The news is by your side.

کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی

ایران اورپاکستان دو اسلامی ممالک ہیں اور ان کے درمیان رشتہ صدیوں پر محیط ہے. دونوں ممالک کے درمیان بہت سے معاشی اوردفاعی نوعیت کے معاہدے طے پاچکے ہیں. دونوں اسلامی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات خطے میں قیام امن کے لیے بہت ضروری ہیں. زمینی حقائق اورجغرافیائی سیاست دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے نزدیک کرتی ہیں مگر پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر ایران، بھارت اورافغانستان کے مابین چاہ بہارکی بندر گاہ کے مشترکہ معاہدے کو لے کر بہت چہ مگوئیاں کی جارہی ہیں کہ جسے یہ معاہدہ بھارت اور ایران کو مزید نزدیک لے آئے گا اورافغانستان تو پہلے ہی بھارت کے ساتھ راہ و رسم بڑھا رہا ہے تو یہ خطے میں پاکستان کو اکیلا کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔

پہلی بات کہ گوادر اورچاہ بہاربندرگاہ کا ایک دوسرے سے کوئی مقابلہ نہیں ہے کیونکہ گوادر ایک قدرتی گہرے سمندر کی بندر گاہ ہے اور اس پرپاکستان اورچین کے مابین ہونے والے اقتصادی راہ داری کے معاہدے پرچھیالیس بلین ڈالر خرچ ہونے کا تخمینہ ہے جب کہ اس کے مقابلے میں چاہ بہار پرصرف اورصرف چھے سو ملین ڈالر کا تخمینہ ہے. گوادرمیں صرف ایک بندر گاہ ہی نہیں بنائی جا رہی بلکہ اس کو اقتصادی راہ داری کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے کہ جو کاشغر سے لے کر گوادر تک کے بل ترتیب تین روٹ پر مشتمل ہے جوکہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہوتے ہوئے چین تک جاتے ہیں. اس سے پورے پاکستان کو ترقی کے یکساں مواقع میسر آئیں گے۔

پاک چین اقتصادی راہ داری ایک میگا پروجیکٹ ہے کہ جس میں صرف بندرگاہ بنانا ہی ایک مقصد نہیں ہے بلکہ اس بندرگاہ کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال بھی کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے گوادر کو کاشغر سے زمینی راستوں کے ذریعے ملایا جا رہا ہے جو پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی تجارت کو بھی فروغ ملے گا اورپاکستانی برآمدات کو بھی عالمی منڈی میسرآجائے گی، دوسری جانب ہم اگر چاہ بہار کو دیکھیں تو اس کا کوئی مخصوص روٹ نہیں ہے ایران اور افغانستان کے درمیان تو زمینی راستہ ممکن ہے مگر بھارت تک سامان لانے اور لے جانے کے لیے سمندری راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور یہ بہت مہنگا سودا ہو گا اوراس سے چند مخصوص شہرہی ترقی کریں گے۔

یہ اقتصادی راہ داری پاکستان میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی حیثیت خطے میں کئی گناہ بڑھ گئی ہے، اس خطے کی ایک بہت بڑی تجارت اقتصادی راہداری کے ذریعے ہوگی اور چین کی یہ سرمایا کاری پاکستان کو لمبے عرصے تک فائدہ دیتی رہے گی. بھارت کوپاکستان کی یہ ترقی بری طرح سے کھل رہی ہے اس وجہ سے وہ ہرمنفی حربہ استعمال کرکے اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہا ہے. اقتصادی راہ داری کو نقصان پہنچانے کے لیے انڈیا ’را‘ کو استعمال کرکے اس منصوبے کوغیرمستحکم کرنا چاہتا ہے. افواجِ پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہ داری کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اورچیف آف آرمی سٹاف جرنل راحیل شریف نے اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ ملکی ترقی اورخوش حالی پرکسی قسم کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں