم نہیں ہو سکی کیونکہ ہندوستان براستہ افغانستان اپنے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل کر رہا ہے اور اسی راستے سے اسلحہ اورمالی امداد بھی پہنچائی جاتی ہے اس لیے ہندوستان نے افغانستان کو بطور مہرہ استعمال کر کے پاکستان کو گیٹ لگانےسے باز رکھنے کے لیے فائرنگ کر دی۔
اس کاروائی کے پسِ پردہ چند حقائق اوربھی ہیں. ایک یہ کہ پاکستان کی خطے میں بہتر ہوتی ساکھ کسی کو بھی قبول نہیں ہے اس لیے ایران اور افغانستان بھی ہندوستان کے پاکستان مخالف پراپگنڈے میں شامل ہو گئے ہیں. اور کہیں نہ کہیں امریکہ بھی ہندوستان اورافغانستان کا ساتھ دے رہا ہے کیونکہ افغانستان میں حکومت امریکہ کی چھتر چھایا میں چل رہی ہے توایسا ممکن ہی نہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ لیا گیا ہو اور امریکی حکام اس سے لاعلم ہوں کیونکہ افغانستان جیسی وینٹیلیٹر پر چلتی حکومت میں اتنا تو دم خم نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا کی ساتویں بڑی طاقت جو کہ ایٹمی طاقت بھی ہے کو آنکھیں دکھا سکے۔
دوسرا یہ کہ اب امریکہ میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اوبامہ حکومت افغانستان میں قیامِ امن میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے تو جاتے جاتے وہ سارا ملبہ پاکستان پرڈالنا چاہتی ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیا، ایسا کرکے امریکی حکومت خود کو افغانستان میں پیدا کی ہوئی غیر یقینی صورت حال سے بری الزمہ قرار دینا چاہتی ہے۔
حال میں ہی امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں، ایف 16کی فروخت کامعاملہ ہویااین ایس جی میں ممبرشپ کامسئلہ، امریکہ کی بھارت نوازیاں کسی سےڈھکی چھپی نہیں ہیں. امریکہ کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہیں مگر اس کے باوجود امریکہ ایک مفاد پرست ملک ہے. اور یہ سب واقعات اس بات کا واضع ثبوت ہیں کہ امریکہ کے تعلقات صرف ذاتی مفادات کے لیے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوے تجارتی روابط اور چین کی خطے کے گرم پانیوں تک رسائی بھی امریکہ کے لیے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے. اس لیے بھی امریکہ بھارت کو نواز کر چین کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتا ہے اور بھارت کو امریکہ اس مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے اوربھارت افغانستان کے راستے دہشت گرد پاکستان میں پلانٹ کر کے پاک چین اقتصادی رہ داری کے منصوبے کو سبوتاز کرنا چاہتا ہے۔
اب کہ جب پاکستان کومغربی سرحد پر بھی خطرے کا سامنا ہے تو حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان نے داخلی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے مشرقی کے بعد اب مغربی سرحد کو بھی محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرنا شروع کر دئیے ہیں جو کہ ہر ملک کا جمہوری حق ہے اور پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے یہ وہ اپنے ملک میں انے والے افراد اورسامان کو باقاعدہ چیک کریں تاکہ ہر حال میں منشیات، اسلحہ اور مشکوک افراد کا داخلہ بند کیا جا سکے۔
پاکستان اور افغانستان اسلامی بردار ملک ہیں اور ہمارے بہت سے مفادات مشترکہ تھے اور ہیں بھی. پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کی ہے1979میں جب روس نےافغانستان پرحملہ کرکے10 لاکھ افغان مارےتوپاکستان ہی وہ واحد ملک تھاجس نےافغانستان کی مدد کی اور روس کو واپس جانے پر مجبور کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اسلامی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے پناہ کے ساتھ ساتھ افغانیوں کو کاروبار، نوکریاں بلکہ ایک نئی زندگی دی۔ مگر اب بھارت افغان حکومت اورعوام کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے جوکہ پاکستان سے زیادہ خود افغانستان کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ پاکستان سے تعلقات خراب ہونے کا مطلب مستقبل میں افغانستان کی سمندری راستے سے تجارت کا تقریبا ختم ہونا ہے امریکہ تو پہلے ہی افغانستان کو جہالت اور دہشت گردی میں چھوڑ کے جا رہا ہے اور افغانستان بھارت کی باتوں میں آ کر برادران یوسف کا کردار ادا کر رہا ہےجو کہ مستقبل میں افغانستان کے لیے اچھا نہیں ہو گا کیونکہ بھارت کبھی بھی افغانستان کا دوست نہیں ہوسکتا اوراپنا مفاد نکل جانے پروہ افغانستان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکے گا۔
ماہی‘ بلاگر اورسوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں ان کا قلم ملکی اورغیرملکی سیاسی معاملات پررواں رہتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاست کے پیچ و خم کو سادہ الفاظ میں عام قارئین تک پہنچاسکیں۔